۔’’غمزۂ خوں ریز ‘‘۔

مصنف : محمد فاروق(برطانیہ)
صفحات : 600 قیمت: 650 روپے
ناشر : فضل ربی راہی، شعیب سنز پبلشرز،
جی ٹی روڈ، مینگورہ ، سوات
فون : (0946)722517-729448
ای میل : shoaibsons@yahoo.com

غالب نے کیا خوب کہا ہے :۔

ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

بلاشبہ حضرتِ انسان کے اندر ایک وسیع کہکشاںآباد ہے، اس کہکشاں کا ایک جز صلاحیتوں کی دنیا بھی ہے۔ بعض صلاحیتیں موقع کی مناسبت سے جِلا پاجاتی ہیں، اور بعض بوجوہ خوابیدہ رہ جاتی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ ہمارے فاروق صاحب جنھوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ زمین اور اس کی ماہیت(Geology)سمجھنے میں کھپایا، اولاً ارضیات اور پھر ماحولیات کی اعلیٰ ترین ڈگریاں پاکستان اور اس کے بعد انگلستان سے حاصل کیں، لیکن ان کے اندر موجود ادبی صلاحیت نے بالآخر اپنے آپ کو منواکرہی دم لیا۔ فاروق صاحب اوائل عمری میں ہی تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ سیّد مودودیؒ کے لٹریچر کی خواندگی کے فیضان نے ایک ماہر ارضیات کو اعلیٰ درجے کا انشاء پردازبنا ڈالا۔ ایسا شخص جو خالص پشتون ماحول میں پلا بڑھا ہو، اور پچھلے 20برس سے انگلستان میں رہائش پذیر ہو، نیز اپنے پورے تعلیمی دور میں کبھی زبان و ادب کا باقاعدہ طالب علم نہ رہا ہو، وہ ایک دو نہیں پوری پانچ کتابیں تحریر کرڈالتا ہے، اور کتابیں بھی ایسی کہ ادبی اعتبار سے اعلیٰ درجے کی نثرکی خوبیوںکی حامل اور مباحث کے اعتبار سے وقیع علمی موضوعات پر مشتمل ہوں۔ اقبالؒکے الفاظ میںکہنا پڑتا ہے:۔

