”جلدی دیکھیں ڈاکٹر صاحب! کتنا تیز گرم ہورہا ہے۔“ پریشانی ان کی آواز سے چھلک رہی تھی۔
کائوچ پر لٹا کر چیک کیا تو بچہ بہت زیادہ گرم تھا۔ بالکل ڈھیلا، تیز سانسوں کے ساتھ۔
چیک کرتے ہوئے دوچار سوالات کیے اور فوراً نومولود کو نرسری میں منتقل کروایا، ڈیوٹی ڈاکٹر کو ہدایات دیں اور والدین سے ہسٹری لے کر ان کو بچے کے نرسری میں داخلے سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
نومولود بچوں کی دنیا میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے۔
ٹمپریچر کا اتار چڑھاؤ،تیز بخار ہونا، یا بالکل ٹھنڈا پڑ جانا دونوں ہی خطرے کی علامت ہیں۔ ذرا سی غفلت نومولود کی صحت کی خرابی کا باعث بن جاتی ہے۔
اب اس بچے ہی کی بات کرلیں، تیز بخار کا سب سے پہلا مطلب انفیکشن لیا جاتا ہے، سوائے اس کے کہ آپ ثابت کردیں کہ بخار کسی اور وجہ سے ہے۔
بخار کیوں ہوا، اس پر ہی بات کریں تو بڑی وجوہات میں نمبر ایک: انفیکشن، نمبر دو: زیادہ لپیٹ کر رکھنا، اور تیسری اور بڑی وجہ دودھ کی کمی کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی۔
مگر یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کیا ہوا ہے؟ اور کیسے پتا چلے کہ بچہ بیمار ہے یا نارمل؟ والدین اگر یہ کام کرسکتے تو انفیکشن کے علاوہ دیگر دو وجوہات ہوتی ہی کیوں؟
اس لیے اگر بچے کا ٹمپریچر زیادہ ہو، یا نارمل سے بھی ٹھنڈا… دودھ نہ پی رہا ہو، یا دودھ پینے کے لیے نہ جاگ رہا ہو تو انتظار نہ کریں، فوراً قریبی ڈاکٹر، کلینک، اسپتال یا ہیلتھ کیئر ورکر سے رابطہ کریں۔
غفلت یا کوتاہی بعض اوقات جان لیوا، یا شدید منفی اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔
نومولود بچے میں انفیکشن
پیدائش سے لے کر اٹھائیس دن تک کے بچے کو نومولود (نیوبورن) کہا جاتا ہے، مگر نومولود کے شروع کے تین دن اور باقی دنوں کے انفیکشن میں فرق ہے، اس کی وجوہات میں فرق ہے جس کا جاننا اور سمجھنا علاج کے لیے بہت ضروری ہے۔
پیدائش کے فوراً بعد تین دن
اگر پیدائش کے فوراً بعد تین دن کے اندر اندر بچے میں کسی بھی قسم کا انفیکشن آپ محسوس کرتے ہیں تو یہ انفیکشن ماں سے بچے میں عام طور پر منتقل ہوتا ہے، اور عام طور پر اس کی وجہ بیکٹیریا تصور کیا جاتا ہے۔
انفیکشن تین دن کے بعد
اگر بچے کے پہلے تین دن صحیح طرح سے گزرے اور دودھ بھی صحیح پی رہا تھا، کوئی ڈھیلا پن بھی نہیں تھا، درجہ حرارت میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، مگر تین دن کے بعد انفیکشن کے آثار یعنی درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلی، ڈھیلا پن، دودھ نہ پینا وغیرہ کی شکایت ہو تو نومولود میں اس ہونے والی تبدیلی میں اول چیز جو سوچی جائے گی وہ انفیکشن ہی ہوگا، سوائے اس کے کہ کوئی اور وجہ بالکل واضح طور پر محسوس ہوتی ہو۔
تین دن کے بعد ہونے والا انفیکشن ماحولیاتی انفیکشن کہلاتا ہے، یعنی ماں سے منتقل نہیں ہوا بلکہ اس پاس کے ماحول سے ہوگیا ہے۔
آس پاس بہت سے لوگ کھانس یا چھینک رہے تھے۔ بچے کی دیکھ بھال کرنے والے لوگوں نے ہاتھوں کی صفائی میں احتیاط نہیں کی۔ بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ دیا گیا۔ بعض اوقات تو وہ نوٹ جو کسی رشتہ دار نے اس کے بچھونے میں رکھا تھا۔ یعنی تین دن بعد والا انفیکشن ہماری وجہ سے اس کو لگا ہے۔
انفیکشن کی علامات
بیماری خواہ کوئی بھی ہو، بچہ سب سے پہلے دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے۔ کبھی کبھی ٹمپریچر کی زیادتی اور کبھی نارمل سے بھی کم ٹمپریچر، بہت زیادہ دیر تک سونا یا شدید بے چینی، ڈھیلا پن، جھٹکے، یا کوئی بھی ایسی علامت جو عام طور پر نومولود بچے میں نظر نہیں آتی یا محسوس ہوتی ہے۔
ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟
اگر آپ اپنے بچے میں اوپر بتائی گئی کوئی بھی علامت دیکھتے ہیں تو فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
نیوبورن نرسری میں ایڈمیشن
