مطلوبہ دینی قیادت

مسلمانوں کا معاشرہ جب روبہ ترقی تھا تو ان کی دینی قیادت اپنی نوعیت اور اثر کے اعتبار سے ہمہ گیر تھی۔ یہ خانقاہوں، مدرسوں، مسجدوں سے لے کر شاہی لشکر اور دربار تک سب پر اثر انداز ہوتی تھی۔ لیکن جب مسلم معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا تو دینی قیادت کی ہمہ گیری ختم ہونے لگی اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دیہات میں مسجد کا مولوی کمّی طبقے کا ایک فرد خیال کیا جانے لگا۔ ایک دوسرا ’’مذہبی طبقہ‘‘ اُن خانوادوں کا تھا جو اپنے بزرگوں کے نام و نسب اور مقابر و مزارات کی بنا پر ممتاز تھے، اس حیثیت میں وہ بڑے زمیندار، جاگیردار بن گئے تھے۔ ان کی اولاد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی تھی اور ان کے افرادِ خاندان فوج اور بیوروکریسی میں ممتاز عہدوں پر فائز ہوگئے تھے۔ یعنی یہ وہ خانوادے تھے جن کے پاس مذہبی تقدس کا لبادہ بھی تھا، سیاسی طاقت اور انتظامی اثر و اختیارات بھی تھے، تعلیم بھی تھی اور دولت بھی۔ ان لوگوں نے مسجد کے کمّی مولوی کو رکھا، لیکن اپنے مقابلے میں کوئی حقیقی مذہبی طاقت ابھرنے نہیں دی۔ اس طرح صرف جھاڑ پھونک کرنے والے افراد یا کچھ مجذوب صفت بزرگ تھے، جن کو مذہبی قیادت کا نام دیا گیا، یا شہری علاقوں میں رہائش پذیر دینی مدرسے چلانے والے کچھ علما رہ گئے۔ چونکہ یہ علما شہروں میں رہتے تھے اور شہروں کے تاجروں، دست کاروں یا پڑھے لکھے لوگوں سے ان کا رابطہ تھا، اس لیے ان کا طرزِ فکر حکومتی طبقے سے مختلف خطوط پر ارتقا کرتا رہا، اور دیہات کے جو پرانے گدی نشین خانوادے تھے وہ ان پر اثرانداز ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ اس طرح علما کا نیا طبقہ اور نئی تحریکیں وجود میں آئیں جو باشعور شہری طبقے کی آرزوئوں اور خیالات کا مظہر تھیں۔
آج بھی اگرچہ کہ ان علما کا چراغ ان دیہی علاقوں میں نہیں جلتا جہاں پرانے خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ لیکن اب دیہاتوں میں بھی ان کے اپنے مضبوط حلقے ہیں اور قومی سیاست کے ارتقا میں ان حلقوں اور طبقوں کا بڑا دخل ہے۔ یہ تاجروں میں بھی اثر رکھتے ہیں اور محنت کش مزدور آبادیوں میں بھی ان کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ متوسط طبقے کے افراد بھی ان کے اردگرد عقیدت اور جوش کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ایسی طاقت ہیں جسے حکمراں نظرانداز نہیں کرسکتے۔ مگر ان کا علاج یہ سوچا گیا ہے کہ ان کے مخصوص فرقہ وارانہ مسلک اور مکتب فکر کے تضادات کو ہوا دے کر فرقہ واریت پیدا کی جائے اور ان علما کو اس فرقہ وارانہ شر میں الجھا کر رکھا جائے، تاکہ یہ کوئی عوامی اور سیاسی طاقت نہ بن سکیں جو حکومت کے لے دردِ سر کا سبب ہو۔
طاغوت کا ایک حربہ یہ بھی ہے کہ علما اپنے آپ کو غیر سیاسی بنالیں اور حکومت ِ وقت کا احتساب کرنے کے بجائے یا تو فرقہ واریت پھیلانے میں سرگرم رہیں، یا اپنی مسجدوں اور مدرسوں میں بیٹھے اللہ اللہ کرتے رہیں۔ اس اللہ اللہ پر شیطان کو نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ اس کا کوئی مفاد اس سے خطرے میں پڑتا ہے۔ لیکن اسلامی تحریک کا تقاضا نہ فرقہ پرست علما ہیں، نہ ایسے علما جو کاروبارِ سیاست سے الگ رہیں۔ اسلامی تحریک کی کامیابی کے لیے ایسی دینی قیادت درکار ہے جو سیاسی شعور کی نعمت اور عوامی جدوجہد کی صلاحیت رکھتی ہو، جس سے کام لے کر وہ سیاسی اقتدار لوگوں کے ہاتھوں سے چھین سکے۔ یہ کام اگر اسلامی قیادت نہیں کرے گی تو کوئی اور کرے گا۔ کیونکہ موجودہ مقتدر طبقہ قومی اور ملکی معاملات و مسائل کے حل میں ناکام رہا ہے۔ اس کے دن پورے ہوگئے ہیں۔ اس کی جگہ کسی دوسرے طبقے کا آنا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ تبدیلی اگر مسلمانوں کی صحیح دینی قیادت کے ہاتھوں برپا ہوتی ہے تو اس سے دین بھی سربلند ہوگا، اور اگر ہمیں صحیح دینی قیادت مہیا نہیں ہوتی اور غلط قسم کے یا مذہب بیزار لوگ اس تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں تو اس کا نقصان پاکستان اور اسلام دونوں کو ہوگا۔ لیکن اس کی ذمہ داری اس صحیح دینی قیادت کے فقدان پر ہوگی جو سیاسی تبدیلی کی آرزو اور صلاحیت سے محروم ہے۔
( سیاسی، سماجی تجزیے)

بیادِ مجلس اقبال

عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