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

یہ بات تو بالکل عیاں ہے کہ ان کی اس صلاحیت میں مکتب کا گزر دخل تو بالکل نہیں ،البتہ فیضان پر بات کی جاسکتی ہے۔ اس فیضان کا منبع سیّد مودودیؒکی نگارشاتِ عالیہ ہیں۔ اردوکی دنیا کے بہت سے نام ہیں جو اس چشمہ سے فیض اُٹھا کر ادب اور صحافت کی دنیا میں معروف ہوئے ۔ افسوس کہ بر صغیر میں سیّد مودودی ؒپر اس طرح کام نہیں ہوسکا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا، بالخصوص سیّد صاحب کے فیضان کا یہ پہلو تو بالکل ہی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ کاش ان فیض یافتہ لوگوںمیں سے کوئی اٹھے اور سیدّ مودودیؒ کے اس گوشے کو نمایاں کرے۔حنیف رامے ترقی پسند اور سوشلسٹ خیالات کے ادیب اور صحافی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیّد مودودیؒ نے اسلام کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ اردو کی خدمت میں مولانا مودودیؒ، بابائے اردو مولوی عبدالحق سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔
فاروق صاحب کی کتاب پر گفتگو سے پہلے اس کتاب تک رسائی کی داستان بھی سن لیجیے۔ روزنامہ ’’امت‘‘ میں اس کتاب کی چند دلچسپ اقساط چھپی تھیں۔ ایک قسط میں مولانا غوث ہزارویؒ، جو سیّد مودودیؒ کی دشمنی میں تمام اخلاقی حدود پار کر گئے تھے، ’’ایک مودودی…سو یہودی‘‘ کا نعرہ بھی ان ہی کا ایجاد کردہ تھا، ان کے عروج اور اس کے بعد عوامی بے وقعتی کی داستان بڑے مؤثر اور سبق آموز پیرائے میں بیان کی گئی تھی۔ دو تین اقساط کے بعد اخبار نے یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ ان دلچسپ اقساط کو پڑھنے کے بعدکتاب کے مطالعے کا داعیہ زور پکڑ گیا۔ چناں چہ کتاب کی تلاش میں روزنامہ ’’امت‘‘ سے رابطہ کیا کہ ناشر کا پتا معلوم ہوسکے۔ لیکن ان کے ہاں سے یہ جواب ملاکہ مذکورہ کتاب کا نسخہ ان کے ریکارڈ سے غائب ہوچکا ہے۔ اردو بازار کا رخ کیا تو دکان دار صاحب میری طرح خود بھی اس کتاب کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے۔ ابھی اُن سے بات ہو ہی رہی تھی کہ ایک اور صاحب بھی اس کتاب کی تلاش میں آن وارد ہوئے۔ قصہ مختصریہ کہ کتاب کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ کئی روز بعد ایک دن اچانک انٹرنیٹ پرکتاب کا نام ٹائپ کیا تو فوراً ہی کتاب کا سرورق ناشر کے نام اور پتے کے ساتھ اسکرین پر نمودار ہوگیا۔ اس پتے پر فون کرکے کتاب حاصل کی۔ بالعموم مصنف یا ناشر کتاب کے دو نسخے تبصرے کی درخواست کے ساتھ بھیجتا ہے، لیکن اس تبصرے کی خاص بات یہ ہے کہ کتاب کے مصنف یا ناشر کی تحریک کے بغیر یہ تبصرہ صرف کتاب کے مطالعے کا قرض سمجھ کر کیا جارہا ہے۔ سب سے پہلے کتاب کے عنوان کے معنیٰ پر بات ہوجائے، اس لیے کہ ایک زمانہ تھا کہ اردو پڑھنے والے عربی اور فارسی الفاظ سے کسی نہ کسی درجہ مانوس تھے۔ لیکن اب قارئین کا ذوق اس درجے کا نہیں رہا کہ وہ ایسے الفاظ سمجھ سکیں۔
ایک مرتبہ سیّد مودودیؒ نے 60ء کی دہائی 1965-68))میں عصری نشستوں کی گفتگو میں کہا تھا ’’دراصل زبان کا ستیاناس دو جگہوں سے ہورہا ہے، ایک ہمارے تعلیمی اداروں میں، دوسرے اخبارات میں‘‘۔ یاد رہے اُس زمانے میں ذرائع ابلاغ اخبارات اور ریڈیو ہی کا نام تھا۔ ایک دور تھا کہ یہی دو ادارے زبان کے ذوق کی آبیاری کرتے تھے، اور زبان وصحتِ تلفظ کے معاملے میں کس درجہ محتاط اور حساس تھے، اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے: ۔
قیام پاکستان سے قبل کی بات ہے، پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے سربراہ تھے اور آغا اشرف نبیرۂ محمد حسین آزاد براڈ کاسٹر تھے۔ ان کے پروگرام ’’آداب عرض‘‘ کی عوام میں مقبولیت کا یہ عالم تھاکہ سامعین پروگرام کے مقررہ وقت سے پہلے ٹرانزسٹر سیٹ کرکے پروگرام کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے۔ پطرس بخاری اور آغا صاحب میں لفظ ’’مٹّی‘‘ کے تلفظ پر اختلاف ہوگیا۔ پطرس بخاری کا کہنا تھا کہ صحیح تلفظ ’’مَٹّی‘‘(م پر زبر کے ساتھ) ہے، جبکہ آغا صاحب کا مؤقف تھا کہ ’’مَٹّی‘‘ اور’’مِٹّی‘‘ دونوں تلفظ درست ہیں۔ دونوں حضرات اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے، اور نتیجہ یہ نکلا کہ آغا اشرف ریڈیو کی ملازمت سے مستعفی ہوکر چلے گئے۔
اخبارات کے مدیر حضرات بھی زبان کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور زبان کے معاملے میں بڑے حساس ہوتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں بھی جب تک لائق اور تدریس کو مشن سمجھنے والے اساتذہ موجود تھے تب تک زبان کی صحت کا بہت التزام تھا۔ ان دونوں اداروں میں انحطاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد کے ادوار میں قارئین کا ذوق اور زبان دانی اس درجہ پست سطح پر آن پہنچے کہ پچھلے دنوں باقاعدہ یہ بحث چل نکلی تھی کہ قارئین کی سہولت کے پیش نظر بعض کتب کی زبان کو سہل بنانا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پڑھنے والوں کے ذوق اور زبان دانی کی سطح کو بلندکرنے کی تدابیر پر بات کی جاتی۔
کتاب کا عنوان’’غمزہ خوں ریز ہے‘‘۔ ’’غمز‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ کسی کے کمزور پہلوؤں کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرنا ہے۔ یہ عنوان اقبال ؒ کے درج ذیل شعر سے ماخوذ ہے:۔

