مسئلہ کشمیر اورامریکی پالیسی

امریکی دفتر خارجہ اور پاکستانی وزیرخارجہ کے درمیان ”ٹویٹ، جواب آں ٹویٹ“ کا مقابلہ

امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر’’ ٹویٹ جواب آں ٹویٹ‘‘ کا ایک چھوٹا سا مقابلہ اور مکالمہ ہوا، اور حیرت انگیز طور پر یہ ایک خوش گوار دوستانہ میچ تھا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 4G انٹرنیٹ کی بحالی پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرس نے خیرمقدمی بیان جاری کیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ بھارتی کشمیر میں 4G انٹرنیٹ کی بحالی کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انڈیاز کشمیر یعنی’’بھارتی کشمیر‘‘ کی اس اصطلاح پر پاکستان نے حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے احتجاج کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر باضابطہ احتجاجی ٹویٹ بھی جاری کیا۔
بھارتی کشمیر اور پاکستانی کشمیر کی اصطلاحات سفارتی سطح پر استعمال ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک نہ بھارت کے کہنے پر پاکستانی مقبوضہ کشمیر، اور نہ پاکستان کے کہنے پر مقبوضہ کشمیر کی اصطلاح استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا معاملات ومسائل کو اپنی عینک سے دیکھتی ہے۔ اِس وقت اس بات پر کامل اتفاق نظر آتا ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے۔ پاکستان کے احتجاج کا فائدہ یہ ہوا کہ امریکہ کی جوبائیڈن انتظامیہ کا ذہن پڑھنے میں آسانی ہوئی۔ پاکستان کے احتجاج پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کو پریس بریفنگ میں ایک امریکی صحافی کی طرف سے اِس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ کشمیر سے متعلق کیا امریکہ کی پالیسی بدل گئی ہے؟ امریکی ترجمان نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا، اور وہ کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے، اور یہ 4G انٹرنیٹ کی بحالی کشمیر میں نارملسی کی طرف اہم قدم ہے۔ امریکہ کی اس وضاحت کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خیرمقدم کیا۔ اس وضاحت کے بعد اب کشمیر پر امریکہ کی پالیسی کو سمجھنا آسان ہوگا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ چین کی طرح امریکہ بھی پانچ اگست کے واقعات پر بھارت کا مؤقف قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ’’نارملسی کی طرف اہم قدم‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ بھی تسلیم کررہا ہے کہ کشمیر میں اس وقت کچھ بھی نارمل نہیں۔
4G انٹرنیٹ کی بحالی عین اُس دن عمل میں آئی جب پاکستان یوم یکجہتی کشمیر منارہا تھا، اور عمران خان نریندر مودی اور بھارت کی کشمیر پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس کے چند دن بعد 9 فروری کو جوبائیڈن اور نریندر مودی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ بائیڈن نے بھارت میں یوں بھی جمہوری اقدار کی بات کرکے مودی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھارت جمہوری اقدار پر قائم رہتے ہوئے ہی مغرب کا محبوبِ نظر رہ سکتا ہے۔ کشمیر میں ایک انٹرنیٹ کی بحالی ہونے تک بائیڈن کا مودی سے بات کرنے سے گریز خاصا معنی خیز ہے۔ بھارت کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ نریندر مودی نے 2G سے 4G کرکے کشمیریوں پر احسان نہیں کیا بلکہ انٹرنیٹ کی بحالی کا قدم امریکہ کے دبائو میں اٹھایا۔ امریکہ کے کانگریس مین بریڈ شرمن نے واشنگٹن میں بھارتی سفیر سے ملاقات کی، جس کے دو دن بعد فورجی انٹرنیٹ کی بحالی کا قدم اٹھانا پڑا۔ ان واقعات کے بعد ہی عمران خان کے ہاتھوں ہٹلر کا امیج بنائے جانے اور بھارت کا ٹرمپ کہلانے والے نریندر مودی بھارتی پارلیمنٹ میں پہلی بار ایک نرم دل اور انسان دوست شخصیت کے طور پر آنسو بہاتے نظر آئے۔ یہ آنسو بھی انہوں نے کشمیر میں گجرات کے سیاحوں کی ایک بس پر کشمیر میں ہونے والے ایک حملے کی یاد میں بہائے۔ مودی راجیہ سبھا سے ریٹائر ہونے والے کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی انسان دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے حقیقت میں اپنا انسان دوست امیج بنا رہے تھے۔
