یادوں کے نقوش

انسانی تاریخ کا جائزہ لیں توجبر و استبداد، اور انسانوں کو غلام بنانے کی خواہش میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے والے ظالم حکمرانوں اور دیگر شخصیات کا ذکر نفرت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فرعون ظلم وستم کی علامت ہے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام انسان دوستی کے علَم بردار۔ اسی طرح لوگوں کو بادشاہوں اور دیگر آمروں میں سے اکثریت کے نام بھی یاد نہیں، اور ان کے آثارِ مرقد سے بھی کم ہی لوگ واقف ہیں، لیکن اولیائے کرام ؒ اس دنیا سے گزرنے کے سیکڑوں سال بعد بھی مرجع خلائق ہیں، کیونکہ انہوں نے مخلوق کی خدمت کی اور ان کے مسائل حل کیے۔
موجودہ عہد میں یہ کام نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے انجام دیا۔ انہوں نے انسانی خدمت کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ ان کے دل میں ہر انسان کے لیے درد تھا اور وہ کسی بھی نسلی، لسانی، مذہبی یا گروہی امتیاز کے بغیر انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ایک حدیث شریف کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ مخلوق اللہ کی عیال ہے۔ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ میں اس لیے فلاحی کام نہیں کرتا کہ لوگ ہمیں ووٹ دیں یا ہماری تعریف کریں، بلکہ ہمارے تمام کاموں کا مقصد اپنے اللہ ربّ العزت کو خوش کرنا ہے۔
میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے متعدد بار انہیں دیکھا، ان سے ملا، ان کے ساتھ بہت سے حوالوں سے ملاقاتیں رہیں۔ میں نے انہیں ہمیشہ خدمتِ خلق کا حریص پایا، اپنے لیے کچھ بھی نہیں بلکہ لوگوں کے لیے، پسے اور کچلے ہوئے طبقے کے لیے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کراچی کے طول وعرض میں کوئی علاقہ نہیں چھوڑا۔ جب انہیں کراچی کا بااختیار ناظم بننے کا موقع ملا تو انہوں نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے بلکہ شہر کا نقشہ بدل ڈالا۔ تاریکی، ظلم وتشدد اور دہشت گردی میں ڈوبے ہوئے کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں کے شہر میں تبدیل کردیا۔ اس کے علاوہ تھر کے تپتے ہوئے صحرا سے لے کر کشمیر کی برفانی چوٹیوں میں زلزلے کے متاثرین کی خدمت کرتے رہتے تھے۔
سفید داڑھی، سفید لباس، سفید کردار، با اخلاق، خوش گفتار، لبوں پر مسکراہٹ اور دھیمے انداز میں گفتگو۔ میں نے انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے دورِ طالب علمی، اس کے بعد روزنامہ جنگ، روزنامہ جسارت اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن میں نیوز پروڈیوسر اور رپورٹر کے طور پر انہیں مختلف مواقع پر دیکھا، ان سے ملا اور بات چیت کی۔ انتہائی سادگی اور شرافت کے باوجود ان کے اندر نہ جانے کیا بات تھی کہ انسان خود خود ان کی طرف کھنچا چلا جاتا تھا۔
وہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر تھے، صوبائی اسمبلی کے رکن بنے اور پھر کراچی کے ناظم، الخدمت کے مختلف پروجیکٹس۔ بہت سی یادیں ان سے وابستہ ہیں، ذہن کے دریچوں میں یادیں ایک ایک کرکے سامنے آتی ہیں۔ یہ تو یاد نہیں کہ سب سے پہلے ان سے کب اور کیسے ملاقات ہوئی، یا میں نے ان کو سب سے پہلے کہاں دیکھا۔
