بازو ئے شمشیر زن

عمرو بن معدی کرب (643ء) یمن کا مشہور بہادر اور تیغ زن شاعر تھا۔ اس کی تلوار ’’صمصامہ‘‘ اتنی تیز تھی کہ ایک ضرب میں دھڑ کے دو ٹکڑے کردیتی تھی۔ فاروق اعظمؓ (644ء) نے اپنے دورِ خلافت میں اس سے یہ تلوار مانگی، اس نے بھیج دی۔ آپ نے کسی غازی کے حوالے کی۔ اس نے شکایت کی کہ تلوار کی کاٹ اچھی نہیں ہے، اس لیے یہ ’’صمصامہ‘‘ نہیں۔ جب یہ خبر معدی کرب تک پہنچی تو وہ مدینے پہنچا اور کہنے لگا ’’لائو میری تلوار“۔ تلوار ہاتھ میں لے کر وہ ایک اونٹ کی طرف بڑھا اور ایک ہی ضرب میں اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے۔ پھر فاروق اعظمؓ سے کہا ’’میں نے آپ کو صرف تلوار بھیجی تھی، اپنا بازو نہیں بھیجا تھا‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار، نومبر2018ء)

کمالِ فن اور شیخی

عربی گرامر (حرف و نحو) کے علم کا ماہر ایک استاد دریا عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوا۔ جب کشتی بادِ موافق کے سہارے مزے سے دریا پر تیرتی جارہی تھی تو علم نحو کے بادشاہ نے ’’ملاح‘‘ سے باتیں کرنا شروع کردیں۔ پوچھنے لگا ’’بھائی ملاح! تُو نے علمِ نحو پڑھا ہے؟‘‘ ملاح کی جانے بلاکہ نحو کیا ہوتا ہے؟
کشتی بان نے کہا ’’مولوی صاحب نحو کیا چیز ہے؟ میں نے تو اج تک اس کا نام بھی نہیں سنا‘‘۔ استاد بولا ’’واہ رے میاں ملاح، تُو نے تو یونہی ’’آدھی عمر برباد کردی‘‘۔ ارے جو شخص علمِ نحو سے واقف نہیں وہ انسان نہیں حیوان ہے۔ افسوس تُو نے اپنی زندگی کشتی چلانے میں گنوادی۔ نحو جیسا فن نہ سیکھا‘‘۔
کشتی چلانے والے کو بڑا غصہ آیا، بہرحال بے چارہ خاموش ہوگیا اور لاجواب ہوکر چپ رہا۔ جب کشتی عین دریا کے درمیان میں پہنچی تو قدرتی طور پر بادِ مخالف زور سے چلنے لگی، سب کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ کشتی کا بہ سلامت کنارے پر لگنا ناممکن نظر آنے لگا۔
ملاح نے کہا ’’بھائیو! کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے، تیر کر پار ہونے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ ملاح نے اُس وقت علمِ نحو کے ماہر استاد صاحب سے کہا ’’حضور اب اپنے فن سے کچھ کام لیجیے، کشتی غرق ہونے والی ہے“۔ حضور اس وقت خاموش رہے۔ اس وقت نحو کیا کام دیتا! پھر کشتی بان نے کہا ’’اس وقت نحو کا کام نہیں محو کا کام ہے۔ آپ کو کچھ تیرنا بھی آتا ہے؟‘‘ استاد صاحب نے جواب دیا ’’بالکل نہیں آتا‘‘۔
ملاح نے کہا ’’حضرت پھر تو آپ کی ساری عمر برباد ہوگئی‘‘۔ دریا کا پانی مُردہ کو اپنے سر پر رکھتا ہے اور زندہ غرق ہوجاتا ہے۔ اپنے آپ کو مٹانے اور فنا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا راستہ طے ہوتا ہے۔ تکبر والے محروم اور غرقِ آب ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔“
درس حیات:غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ (مولانا جلال الدین رومی۔ حکایاتِ رومی)

حسد

٭حسد سے بچو، حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے۔ (الحدیث)۔
٭سب سے بہتر آدمی وہ ہے جس کے دل میں کھوٹ اور حسد نہ ہو اور زبان کا سچا ہو۔ (الحدیث)۔
٭کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ (الحدیث)۔
٭جب لوگ آپس میں حسد نہ کریں گے، ان میں ہمیشہ بھلائی اور خیر سایہ فگن رہیں گے۔ (الحدیث)۔
٭پہلی امتوں کا مرض تم میں بھی سرایت کررہا ہے ایک حسد، دوسرے باہمی دشمنی۔ ان میں سے ہر چیز مونڈنے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بالوں کو مونڈتی ہے بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (الحدیث)۔

چار حماقتیں

حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ چار حماقتوں سے بچو:۔
(1) بچوں پر غصہ
(2) امیروں کی صحبت
(3) سنگ دل غنی کے سامنے اظہارِ حاجت
(4) اللہ کے سوا کہیں اور تلاش ِراحت۔

زبان زد اشعار

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
(غالبؔ)
……٭٭……
ایک اک کرکے ستاروں کی طرح لوٹ گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ احباب میں تھے
(محسن احسان)
……٭٭……
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
(ذوقؔ)
……٭٭…‭…
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں
(زہرہ نگاہ)
……٭٭……
اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
(فانیؔ)