ترجمہ: ناصرفاروق
گوکہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اسلام سے پہلے کی عربی سائنس کے ذرائع بیشتر ناقابلِ بھروسا ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کہیں کوئی سچائی نہ تھی۔ الحارث بن کلدہ کے جُندی شاپور سے تحصیلِ علم پرشبہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اُس وقت جندی شاپور میں کسی اکادمی کا وجود ثابت نہیں ہے، اور اس پر بھی سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کلدہ نے کبھی ساسانی بادشاہ خسرواول کے دربار میں حاضری دی بھی تھی یا نہیں؟ لیکن اس حقیقت پر شک ممکن نہیں کہ وہ ایک تاریخی شخصیت تھا، اُس کا اور اُس کے بیٹے کا ذکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری کے ذرائع میں ملتا ہے۔ اس بات میں بھی شبہ نہیں کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اطباء اسلام سے پہلے علاج کے کئی طریقوں پر کام کررہے تھے۔ دشواری صرف ان کے کام کی نوعیت سمجھنے میں پیش آتی ہے، اور اس کی بنیادی وجہ ذرائع کی تاخیر ہے۔ جب تک ان ذرائع کا بغور تفصیلی تجزیہ نہ کرلیا جائے، ہم اسلام سے پہلے کے عرب میں علم طب کی حالت نہیں سمجھ پائیں گے۔ اسی درجے میں ہمیں اُس دور کے علم الادویہ کی تحقیق بھی کرنی ہوگی۔ جیسا کہ ہمیں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیثِ طب میں نمایاں نظر آتا ہے۔ چودہویں صدی کے عالم ابن قیم جوزی نے طبِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث ’’زادالمعاد‘‘ اور دیگر کاموں میں شامل کی ہیں۔
طب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ابن خلدون کا خیال ہے کہ: ’’یہ حصہ وحی الٰہی سے نہیں ہے۔ (علاج کے یہ طریقے) قدیم عرب روایات سے لیے گئے ہیں، اور انہیں دورِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موافقت میں آگے بڑھایا گیا ہے۔ ایسی دیگر کئی روایات اور ثقافتی سرگرمیاں تھیں، جنہیں اسلامی تعلیمات سے موافقت کی صورت میں باقی رکھا گیا ہے۔
حیاتیاتی سائنس
اس دائرے میں بھی ہماری معلومات مستند ذرائع پر استوار نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں، ہمارے مرکزی ذرائع بیشتر فرہنگ نویسی کے ضمن میں سامنے آئے ہیں، یہ زیادہ ترپودوں اور حیوانوں کے موضوعات پرقاموس نگاری پر مبنی ہیں۔ مثال کے طورپر ہمارے پاس ابو حنیفہ کی ’’کتاب النبات‘‘ ہے، جس میں مصنف نے پودوں ، جانوروں، اور کیڑوں کے بارے میں معلومات یکجا کردی ہیں، یہ لسانیاتی نوعیت کی ہیں، لغوی ہیں۔ قیاس یہ ہے کہ یہ معلومات اسلام سے پہلے کے عرب قبائل سے حاصل کی گئیں۔ یہ عرب قبائل اپنی زبان پرفخر کرتے تھے، ہرطرح کی معلومات عربی زبان میں منتقل کرلیتے تھے۔ مثال کے طور پر اس کتاب میں ایک باب ایسا ہے، جس میں وہ تمام پودے شامل ہیں جوتیرکمان بنانے میں کام آتے ہیں۔ ایک باب اُن پودوں کی بابت ہے جن سے دانتوں کے خلال کے لیے تنکے (Toothpicks)حاصل کیے جاتے تھے۔ تاہم اس کتاب کا ایک حصہ شہد کی مکھیوں کی عادتوں اورطرزِ زندگی پرتفصیلی معلومات بھی مہیا کرتا ہے۔
یہ کتاب، اور اس طرح کی دیگر کتابوں کا مطالعہ یا تحقیق سائنسی نکتہ نظر سے کی ہی نہیں گئی، اور نہ ہی ان میں موجود معلومات کو سائنسی نظریات کی بنیاد بنایا گیا۔ جیسا کہ بو والے پودوں کے بارے میں… خوش بو اور بدبو یا ناگوار بو والے پودوں کی اقسام الگ الگ بیان کی گئی ہیں۔ تاہم انہیں زیادہ تر لغوی اور لسانیاتی پیرائے میں ہی بیان کیا گیا ہے، اور ان طریقوں پر بھی بات کی گئی ہے جو خوش بو یا ناگوار بو منتقل کرتے ہیں۔ جو بو ناک قریب کرنے پر ہی آئے، اس طریقۂ منتقلی کو خاص نام دیا گیا ہے۔ جبکہ اُس طریقے کا نام مختلف ہے جو بوکو خود ناک تک پہنچا دے۔ بالکل اسی طرح، وہ بو جوہوا کے ساتھ سفر کرتی ہے، ایسی ہواکو خاص نام دیا گیا ہے، اور دیگر چیزوں میں بھی صفات کی بنیاد پر ناموں کو مخصوص کیا گیا ہے۔