متاع دینِ و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی

اقبالؒ اس شعر میں فرماتے ہیں: اے ساقی (ساقی سے مراد جذبۂ عشق ہے)، جو دین پر مر مٹنے والے تھے تہذیبِ فرنگ کے سحر میں مبتلا ہوگئے۔ ہائے کس کافر نے انہیں اس متاع سے محروم کردیا، جس کے باعث دین و ملت کا وقار جاتا رہا۔
یہ عنوان کتاب کے مباحث پر پوری طرح صادق آتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مصنف سرورق پر نہ سہی، افتتاحی صفحے پر یہ شعر تحریر کردیتے۔
مشہور ماہرِ اقبالیات، موجودہ ادبی دنیا میں استاذ الاساتذہ کا درجہ رکھنے والے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے اس کتاب پر مختصر لیکن جامع تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب مصنف کی آپ بیتی اور ذہنی سفر کی داستان ہے‘‘۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جوں جوں انسان کی عمر اور مطالعہ بڑھتا ہے، توں توں اس کے علم اور تجربے میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ بصارت تو بالعموم کمزور ہوجاتی ہے لیکن بصیرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ فاروق صاحب ایک جانب حساس دل، سوچنے اور تجزیہ کرنے والا دماغ رکھتے ہیں، دوسری جانب اپنے خیالات اور احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کا عمدہ سلیقہ اور ہنر بھی جانتے ہیں۔ یہ کتاب فی الواقع ان کے عمر بھر کے مطالعے اور ذہنی و علمی سفر کی روداد ہے۔ اس کتاب میں مختلف مباحث ہیں۔ تصوف اور شریعت کا تذکرہ بھی ہے، اوردیگر امور پاکستان بالخصوص جہادِ افغانستان اور کشمیر کے حوالے سے وقیع معلومات بھی ہیں۔ یہ کتاب ایک تحریکی فرد کی تصنیف ہے اور اس کا بڑ ا حصہ تحریکِ اسلامی سے متعلق ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس میں تحریکی کارکن کی دل چسپی کے ساتھ ساتھ تحریکی فکر کو مہمیزدینے کے لوازم بھی موجود ہیں۔ تحریکی ذہن کے حامل افراد کو اس کتاب کا مطالعہ لازماً کرنا چاہیے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے اس کتاب میں تصوف کے حوالے سے طویل گفتگو ہے، اور تصوف ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں کثیر مواد موجود ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مواد میں چہار سو افراط وتفریط کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّد مودودیؒ کی قبر کو نور سے منور کردے (آمین)، تصوف کے بارے میں سیّد صاحب کا تبصرہ بڑا واضح اور دل میں اتر جانے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تصوف کی ایک قسم وہ ہے جو اسلام کے ابتدائی دور کے صوفیہ کے ہاں پائی جاتی تھی، جس میں سارے وہی اعمال واشغال تھے جو کتاب وسنت سے ماخوذ تھے۔ یہ تصوف عین مطلوب و مقصود ہے۔ تصوف کی دوسری قسم وہ ہے جس میں اشراقی، رواقی، رزدشتی اور ویدانتی فلسفوں کی آمیزش ہوگئی اور رفتہ رفتہ عیسائی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے بھی کسی حد تک داخل ہوگئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نتیجہ یہ ہوا کہ شریعت و طریقت اور معرفت بالکل الگ الگ اور باہم مختلف و متصادم اصطلاحات بن کر رہ گئیں۔ تصوف کے اس ایڈیشن کو مٹانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جاہلیتِ جدیدہ کو۔ تصوف کا تیسرا ایڈیشن وہ ہے جس میں کچھ خصوصیات تو پہلی قسم کے تصوف کی پائی جاتی ہیں، اور کچھ دوسری قسم کے تصوف کی۔ تصوف کا یہ ایڈیشن اُسی وقت درست مانا جائے گا جب دوسری قسم کے تصوف کی آلائشوںسے پاک ہوجائے۔ مصنف نے دوسری اور تیسری قسم کے تصوف کو ’’عجمی تصوف‘‘ کا نام دیا ہے۔ تصوف کے ضمن میں ان کی بحث (باب چہارم) فی الواقع بڑی جان دار اور لائقِ مطالعہ ہے۔ اس کتاب میں تصوف کا بیانیہ علمی بھی ہے اور ساتھ ساتھ مصنف کے ذاتی مشاہدے اور تجربے پر مبنی احوال بھی ہیں۔ کتاب میں بیان کردہ مباحث بڑے دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ اطمینان بخش بات ہے کہ یہ ایسے شخص کا بیانیہ ہے جو تصوف کے بارے میں عین اسلامی نقطہ نظر کا حامل ہے۔
600 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا بڑا حصہ تحریک اسلامی اور اس کی خدمات سے بحث کرتا ہے۔ باب 24میں مطیع الرحمٰن نظامیؒکی شہادت کے واقعے کا ایسا رقّت آمیز بیان ہے جو پڑھنے والوں کو آنسوؤں سے رلا دیتا ہے۔ اسی طرح ماچھی گوٹھ کے واقعے کی تفصیلات، جو تحریکی تاریخ کا ایک اہم باب ہے، اور نئی نسل کو یہ تفصیل لازماً پڑھنی چاہیے تاکہ وہ تحریکی تاریخ سے واقف ہوسکیں۔ خلافت و ملوکیت پر اعتراضات، مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی علیحدگی، اور اسی طرح کے دوسرے مباحث ہیں، جن پر بڑی متوازن اور حقیقت پر مبنی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ صاحب کے ذکر میں ان کی قرآنی خدمت کی تحسین کے ساتھ ساتھ سیّد مودودیؒ کے بار ے میں ان کے رویّے پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ صاحب کی اعتدال ناآشنا طبیعت کے مظاہر پر بڑی چشم کشا گفتگو کی ہے، جو لہجے اور اسلوب کے اعتبار سے شائستگی اور متانت سے عبارت ہے۔ تنظیم اسلامی کے لوگوں کے لیے یہ گفتگو نہایت اہم اور لائقِ توجہ ہے۔ کتاب کے مباحث اس لائق ہیں کہ ان پر گفتگو کی جائے، لیکن طوالت کے خوف سے اسے موقوف کرنا پڑرہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ادبی محاسن کی حامل اور فکر انگیز ہے۔کتابت کی غلطیاں گاہے گاہے نظر آتی ہیں، امید ہے اگلے ایڈیشن میں ان کی تصحیح کردی جائے گی۔ لیکن صوری اعتبار سے بھی یہ کتاب بہت عمدہ ہے، جس کے لیے کتاب کے ناشر جناب فضل ربی راہی بجا طور پر تحسین و مبارک باد کے مستحق ہیں۔

شاہنواز فاروقی کی کتاب ’’سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں‘‘ شائع ہوگئی

چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت شاہنواز فاروقی کی کتاب سر سید احمد خان تاریخ کی میزان میں شائع ہو گئی ہے۔ اس کتاب میں شاہنواز فاروقی نے سرسید کی فکری اور تہذیبی سوچ اور تحریروں کا علمی جائزہ لیا ہے۔ شاہنواز فاروقی نے 27 بڑے موضوعات منتخب کر کے ان کی فکر اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف نے لکھا کہ اگر سر سید محض ایک آدمی ہوتے تو ان پر کتاب لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن ان کا مسلم معاشرے پر اثر ہے اور اس حقیقت کی روشنی میں ان کی فکر کی اصل کو سامنے لانا بہت ضروری تھا۔ اس کتاب میں شاہنواز فاروقی نے سر سید کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کیا ہے مشرق و مغرب کے مکالمے کے مفروضے کو ان ہی کی تحریروں کے اقتباس پیش کر کے رد کیا ہے۔ بہر حال یہ کتاب علمی جستجو رکھنے والوں کے لیے نہایت اہم ہے اور اس کا مطالعہ ذہن کے دریچوں کو کھولنے کا کام کرے گا۔