شاید نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے، میں نے انہیں پہلی بار کسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا تھا… بہت سادہ، دھیمے اور مدلل انداز میں خطاب کرتے ہوئے۔ اس کے بعد مختلف وقفوں میں انہیں دیکھتے رہے۔ ادارۂ نورحق میں متعدد مواقع پر انہیںدیکھا، ان سے ملے اور ان سے بہت سے سوالات بھی کرتے رہے۔
جب وہ کراچی شہری حکومت کے ناظم بنے اور حلف اٹھایا تو میں بھی وہیں موجود تھا۔ دھکم پیل کے باوجود ان سے مل کر انہیں مبارک باد دی۔ اس کے بعد ایک دن سوک سینٹر میں، جہاں ان کا آفس تھا، ان کی نیوز کانفرنس تھی۔ میں پاکستان ٹیلی ویژن میں نیوز پروڈیوسر تھا اور نیوز کوریج کے لیے گیا تھا۔ وہاں ان کے میڈیا کوآرڈی نیٹر حنیف اکبر نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ ہمارے آدمی ہیں۔ اس پر خان صاحب نے کہا کہ میں انہیں بہت پہلے سے جانتا ہوں۔ اس کے بعد سٹی گورنمنٹ کے بہت سے پروگراموں اور منصوبوں کے آغاز پر میں ان کی کوریج کے لیے جاتا رہا، اور کبھی یوں ہی ان کے دفتر جاکر ان سے باتیں کیا کرتا۔
ایک مرتبہ انہوں نے شہرِ قائد میں کھجور کے تناور درخت منگوا کرلگوائے تو اس کی نیوز کوریج اور صفائی کی مہم سے لے کر بہت سے میگا پروجیکٹس کی نیوزکوریج کی۔ ایک دفعہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انہوں نے سلیم اظہر بھائی کے گھر پر بلوایا تھا۔ انٹرویو شروع ہونے سے قبل ہماری ٹیم کے ایک ساتھی نے کسی مسئلے کے حوالے سے انہیں ایک پرچہ تھما دیا، جسے دیکھ کر وہ مسکرائے۔ اسی دوران میں نے ان کے ہاتھ سے وہ پرچہ لے کر اپنے ساتھی سے ناراضی کا اظہار کیا کہ یہ کوئی طریقہ ہے؟ اس پر خان صاحب مسکرائے اور بولے کہ بھئی لیٹر دینے دو۔ کسی کا مسئلہ ہوگا تو وہ اسے حل کرانے کی کوشش کرے گا۔
یہ شاید سن 2003ء کی بات ہے، ہمارے محلے شریف آباد، فیڈرل بی ایریا میں یونین کونسل نے ایوارڈ تقسیم کرنے کا پروگرام کیا۔ اس میں کراچی کے ناظم کی حیثیت سے خان صاحب صدارت کررہے تھے۔ مجھے علم نہیں کہ میزبانوں نے مجھے کس ’’جرم‘‘ میں ایوارڈ دیا، جب مجھے اسٹیج پر بلایا گیا تو خان صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے اور خیریت دریافت کرتے ہوئے وہی جملہ دہرایا جو میں اُس زمانے میں مختلف اعلیٰ شخصیات سے سنتا رہتا تھا کہ بھئی ہم تو تمہیں ٹیلی ویژن پر دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر ایوارڈ دیتے ہوئے منتظمین کو بلاکر کہا کہ اس ایوارڈ پر شبیر کا نام کیوں نہیں لکھا؟ ان کی یہی چند ملاقاتیں اور باتیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔
ایک زمانے میں کئی ’’خیر خواہوں‘‘ نے مشورہ دیا کہ اپنے کسی بھائی کے نام سے کوئی کنٹریکٹ فرم بنالو۔ میں نے کہا کہ اس سے کیا ہوگا؟ تو بولے کہ اس وقت نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم ہیں، ان سے چھوٹے موٹے ٹھیکے ملتے رہیں گے۔ میں نے کہا کہ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ نہ تو میں ان کاموں کو پسند کرتا ہوں اور نہ ہی خان صاحب۔ اس پر میرے وہ نام نہاد خیر خواہ بولے کہ خان صاحب سے براہِ راست کام لینے کی ضرورت نہیں، میں تمہیں طریقہ بتا دوں گا۔ لیکن میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر مصطفیٰ کمال کراچی کے ناظم بنے، ان سے بھی میرے تعلقات تھے، تو میرے ان ہی خیر خواہ نے کہا کہ تمہیں اپنی کوئی فکر ہی نہیں، اگر تم اُس وقت میری بات مان لیتے تو خان صاحب کے دور میں بھی کام ملتا اور اب مصطفیٰ کمال سے بھی۔ میں نے کہا کہ معاف کریں، اس پر شاید انہوں نے مجھے بے وقوف کہا تھا۔

