میں پچھلے دو دن سے اردو کے ایک عظیم شاعر کا ایسا دیوان پڑھ رہا ہوں جو دو سو سال کے بعد سامنے آیا ہے لیکن افسوس کہ یہ شاعر دنیا میں نہیں رہا۔ یہ کوئی عام شاعر نہیں ہے بلکہ وہ شاعر ہے جس کے بارے میں مرزا غالبؔ نے کہا تھا: ؎۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
تو جناب یہ دیوان میر تقی میرؔ کا ہے جسے اردو زبان کے ایک معروف اسکالر ڈاکٹر معین الدین عقیل سامنے لائے ہیں۔ سنگِ میل پبلی کیشنز نے اسے ’’میر تقی میرؔ کا غیرمطبوعہ دیوانِ ہفتم، دریافت و انکشاف‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ میر تقی میرؔ کے کلیات میں چھے دیوان شامل رہے ہیں، لیکن اس ساتویں دیوان کا سراغ ملائشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سولائزیشن کی لائبریری سے ملا۔ اس لائبریری میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والے اردو اسکالر عبدالرحمٰن بارکر کا ذخیرئۂ کتب موجود ہے، اور ان کتابوں میں سے ڈاکٹر معین الدین عقیل نے میر تقی میرؔ کے غیرمطبوعہ دیوانِ ہفتم کا سراغ نکالا۔ یہ دیوان دراصل میر تقی میرؔ کے کلام کا انتخاب ہے۔ کچھ غزلیں پچھلے چھے دیوانوں میں موجود ہیں لیکن اس ساتویں دیوان میں ایسی غزلیں اور اشعار شامل ہیں جو غیر مطبوعہ اور کتابت شدہ ہیں۔ ایک غزل کا یہ شعر اہم ہے؎۔
جو جو ظلم کیے ہیں تم نے سو سو ہم نے اٹھائے ہیں
داغ جگر پہ جلائے ہیں چھاتی پہ جراحت کھائے ہیں
میر صاحب 1723ءمیں آگرہ میں پیدا ہوئے اور 1810ءمیں ان کا لکھنؤ میں انتقال ہوا۔ زیادہ وقت دہلی میں گزرا۔ انہوں نے بہت افراتفری اور ابتلا دیکھی، اور اس دیوان میں بھی ایسی غزلیں شامل ہیں جن کے اشعار پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ دو سو سال بعد بھی حالات نہیں بدلے، فرماتے ہیں؎۔
ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نہ خواہ رلاتے ہو
آنکھ اٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو
میر تقی میرؔ کے دیوانِ ہفتم کی دریافت اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے اور میرے لیے اس دیوان کا پتا ملنا اس لیے بہت اہم تھا کہ میرے اپنے دادا مرحوم میر عبدالعزیز کا بھی دیوان گم ہو گیا تھا۔ وہ اردو، فارسی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ ایک دفعہ سیالکوٹ سے مشاعرہ پڑھنے لاہور آئے۔ مشاعرہ رات گئے تک چلا تو وہیں آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو دیوان غائب تھا۔ والد صاحب نے اس دیوان کو تلاش کرنے کے لیے اخبارات میں بہت خبریں چھپوائیں، لیکن یہ دیوان نہ ملا۔ دو دن قبل جب اِس خاکسار نے میر تقی میرؔ کے غیرمطبوعہ دیوانِ ہفتم کا مطالعہ شروع کیا تو میڈیا پر ڈسکہ کے حلقہ این اے 75میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے بعد لاپتا ہونے والے پریزائیڈنگ افسران کا ذکر چل رہا تھا۔ میں ایک دلچسپ صورت حال سے گزر رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں میر تقی میرؔ کا دیوانِ ہفتم تھا جو دو سو سال تک لاپتا رہا اور میرے سامنے ٹی وی اسکرین پر این اے 75میں دو درجن پریزائیڈنگ افسران کی گمشدگی کا شور تھا۔ ہفتے کی صبح چھے بجے یہ لاپتا پریزائیڈنگ افسران اپنے ریٹرننگ افسر کے پاس واپس پہنچے اور بتایا کہ وہ دھند کی وجہ سے لیٹ ہو گئے تھے۔ کسی کی طبیعت خراب تھی اور کسی نے اپنی عینک گم ہو جانے کا بہانہ کیا۔ لیکن دھند والے دلچسپ بہانے سے کئی افسانے بن گئے۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا ؎۔
سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے
اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے
ڈسکہ کی دھند سے برآمد ہونے والے لاپتا پریزائیڈنگ افسران نے جو کہانیاں سنائیں وہ ایک ایسی دھند کا پتا دیتی ہیں جو کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور جس کے بارے میں امجد اسلام امجد نے کہا تھا؎۔
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے
