تاریخِ ادبِ اردو (جلد دوم) (اٹھارویں صدی)۔

مصنف : ڈاکٹر جمیل جالبی
صفحات : 942 قیمت:1500 روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقیِ ادب
2 کلب روڈ۔ لاہور
فون : 042-99200856,99200857
ای میل : majlista2014@gmail.com
ویب گاہ : www.mtalahore.com

ڈاکٹر جمیل جالبی کی زیر نظر کتاب ایسی کتاب ہے جو اُن کا نام صدیوں زندہ رکھے گی۔ اس کی تصنیف میں انہوں نے اتنی محنت کی ہے کہ دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ان کی دلچسپی سے کمپیوٹر کمپوزنگ میں اس کی چاروں جلدیں طبع ہوگئی ہیں۔ یہ اس کتاب کی جلد دوم کا نواں ایڈیشن ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی تحریر فرماتے ہیں:
’’تاریخ ادبِ اردو کی جلد دوم آپ کے سامنے ہے۔ یہ جلد، جو کم و بیش اٹھارہویں صدی عیسوی کا احاطہ کرتی ہے، اپنی جگہ مکمل بھی ہے اور اگلی پچھلی جلدوں سے پوری طرح مربوط بھی۔ جلد اول 1975ء میں شائع ہوئی تھی، اور جلد دوم پر میں نے 1974ء ہی میں کام شروع کردیا تھا، جو تقریباً 8 سال بعد مارچ 1982ء میں مکمل ہوئی۔ یہ عرصہ ایسے گزر گیا جیسے کل کی بات ہو۔ اس طویل مدت کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ادبی تاریخ نویسی کی بنیاد دوسروں کی آرا یا سنی سنائی باتوں پر نہیں رکھی، بلکہ سارے کلیات، ساری تصانیف، کم و بیش سارے اصل تاریخی، ادبی و غیر ادبی مآخذ سے براہِ راست استفادہ کرکے روحِ ادب تک پہنچنے کی کوشش کی ہے، اور پوری ذمہ داری و شعور کے ساتھ، کم سے کم لفظوں میں، اسے بیان کردیا ہے۔ ویسے بھی جب آپ کسی ایک شاعر یا مصنف کا ڈوب کر مطالعہ کرتے ہیں تو پھر دوسرے شاعر یا مصنف کا مطالعہ کرنے کے لیے ذہن کو نئے سرے سے تیار کرنا پڑتا ہے تاکہ زیر مطالعہ شاعر یا مصنف آپ کی تخلیقی و تنقیدی شخصیت کا حصہ بن جائے۔ تاریخ لکھتے ہوئے میں نے ہر شاعر و مصنف کے ساتھ اسی طرح شب و روز بسر کیے ہیں۔
اگر ’’ادب‘‘ زندگی کا آئینہ ہے تو ادب کی ’’تاریخ‘‘ کو بھی ایسا آئینہ ہونا چاہیے جس میں ساری زندگی کی روح کا عکس نظر آئے۔ میں نے ’’تاریخ ادبِ اردو‘‘ کو ایک ایسا ہی آئینہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی طور پر میں نے ’’ادب‘‘ کو ادب کی حیثیت سے دیکھا ہے، لیکن کلچر، فکر اور تاریخ کے تخلیقی امتزاج سے میں نے تاریخِ ادب کو ایک وحدت، ایک اکائی بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں ادبی تاریخ کی سطح پر تحقیق، تنقید اور کلچر مل کر ایک ہوگئے ہیں۔ تحقیق سے میں نے حقائق و واقعات کی صحت و درستی کا تعین کیا ہے۔ تنقیدی شعور سے صحیح نتائج تک پہنچ کر، تاریخی زاویہ دیا ہے، اور کلچر سے ادب میں زندگی کے تنوع کو دریافت کرکے، تفہیم ادب کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو ان صفحات میں اسی لیے تحقیق میں تنقیدی شعور اور تنقید میں تحقیقی روشنی نظر آئے گی۔ یہی امتزاج ’’تاریخ ادبِ اردو‘‘ کا نمایاں پہلو اور اس کی انفرادیت ہے۔