شہری حکومت کے کارناموں کو عوام میں نمایاں کرنے کے لیے ایک ڈاکومنٹری بنائی تو خان صاحب سے قریبی رابطہ رہا، ایک مرتبہ الخدمت اسپتال اورنگی پر ڈاکومنٹری بنارہا تھا اور خان صاحب کا انٹرویو کرنا تھا۔ انٹرویو سے قبل وہ کہنے لگے کہ انہیں کتنے میں کاٹا؟ میں نے شرمندہ ہوکر کہا کہ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ اس پر وہ مسکرا کر بولے کہ ارے بھئی میں مذاق کررہا ہوں۔ ان کی یہی باتیں تو یاد آتی ہیںاور اسی طرح کے واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ افسوس کہ ان کی تفصیل لکھ نہیں سکا، بس ذہن کے دریچوں میں محفوظ رہ گئیں، اور اب ان کے نقوش وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھندلے پڑتے جارہے ہیں۔
ان کے اندر خلوص اور خدمت کا جذبہ تھا، جب ہی تو ان کی باتوں میں اثر تھا۔ سادہ الفاظ میں بات کرتے اور دلوں پر اثر ہوتا۔ ان کی آواز پاٹ دارتھی اور اس میں گھن گرج بھی تھی۔ لیکن عمر کے آخری حصے میں ان کی آواز کم ہوگئی تھی اور اونچی آواز میں نہیں بول سکتے تھے۔ لیکن پھر بھی اثر انگیزی اور سحرآفرینی تھی۔
اپنے عوارض اور جسمانی کمزوریوں کے باوجود وہ ہمیشہ متحرک رہے، کبھی تھر کے صحرا میں، اور کبھی کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں میں زلزلہ متاثرین کی خدمت میں۔
ایک دن میڈیا پر ان کے انتقال کی خبر سن کر دل میں دکھوں کا طوفان امنڈ پڑا۔ بہت سی باتیں یاد آنے لگیں اور ان سے متعلق تمام واقعا ت کسی فلم کی طرح ذہن کے پردے پر چلنے لگے۔ اگلے دن یعنی 26 فروری 2020ء کو ادارۂ نورحق کے باہر مین روڈ پر ان کی نماز جنازہ تھی، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اس میں شرکت کی۔ ادارۂ نور حق کی طرف جانے والے راستوں پر رش تھا، بہت مشکل سے پارکنگ ملی اور میں پہلے ادارۂ نورحق گیا اور پھر مین روڈ پر، جہاں ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ میں راستہ بناتا ہوا اگلی صفوں میں جا کھڑا ہوا۔ نمازِ جنازہ کے اجتماع سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق اور دیگر اکابرین نے خطاب کیا۔ اور نماز جنازہ بھی امیر جماعت نے پڑھائی۔
اس اجتماع میں صرف جماعت اسلامی کے کارکن ہی نہیں، بلکہ مختلف جماعتوں کے قائدین، سیاسی کارکن، اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہزاروں کی تعداد میں شریک تھے، اور اپنے اس رہنما کو خراجِ عقیدت پیش کرنے آئے تھے جس نے ان کے شہر کا نقشہ ہی بدل دیا تھا، صرف چار سال کی مختصر مدت میں کراچی کو صحیح معنوں میں روشنیوں کا شہر بنادیا تھا۔ ٹرانسپورٹ، پانی کی فراہمی و نکاس، تعلیم و صحت، تفریحی سہولتیں اور دیگر تمام کام کیے تھے۔ اور اب کراچی کیا ہے؟ کچرے کا ڈھیر اور غلاظت کا کچرے دان، مسائل کا انبار اور ایک مُردار، جہاں گدھ اسے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ اس نمازِ جنازہ میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت نعمت اللہ خان کو ان کا خراجِ عقیدت تھا، اور اسے پیش کرنے کا عمل ہمیشہ جاری رہے گا، خاص طور پر ان حالات میں جب کراچی کو تباہ وبرباد کردیا گیا تو ان کی یادیں مزید تازہ ہوتی جاتی ہیں۔