دھند کا بہانہ بنا کر کئی گھنٹے تک لاپتا رہنے والے ایک پریزائیڈنگ افسر سے پوچھا گیا کہ ریٹرننگ افسر کی طرف سے آپ کو بار بار فون کیے گئے، کیا فون بھی دھند کی وجہ سے بند تھا؟ بیچارے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ہمارے انتخابی عمل نے پہلے محکمہ زراعت کو بدنام کیا، اب محکمہ موسمیات کو بدنام کردیا۔
(حامد میر۔جنگ،22فروری2021ء)
انسان نے جتنا خون بہانا ہے اسی بدقسمت سیارے پر بہالے
صدیوں پہلے انسان کے نزدیک کائنات کا مفہوم ہماری زمین پر کرئہ ارض تھا، اور جس کے اوپر ایک نیلا شامیانہ تنا ہوا تھا۔ اس شامیانے میں ہزاروں (یا لاکھوں) ستارے کسی ٹانکنے والے نے ٹانک رکھے تھے اور بس۔ لیکن پھر دوربین ایجاد ہوئیں، رصد گاہیں بنیں، شعاعیں دریافت ہوئیں، روشنی کی رفتار کا پتا چلا، اور ایسی مشینیں بن گئیں جو یہ سراغ لگا سکتی تھیں کہ کون سی شعاع کتنا عرصہ پہلے کائنات کے کس علاقے سے چلی، اور یوں اس جگہ کی دوری معلوم ہوئی۔ تب معلوم ہوا کہ زمین کائنات نہیں، اس کا حجم تو کائنات کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں جتنا صحرائے اعظم کی ریت کے ایک ذرے کا ہوسکتا ہے۔ پرانے تصور باطل ہوتے گئے، نئی حیرانیاں سامنے آنے لگیں۔ ہمارا سورج زمین سے کتنا بڑا ہے؟ اس کے اندر ہمارے کرئہ ارض جیسے کئی لاکھ سیارے سما سکتے ہیں، یہ اتنا بڑا ہے۔ ہولناک حد تک بڑا۔ لیکن کائنات میں تو سورج کی کچھ حقیقت بھی نہیں۔ اس سے بڑے کھربوں در کھربوں سورج موجود ہیں، مثلاً یو وی سکوٹی نامی سورج، جس کا نصف قطر سورج ہمارے سورج سے سترہ سو گنا زیادہ ہے۔ یہ سورج زیادہ دور نہیں، بس ہماری زمین سے ساڑھے نو ہزار نوری سال کے فاصلے پر۔
اس تحریر کا مقصد کائنات کے اعداد و شمار بتانا ہرگز نہیں۔ صرف یہ بتانا ہے کہ یہ اتنی بڑی کائنات کا صرف وہ حصہ ہے جہاں تک ہم دوربینوں، شعاعوں کی رفتار کے حساب سے فاصلوں کا تعین کرسکتے ہیں۔ اصطلاحاً اسے قابل مشاہدہ کائناتی حصہ کہہ لیجیے، ورنہ مشاہدہ کہاں۔ پوری کائنات کتنی بڑی ہوگی؟ لیکن یہ سوال بھی رہنے دیجیے۔ اصل سوال کچھ اور ہے۔ یہ کائنات تو محض ایک ہے اور سائنس والوں کا حساب یہ ہے کہ جہاں ایک کائنات ختم ہوتی ہے، وہاں سے بے کراں خلا شروع ہوتا ہے، اور جہاں یہ خلا ختم ہوتا ہے وہاں دوسری کائنات شروع ہوجاتی ہے۔ کبھی بہت بڑے ایمپوریم کو دیکھیے، لاکھوں مچھلیاں تیرتی ہوئی نظر آئیں گی۔
ہر مچھلی کو ایک کائنات سمجھ لیجیے اور اس کے اور دوسری مچھلیوں کے درمیان کے پانی کو خلا۔ ہر مچھلی میں اربوں کھربوں سورج، چاند، ستارے ہیں۔ صرف ہماری کہکشاں میں جسے ملکی وے (Milkyway) کا نام دیا گیا ہے، چار سو ارب سورج ہیں۔ ہمارا ننھا منا سورج ان چار سو ارب میں سے محض ایک ہے، اور ہماری زمین جیسی لاکھوں زمینیں اس ننھے منے سورج کے اندر سما سکتی ہیں۔ تو یہ ہے ہماری کہکشاں اور یہ ہے ہماری کائنات… اور ابھی یہ پھیل رہی ہے، کن فیکون کی صدا بدستور اور دمادم آرہی ہے۔
فرض کرلیں کائنات ایک جگہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے آگے کیا ہے؟۔۔۔۔ معلوم ہے؟ دماغ بھک سے اڑ گیا کہ نہیں۔ جواب ہے: خلا۔ اور پھر سوال ہے کہ یہ خلا کہاں تک جاتا ہے؟ خلا کے بعد کیا ہے؟ اور یاد رہے مطلق خلا (Nothingness) کوئی شے نہیں ہوتا۔ خلا بھی مکان ہے اور یہ مکان کہاں تک ہے اور اس کے بعد کیا ہے؟ اور پھر اس کے بعد کیا ہے؟ بہتر ہے اس سوال پر غور نہ ہی کریں۔ دماغ کا فالودہ کرنے کے سوا آپ کچھ نہیں کرسکیں گے۔ فی الحال ایک کام کی بات پر گزارا کیجیے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کے اختیار میں خون بہانا ہے۔ لیکن یہ اختیار وہ صرف کرئہ ارض پر استعمال کرسکتا ہے۔ (فرشتوں نے کہا تھا: اے خدا تُو ایسی مخلوق بنا رہا ہے جو زمین پر خون بہائے گی) اللہ اکبر۔ ثم اللہ اکبر! دوسرے سیاروں پر خون بہانے کے لیے دوسری مخلوق ہوگی۔ انسان کو جتنا خون بہانا ہے اسی بدقسمت سیارے پر بہا لے، دوسرے سیاروں کا خیال چھوڑ دے۔
(عبداللہ طارق سہیل۔ روزنامہ 92۔23فروری 2021ء)