اسی امتزاج کے ساتھ آپ کو اس ’’تاریخ‘‘ میں کئی سطحیں ملیں گی۔ تنقیدی و فکری سطح بھی اور تحقیقی و تہذیبی سطح بھی۔ روایت وتبدیلی کا سفر بھی اور شاعروں، مصنفوں کا تجزیہ بھی اور لسانی تبدیلیوں کے مباحث بھی، اور ان سب کے ساتھ ایک اسلوبِ بیان بھی۔ ایسا اسلوب جو آئینے کی طرح صاف و شفاف ہو، رواں و شگفتہ ہو اور عام بول چال کی زبان سے قریب ہوتے ہوئے بھی ’’ادبی‘‘ ہو۔ تاریخِ ادب لکھتے ہوئے میں نے رنگین، شاعرانہ اسلوب سے حتی الوسع دامن بچایا ہے تاکہ اسلوب کی رنگینی اصل تاریخ کو ماند نہ کردے۔ جہاں بے ضرورت فارسی و عربی الفاظ سے گریز کیا ہے وہاں حسبِ ضرورت اضافتوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے اور کہیں غیر عربی و فارسی لفظوں میں اضافہ و عطف استعمال کرکے اردو نثر کے لحن اور آہنگ کو ابھارا ہے تاکہ پڑھنے والا شاعری کے آہنگ کی طرح، نثر کے لحن سے بھی لطف اندوز ہوسکے، اور یہ نثر ایسی ہو جو ادبی تاریخ کے مزاج سے پوری مطابقت رکھتی ہو۔ یہ کام طویل اور پیچیدہ جملوں سے بھی لیا گیا ہے اور چھوٹے جملوں سے بھی۔ اگر تاریخ پڑھتے ہوئے آپ کو جملوں کی طوالت اور پیچیدگی کا احساس نہیں ہوا تو اس کے معنی یہ ہیںکہ میں نثر لکھنے میں ناکام نہیں رہا۔
تاریخ کا کام ادبی روایت کو اپنے اصل خدوخال کے ساتھ اجاگر کرنا ہوتا ہے، اور پھر اس روایت سے پیدا ہونے والی اس انفرادیت کو بھی، جس سے ایک تخلیقی شخصیت اور دوسری تخلیقی شخصیت میں لطیف و نازک فرق پیدا ہوتا ہے۔ کہیں یہ انفرادیت محض تجربے کی انفرادیت ہوتی ہے، اورکہیں یہ انفرادیت زمان و مکان سے آزاد ہوکر آفاقیت بن جاتی ہے۔ اسی سے مختلف شخصیتوں کا، ان کے اپنے دور میں اور پھر آج تک کی تاریخ میں مقام متعین ہوتا ہے۔ اسی سے یہ مسئلہ بھی طے ہوجاتا ہے کہ کس ادبی شخصیت کا ذکر تاریخ میں کیا جانا چاہیے اور کتنا؟ ادبی تاریخ لکھتے ہوئے یہ اور اس قسم کے بے شمار مسائل سامنے آتے ہیں۔ میں نے ’’تاریخ ادبِ اردو‘‘ میں حتی الوسع یہی کوشش کی ہے۔
زیر نظر دور کا بنیادی سنہ ہجری ہے، اسی لیے اس کو بنیادی طور پر استعمال کیا ہے، لیکن آج کے پڑھنے والوں کی سہولت کے لیے عیسوی سنین بھی ساتھ دے دیے ہیں۔ پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے سارے حواشی بھی ہر باب کے آخر میں جمع کردیے ہیں اور ان کی ترتیب کے حوالے متن میں درج کردیے ہیں۔ ان حواشی میں کتابوں کے حوالوں کے علاوہ بعض مفید نکات بھی ملیں گے۔ بعض ایسے حوالے، جن کا مطالعہ قاری کے لیے ضروری تھا، اسی صفحے پر درج کردیے گئے ہیں۔ جلد دوم کی فہرست مختصر ہے لیکن ’’اشاریے‘‘ کی مدد سے، جو مفصل ہے، آپ اپنے حوالے یا موضوعات و شخصیات وغیرہ کو بہ آسانی تلاش کرسکتے ہیں۔ سارے موضوعات متعلقہ مصنف یا صنفِ ادب کے تحت درج کردیے گئے ہیں، اور جو ان کے علاوہ ہیں انہیں متفرق موضوعات کے تحت درج کردیا گیا ہے۔ اسی لیے ’’موضوعات‘‘ کا اشاریہ مختصر ہے۔
پہلے جلد دوم دو حصوں میں علیحدہ علیحدہ چھپی تھی، اب دونوں حصوں کو ایک جلد میں اکٹھا کردیا گیا ہے۔
کتاب مجلّد ہے۔ سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