دین کے دشمن

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہت سے لوگ ایسے ہیں جو (بظاہر تو) پراگندہ بال اور غبار آلود (یعنی نہایت خستہ حال اور پریشان صورت) نظر آتے ہیں، جن کو (ہاتھ، زبان کے ذریعے) دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے، لیکن (وہ اللہ جل جلالہ کے نزدیک اتنا اونچا درجہ رکھتے ہیں کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو یقیناً پورا کرے‘‘۔(رواہ مسلم، المشکوٰۃ:ص 446)۔
از:علامہ عبدالماجد دریاباری
وَذَرِالَّذِّیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَّلَھْوًا وَّغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا -(انعام۔ع8)۔
’’اور ان لوگوں کو چھوڑ دیجیے، جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے جنہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے‘‘۔
مذہب کی سنجیدہ اہمیت آج کن کے دلوں سے جاتی رہی ہے؟ احکامِ مذہب کے ساتھ ہنسی اور تمسخر آج کن کا شعار ہوگیا ہے؟ فٹ بال اور کرکٹ، ہاکی اور ٹینس، گھڑ دوڑ اور پولو، تھیٹر اور سینما، تاش اور شطرنج سے بھی کم اہمیت و وقعت نماز اور روزہ کی آج کن کی نظروں میں رہ گئی ہے؟ حیاتِ دنیوی نے آج کن کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ دنیوی ترقیوں پر آج کون مٹا ہوا ہے؟ مادی ترقیوں پر آج کس کی جان جارہی ہے؟ موٹروں اور ہوائی جہازوں نے آج کن کے دلوں سے موت و آخرت کی یاد بھلا رکھی ہے؟ کالجوں اور یونیورسٹیوں نے آج کسے عالم غیب سے بے نیاز کررکھا ہے؟ آہن پوش (ڈریڈ ناٹ) جہازوں اور ایک منٹ میں صدہافیر کر ڈالنے والی کلدار توپوں نے آج کن قوموں کو اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے غافل و بے ہوش بنا رکھا ہے؟
اگر ان سوالات کا جواب صاف اور واضح ہے، اگر ایسی قوموں کی نشانیاں کھلی ہوئی ہیں تو ارشاد ہو کہ آپ کا عمل ان قوموں اور جماعتوں کے ساتھ آپ کے مذہب کے احکام کے کہاں تک مطابق ہے؟ آپ کو حکم تو یہ ملا تھا کہ ایسے لوگوں کو چھوڑ دو۔ حکم بالکل صاف لفظوں میں ہے، حکم کی تشریح بھی بہترین شارحین نے یہی کی ہے کہ ’’کنارہ کشی اختیار کرلو‘‘، ”ہم نشینی ترک کردو‘‘، ”تعلقات قطع کرلو“۔ کیا آپ کا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ اپنے لڑکوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں لادلاد کر تعلیم و تربیت کے لیے فرنگستان روانہ کرتے رہیے؟ کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ اپنے دیس میں اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے فرنگیوں اور فرنگنوں کے نمونے پر زیادہ سے زیادہ اسکول اور کالج کھولتے رہیے؟ کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ اپنی زبان، اپنی معاشرت، اپنے علوم سب کچھ بھلا کر… اُنھی کی زبانیں، اُنھی کی معاشرت اور اُنھی کے علوم و فنون سیکھتے جایئے؟ کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ اپنے رزق کی کنجی سرکاری ملازمتوں اور سرکاری امتحانات کے اندر محدود و مخصوص سمجھ کر اندھا دھند سرکاری دفتروں اور سرکاری محکموں میں گھسنا شروع کردیجیے؟ کیا اس حکم پر یہی عمل ہے کہ حاکموں کی عقل کو عقلوں کا حاکم سمجھیے؟
آپ سے ابھی کوئی یہ تو نہیں کہتا کہ اپنی جان دے دیجیے یا کسی کی جان لے لیجیے۔ سوال نہ تو پھانسی پر چڑھنے کا ہے، نہ گولی کھانے کا… یہاں تو سوال صرف اعراض و کنارہ کشی، بے تعلقی و ترکِ جماعت کا ہے۔ اپنی جگہ پر سوچیے اور غور کیجیے کہ دین سے ہنسی اور کھیل کرنے والوں اور مادی ترقیوں پر مفتون اور مغرور ہونے والوں سے آپ اپنی زندگی کے کس شعبے میں اور کس حد تک دور، الگ، بے تعلق اور کنارہ کش رہ سکتے ہیں؟