کیا مسائل کا حل نظام کی تبدیلی ہے؟۔

نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے فکری نشست کا انعقاد

اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیامبر، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل سود کو حرام، معیشت کی بربادی کا سبب اور آخرت میں انسان کو جہنم میں پہنچانے والا عمل قرار دیا تھا۔ اپنی حتمی ہدایت قرآن حکیم کی دوسری اور طویل ترین سورہ بقرہ کی آیات 175 اور 176 میں خالقِ کائنات نے دوٹوک الفاظ میں فیصلہ سنادیا کہ ’’جو لوگ سودکھاتے ہیں، ان کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھوکر بائولا کردیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ’’تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے‘‘، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام، لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سوکھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
قیام پاکستان کا واحد مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ یہاں مسلمان قرآن حکیم کی ہدایات کی روشنی میں وضع کردہ نظام کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے، تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب و کامران اور سرخرو ہوسکیں۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے فوری بعد 1948ء میں ریاست کے سرکاری بینک، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہاں کا نظامِ معیشت سود کی لعنت سے پاک ہوگا۔ 48 سال پہلے جب 1973ء میں قوم کا متفقہ آئین منظورکیا گیا تو آئین سازوں نے اس کی دفعہ 38 ایف کے ذریعے قوم کو اطمینان دلایا کہ جتنی جلد ممکن ہو، ریاست ملکی معاشی نظام سے سود کا خاتمہ کرے گی۔ پھر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے حکمرانوں کو حکم دیا کہ قرآن و سنت کے حکم اور آئین کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے سود پر مبنی معاشی اور بینکاری نظام ختم کرکے شرعی احکام کے مطابق ربا سے پاک نظام رائج کیا جائے، مگر تیس سال سے اس حکم کو بھی ایک اپیل کا سہارا لے کر مسلسل التوا میں رکھا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دین اور آئین سے محبت کرنے والے لوگ خصوصاً جماعت اسلامی اس بنیادی شرعی حکم کی تعمیل و تکمیل کی خاطر طویل عرصے سے سیاسی، سماجی، قانونی اور عدالتی میدان میں جدوجہد میں مصروف ہے، مگر امیرالمومنین کے لقب کے خواہاں حکمرانوں کو اس اہم اسلامی معاشی حکم کی تعمیل کی توفیق مل سکی، اور نہ پاکستان کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کے دعویداروں نے تاحال اس جانب کوئی پیش رفت کی ہے۔ تاہم مقامِ شکر ہے کہ عوامی اور سماجی سطح پر سود سے نجات کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے اور جماعت اسلامی کے بعد اب دیگر تنظیمیں بھی اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ ایوانِ کارکنانِ پاکستان لاہور میں گزشتہ ہفتے ایک اہم فکری نشست ’’کیا مسائل کا حل نظام کی تبدیلی ہے؟‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوئی جس کا اہتمام ہدیۃ الہادی پاکستان نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ نشست کی صدارت تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے کی، جب کہ نظامت کے فرائض ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہدیۃ الہادی پاکستان سید اویس نقوی نے انجام دیئے۔ نشست کا آغاز حسبِ معمول تلاوتِ قرآن حکیم، نعتِ رسول مقبولؐ اور قومی ترانے سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت محمد عمران وارثی نے حاصل کی، جب کہ بارگاہِ رسالت مآب میں ہدیہ نعت محمد بلال ساحل نے پیش کیا۔ اس نشست میں مقررین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ قیام ِپاکستان کا مقصد قرآن و سنت پر مبنی معاشرہ قائم کرنا تھا، قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانانِ ہند نے جس استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کی تھی بدقسمتی سے انگریزوں کے فکری غلاموں نے وہی نظام اس ملک کے عوام پر مسلط کردیا ہے۔ ملک سے سودی نظام کو ختم کیے بغیر عام لوگوں کی حالت بہتر نہیں بنائی جا سکتی۔صدرِ مجلس جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے کہا کہ ہمارے لیے بہترین نظام دینِ اسلام ہے جس پر من و عن عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں جزئیات تبدیل کرنے کے بجائے بنیاد کو تبدیل کرنا چاہیے۔ پیر سید ہارون علی گیلانی سربراہ ہدیۃ الہادی پاکستان نے کہا کہ پاکستان قائم نہ ہوتا تو ہمارا آج وہی حال ہوتا جو بھارت کے مسلمانوں کا ہورہا ہے۔ صادق و امین ہونے کے متعلق 63,62 کی شق امیدوار سے پہلے ووٹر پر لگائیں۔ ووٹ کو عزت دینے سے پہلے ووٹر کا معیار مقرر کیا جانا چاہیے ۔
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا کہ ملک میں شخصیات کی تبدیلی سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نظام کی تبدیلی یہ ہے کہ ملک کے آئین پر اُس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ اسلامی نظام یہاں رائج ہوگا تو ملک و قوم کے مسائل حل ہوں گے اور ہمیں مصائب و مسائل سے نجات ملے گی۔ جنرل (ر) حمیدگل مرحوم کے فرزند عبداللہ حمیدگل چیئرمین تحریک نوجوانان پاکستان نے کہا کہ پاکستان اور موجودہ نظام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ہم 1973ء کے آئین کے مطابق پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ قائم نہیں کرسکے۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ موجودہ نظام کارآمد نہیں ہے، وزیراعظم عمران خان تک کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام کچھ کرنے نہیں دیتا۔ نظام کی تبدیلی کے لیے ذہنوں اور سوچ کی تبدیلی ضروری ہے۔ قاری محمد یعقوب شیخ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استحصالی نظام کو تبدیل کیا تھا اور ایسا معاشرہ قائم کیا جس کی آج تک مثال نہیں ملتی۔ یہ ملک نظریۂ پاکستان کی بنیاد پر قائم ہوا، اور نظریۂ پاکستان ہی قوم میں اتحاد و اتفاق کا مرکز بن سکتا ہے۔ ثاقب اکبر نائب صدر ہدیۃ الہادی پاکستان نے کہا کہ قانونی اور اخلاقی جرائم میں ملوث افراد پر انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی جائے۔ مخدوم ندیم ہاشمی نے کہا کہ نظام مصطفیٰ نافد ہونا چاہیے۔ قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کا خواب ضرور شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ مفتی سید معرفت شاہ نے کہا کہ 1973ء کا آئین سود کو حرام قرار دیتا ہے مگر ملک میں سودی نظام جاری ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ رضیت اللہ خان نے کہا کہ نظام کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ سردار عظیم اللہ خان نے کہا کہ جس نظام کو تحریکِ پاکستان کے دوران ناقابلِ قبول قرار دیا گیا وہی اس ملک کے عوام پر مسلط کردیا گیا ہے۔ نشست کے اختتام پر دیوان عظمت سید محمد چشتی نے ملک و قوم کی ترقی اور اتحاد کے لیے دعا کرائی۔