ٹریک اِٹ ایپ (Trackit app)،اس ایپ کے ذریعے بچوں کی ’آن لائن‘ سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس کی بدولت والدین براؤزر اور میسج پر بہ آسانی نظر رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ آن لائن گیم کھیلنے پر بھی آپ جان سکتے ہیں کہ بچہ کون سا گیم کھیل رہا ہے اور کھیلتے ہوئے اُسے کتنا وقت ہوچکا ہے۔ اس سے وائی فائی ٹریکنگ جیسی اہم معلومات حاصل ہوجاتی ہیں، اور ٹریک کیے گئے فون سے نوٹیفکیشن بھی موصول ہوجاتا ہے۔
ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)،اس ایپ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بچوں کے فون کی زبردست طریقے سے مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے آپ بچوں کے موبائل پر آنے والی کال بھی سن سکتے ہیں اور براؤزر کی تاریخ کی مکمل معلومات، کال لاگنگ اور پیغامات بھی دیکھ سکتے ہیں۔
دی ٹرتھ اسپائی ایپ (The Truth spay app)،اس ایپ کی ٹریکنگ خصوصیت کی وجہ سے صارفین اپنی گم شدہ ڈیوائس کا کھوج لگا سکتے ہیں، اس ایپ میں براؤزر اور ’جی پی ایس سسٹم‘ کی مانیٹرنگ شامل ہے۔ مفت دستیاب یہ اینڈرائیڈ ایپ والدین کے لیے بہترین ہے، جو بروقت درست مقام کو ٹریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
اسپائزی ایپ (Spyzie app)،یہ بہ آسانی انسٹال ہونے والی ایپ بچے کے اینڈرائیڈ فون کے لیے بہترین مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیتی ہے، اگر آپ کا بچہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتا ہے، تو پریشانی کی بات نہیں، آپ اس ایپ کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے محفوظ کیے گئے ملٹی میڈیا مواد کو ڈاؤن لوڈ کرکے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ایپ کی key logger ٹول کے ذریعے جان سکتے ہیں کہ بچے نے کیا ٹائپ کیا ہے۔
چلڈرن ٹریکنگ،یہ ایپ والدین کے لیے نعمت ہے۔ یہ دیگر اینڈرائیڈ ‘ایپ‘ سے ذرا مختلف ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہ صرف بچوں کی آن لائن سرگرمیوں سے باخبر رہنے میں معاون ہے، بلکہ جسمانی طور پر بھی انہیں ٹریک کر سکتی ہے کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہیں۔
فامی سیف ایپ (Fami Safe app)،فامی سیف مانیٹرنگ ایپ ونڈر کمپنی نے بنائی ہے، یہ ایپ اپنے سوفٹ ویئر کی وجہ سے سے اتنی منفرد ہے کہ والدین بہ آسانی بچے کے موبائل پر رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور انھیں بچے کی نگرانی کے لیے اس کے پاس ہر وقت موجود رہنے کی بھی ضرورت نہیں، کیوں کہ والدین ’جیو فینسنگ فیچرز‘ کے ذریعے بچوں کے علم میں لائے بغیر، ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔
فضائی آلودگی، مستقل نابینا پن کی وجہ بن سکتی ہے
ایک طویل سروے سے معلوم ہوا ہے کہ آلودہ ہوا میں پائے جانے والے باریک ذرات دھیرے دھیرے آنکھوں کو نقصان پہنچا کر اس ناقابلِ تلافی کیفیت تک لے آتے ہیں جسے ’میکیولرڈی جنریشن‘ (ایم ڈی) کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں مستقل نابینا پن بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کی مختلف جامعات اور سائنسی اداروں کی ایک ٹیم نے 2006ء سے اب تک 116,000 افراد کا مطالعہ کیا ہے۔ ان میں مختلف عمروں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ ان تمام افراد سے کہا گیا کہ اگر ڈاکٹر ان کی آنکھوں میں میکیولر ڈی جنریشن مرض تشخیص کریں تو وہ فوراً اس کی اطلاع دیں۔ تاہم اس دوران 52 ہزار سے زائد افراد کی آنکھوں کا مسلسل معائنہ بھی کیا گیا جن میں ان کے ریٹینا کی موٹائی میں کمی بیشی اور نظر کا معائنہ بھی کیا جاتا رہا۔ واضح رہے کہ میکیولرڈی جنریشن عمر رسیدہ افراد میں مستقل نابینا پن کا ایک مرض ہے جس میں آنکھوں کی پشت پر خون کی باریک رگیں رسنے لگتی ہیں اور ان میں چربی اور پروٹین کے باریک لوتھڑے جمع ہونے لگتے ہیں۔ فضا میں موجود گرد، دھویں اور کہر جیسی آلودگیوں کے پی ایم 2.5 (ڈھائی مائیکرو میٹر باریک) ذرات سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ایک جانب تو یہ آنکھوں کو متاثر کررہے ہیں اور دوسری جانب یہ سانس کی نالی سے پھیپھڑوں اور قلب کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ تاہم ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے شہروں اور ممالک میں فضائی آلودگی پر قابو پائیں تو صحت کے ان مسائل کو بڑی حد تک کم کیا جاسکے گا۔
چھوٹے بچوں کو ورزش کرائیے، تعلیم میں بہتر بنائیے
چار سے چھے سال کے بچوں کی قلبی اور پھیپھڑوں (کارڈیو رسپائریٹری) کی صحت ان میں بہتر تعلیمی کارکردگی کی وجہ ہوسکتی ہے۔ یعنی اگر اس عمر کے بچے اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں زیادہ دور تک چل پاتے ہیں تو وہ اکتساب اور تعلیمی صلاحیت میں ان سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ 4 سے 6 برس تک کے بہت چھوٹے بچوں میں بھی اگر تنفسی قلبی مضبوطی ہو اور وہ اس ضمن میں چلنے اور دوڑنے والے ایک ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دماغ کا حجم بڑا ہے جس میں نیورون (اعصابی خلیات) دیگر کے مقابلے میں زیادہ روابط رکھتے ہیں۔ سائنس دانوں نے دنیا بھر کے والدین پر تشویش کا اظہار کیا ہے جو اپنے بچوں کو باہر نہیں نکالتے اور انہیں بھاگنے دوڑنے کا وقت نہیں دیتے۔ والدین نہیں جانتے کہ گھر پر ٹی وی اور ٹیبلٹ دکھاکر بچوں کو وہ کس جانب دھکیل رہے ہیں۔ اگر بہت چھوٹے بچے بھی ورزش سے دور ہیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ اکتساب، سیکھنے اور جاننے کا عمل بچوں کی اوائل عمری میں ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر انہیں چلنے، دوڑنے اور سخت کھیل کا عادی بنایا جائے تو اس کے مثبت ذہنی اثرات پوری زندگی پر حاوی رہتے ہیں۔ ماہرین نے بچوں کے لیے 6منٹ کا تدریسی ٹیسٹ بنایا جس میں ارتکاز (فوکس) اور دماغی لچک (فلیکسبلٹی) کو بطورِ خاص مدِنظر رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد 33 بچوں کو ای ای جی کیپ پہناکر ان میں سماعت اور اس پر ردِعمل کا ٹیسٹ لیا گیا۔ ای ای جی ٹیسٹ سے بچوں کے ارتکاز کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ اس تحقیق سے بچوں میں کارڈیورسپائریٹری صحت اور دماغی صلاحیت کا جائزہ لیا گیا، اور جن بچوں میں ورزش اور دوڑنے کی عادت تھی انہوں نے ہر قسم کے ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی دکھائی۔