بھارت نے جس زعم میں پانچ اگست کا قدم اٹھایا تھا وہ قطعی بے نتیجہ رہا، اور بھارت جس حصے کو یونین ٹیریٹری قراردیتا ہے دنیا اُسے بدستور متنازع سمجھتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ یا اندرونی مسئلہ کہہ رہا ہو۔ امریکہ سے برطانیہ اور روس سے چین تک بڑی عالمی طاقتیں ہوں یا جرمنی، فرانس اور ترکی یا جاپان… کہیں بھی کشمیر کے بارے میں بھارتی مؤقف کو من وعن قبول نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تنازع رات کی تاریکی میں دو ملکوں کی کھینچا تانی سے شروع نہیں ہوا، اور صرف دو ملکوں کے درمیان ہی الجھ کر نہیں رہا، بلکہ یہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا جب اپنے وقت کی سپر طاقت برطانیہ زوال کا شکار ہوکر برصغیر سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر جارہی تھی، اور پیچھے رہ جانے والے طاقت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے تھے۔ اس طرح یہ ایک عالمی طاقت کے زوال اور اس کے اثرات سے جڑی ہوئی کہانی کا حصہ ہے۔ جب مسئلہ شروع ہوا تو بھی یہ دوملکوں کے دالان اور دہلیز تک محدود نہیں رہا، بلکہ طاقتور فریق بھارت اسے اقوام متحدہ میں لے گیا، جہاں برسوں اس مسئلے پر بحث ہوتی رہی۔کشمیریوں کو سنا جاتا رہا، پاکستان اور بھارت کا مؤقف جاننے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سر اوون ڈکسن جیسے آزاد مبصرین اور محققین سے اس بندگلی سے نکلنے کے لیے رائے معلوم کی جاتی رہی۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے رکن ممالک اس ساری بحث میں حصہ لیتے رہے، اپنی رائے ظاہر کرتے رہے، اور آخر میں اقوام متحدہ قراردادیں منظور کرکے خوابِ خرگوش میں گم ہوگئی۔کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ رہا۔ بحث نہ ہونے کے باوجود مسئلے کی فائل حل طلب مسائل کی الماری میں آج بھی موجود ہے۔
اسی طرح روس، چین، برطانیہ جیسے ممالک موجودہ دور میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے اسباب اور عوامل کا ازسرنوجائزہ لیتے ہوں گے تو لامحالہ وہ ماضی میں اپنے راہنمائوں اور سفارت کاروں کے بیانات اور سرگرمیاں دیکھتے ہوں گے، اور تاریخ کے صفحات پر محیط 74 سال میں جابجا انہیں اپنا عکس دکھائی دیتا ہوگا۔ اس تاریخ کو نظرانداز کرنا کسی ملک کے لیے ممکن نہیں۔
اس وقت امریکہ پاکستان کو پاک بھارت تعلقات، پاک چین تعلقات یا پاک افغان تعلقات کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ یہ وہ زاویۂ نگاہ ہے جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو ٹھیک نہیں ہونے دے رہا۔
امریکہ کی عینک تبدیل ہوجائے اور وہ پاکستان کو پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں دیکھے تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں نمایاں بہتری ہوسکتی ہے۔ پانچ اگست کے بعد جاری ہونے والی2019ء کی امریکی کانگریشنل رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کا ایک طویل المیعاد مقصد پاکستان اور بھارت کو مسلح تصادم سے روکنا بھی ہے۔ اس اصول پر قائم رہنے سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں سدھار بھی آسکتا ہے اور کشمیر کے مسئلے کا اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے… اور اسی میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کی راہ نکلنے کے امکانات بھی پنہاں ہیں۔