بلا شبہ ان لسانیاتی حوالوں کا معیار ، کہ جو قدیم عرب قبائل کی نباتاتی درجہ بندی سے حاصل کیے گئے، غیر معمولی تھا۔ اور یہ درجہ بندی ایک سے درجے یا کم درجے کی نباتات میں مماثلتوں اور اختلافات کے لمحہ لمحہ گہرے مشاہدے پرکی گئی تھی۔ تاہم ایسی کتابیں درجہ بندی میں اپنی تکنیک کے باوجود ، سائنسی بنیاد سازی میں گہرے مطالعے کی متقاضی ہے۔
یہاں ہماری تحقیق کے لیے یہ نکتہ کافی ہوگا کہ یونانی علم ِنباتات یا علمِ ادویہ سازی کے متون کی آمد سے پہلے بھی، قدیم عرب قبائل کا علمِ نباتا ت غیر معمولی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں علمِ ادویہ سازی میں تیزی سے پیش رفت ہوئی،یہاں تک کہ یہ دیوسکوردیس(Dioscorides) یونانی کے کام سے بھی آگے نکل گئی۔تیرہویں صدی میں علمِ ادویہ پرابنِ بیطار کی قاموس دیوس کوردیس کیDe rnaten’a medica سے تین گنا بڑی اور معیاری تھی۔
وہ کتابیں جو علمِ حیوانات کے لیے مختص کی گئیں، اُن میں ایک کتاب الجاحظ کی، اور دوسری کمال الدین الدمیری کی ’’الحیات الحیوان الکبریٰ‘‘ نمایاں ہیں۔ یہ یکساں طور پر لغوی حوالہ جات پر مبنی ہیں۔ ان کا گہرا مطالعہ ضروری ہے تاکہ اسلام سے پہلے قدیم عرب کے علمِ حیوانات کی سطح معلوم ہوسکے۔ الدمیری کی کتاب حروفِ تہجی کی ترتیب سے لکھی گئی ہے، اور ہر حرف کے تحت وضاحت اور ہر جانور پر مشاہدات شامل کیے گئے ہیں۔
الجاحظ کا متن زیادہ قاموسی نوعیت کا ہے، یہ کئی موضوعات کو چھوتا ہے۔ خاص طور پرجانوروں کی عادات کا جائزہ اور مشاہدہ بڑی احتیاط اور گہرائی سے کیا گیا ہے۔ الدمیری لکھتا ہے کہ بطخوں کے بچے پیدائش کے فوراً بعد ہی تیرنے لگتے ہیں، اُن میں یہ صلاحیت پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے، اور نر بطخ، مادہ بطخ کے ساتھ ساتھ انڈے سینے میں مدد کرتا ہے۔ ان متون میں مویشیوں کے اندراج طویل ہیں، اور ان کے بارے میں معلومات بہت زیادہ باریک بینی اور مہارت سے شامل کی گئی ہیں، اور علمِ حیوانات سے ادویہ سازی میں فائدوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، یہ بھی قدیم عرب علمِ حیوانات سے ماخوذ ہے، اس معاملے میں بھی یہ یونانیوں کے محتاج نہ تھے۔
بعد کے متون، جیسا کہ قدیم عرب شاعری اشارہ کرتی ہے، قدیم عرب قبائل میں مویشیوں کے لیے دوائیں تیار کی جاتی تھیں، یہ بیشتر تجرباتی نوعیت کی تھیں، کیونکہ یہ مویشی اُن کی معاشی زندگی ناگزیر حصہ تھے،اور اُن کا علاج اور تحفظ ایسی ذمے داری تھی جس سے غفلت ممکن نہ تھی۔ اس مطالعے میں کہیں کہیں جانوروں کی وبائی جلدی بیماریوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی بیماریوں اور علاج کی کافی تفصیل بھی سامنے آتی ہے۔ بعد کے بہت سے متون میں، کہ جن میں جانوروں کے علاج اور دواؤں پربات کی گئی، کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی اور یونانی علمِ حیوانات کے اثرات بھی کہیں کہیں پائے گئے۔
ان قدیم عرب متون سے جو علوم کشید کیے جاسکتے ہیں، عرب جزیرہ نما کے بارے میں اس بات کا تعین کرسکتے ہیں کہ اسلام کی آمد کے وقت عربوں کا جانوروں اور پودوں کے بارے میں علم کس حالت اور درجے پر تھا، تاہم اس ضمن میں کبھی کوئی تحقیق نہیں کی گئی ۔
(جاری ہے)