عام طور پر اگر نومولود میں انفیکشن تصور کیا جاتا ہے تو پہلا کام اس کو نرسری میں داخل کرنا ہے، جہاں اس کی انتہائی نگہداشت شروع کردی جاتی ہے… یعنی اس کے دل کی رفتار، سانس لینے کی رفتار، درجہ حرارت، بلڈ پریشر اور آکسیجن پر نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ کام گھر پر تو ممکن نہیں، اس لیے لازمی طور پر نیوبورن نرسری میں داخل کروانا ضروری ہے۔
انفیکشن کی تلاش کے لیے ٹیسٹ
عام طور پر اگر کسی نومولود کو انفیکشن کی وجہ سے نرسری میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے کچھ بنیادی ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں تاکہ اس کی بیماری یا انفیکشن کا صحیح طرح پتا لگایا جا سکے۔
ان میں شامل کچھ خون کے ٹیسٹ مثلاً
Blood culture, Glucose test, Urine culture, Chest x-ray
اگر ضرورت ہے، اور کبھی کبھی اگر انفیکشن دماغ میں محسوس ہو تو CSF یعنی کمر سے پانی نکال کر اس کا تجزیہ جہاں گردن توڑ بخار کا خدشہ ہو۔
علاج و ادویہ
جب بچے کو نیوبورن نرسری میں داخل کرتے ہیں تو اس کی ماں اس کے ساتھ نہیں رہتی، اس لیے اس کی غذائی ضروریات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، یا اگر بچہ انفیکشن کی وجہ سے دودھ نہیں پی سکتا تو جب تک وہ دودھ کو پینے، ہضم کرنے کے قابل نہیں ہوجا تا اُس وقت تک دونوں وجوہات کی بنا پر اس بچے کو ڈرپ کے ذریعے غذائیت اور نمکیات مع پانی پہنچانے کا انتظام کیا جاتاہے۔ بچے کو کینولا لگا کر ہم اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔
علاج کا دوسرا حصہ ادویہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ انفیکشن پہلے تین دن میں عام طور پر ماں سے منتقل ہوتا ہے اور اس کے بعد عموماً ماحولیاتی وجوہات سے، اور یہ انفیکشن دونوں گروپس میں مختلف ہوتے ہیں، اس لیے جب بچے کو داخل کرتے ہیں تو اس کی عمر، علامات اور ابتدائی خون کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے نیوبورن اسپیشلسٹ کسی دوا کو تجویز کرتے ہیں۔ ان ادویہ کو اینٹی بائیوٹک کہا جاتا ہے، اور یہ ادویہ کبھی کبھی رپورٹس کی بنیاد پر یا ڈاکٹر کی رائے بچے کو دیکھتے ہوئے سمجھ کر تبدیل بھی کردی جاتی ہیں۔
بلڈ کلچر، پیشاب کلچر، یا کمر کے پانی کا کلچر آپ کو وہ حتمی رپورٹ دیتے ہیں کہ بچے کو کہاں اور کس قسم کا انفیکشن لاحق ہوا تھا۔
کبھی کبھی تمام تر توجہ اور کوشش کے باوجود بچے کے کلچرز بھی کوئی حتمی رائے قائم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتے۔ ایسی صورتِ حال میں نیوبورن اسپیشلسٹ اپنے کلینکل تجربے کی بنیاد پر اینٹی بائیوٹک ادویہ ایک خاص مدت تک جاری رکھنے یا بند کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، اور اس میں سب سے اہم بات کہ جس بچے کو انفیکشن کی وجہ سے داخل کیا گیا تھا اس کی طبیعت اب کیسی ہے، اگر طبیعت میں بہتری ہے، جس کی سب سے پہلی علامت ان علامات کا دور ہونا ہے جن کی وجہ سے بچے کو نرسری میںداخل کیا گیا تھا۔ اور دوسری طرف اس بچے کی دودھ پینے کی طلب، یا اس میں دلچسپی ظاہر کرنا۔
جب بچہ دودھ طلب کرتا ہے تو عام طور پر اس کی ماں کو نرسری میں اس کی نگہداشت میں شامل کرلیا جاتا ہے، اور اس کی ڈرپس کو کم کرتے ہوئے دودھ کی مقدار بڑھائی جاتی ہے، اور جوں ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی وہ تمام علامات ختم ہوگئیں جن کی بنیاد پر وہ نرسری میں داخل کیا گیا تھا اور اب دودھ پینے میں کوئی مسئلہ نہیں اور ماں مطمئن ہے، تو بچے کو نرسری سے گھر روانہ کردیتے ہیں۔ بعض اوقات انفیکشن کو ٹھیک کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں، اس میں جلد بازی، عجلت یا ڈاکٹروں پر ڈسچارج کے لیے دباؤ، بلا ضرورت بچے کو ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں منتقل کرنا کسی فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔نرسری اسٹاف اور ڈاکٹروں کی اوّلین کوشش بہتر طریقے سے جلد از جلد بچے کی اپنے گھر واپسی ہے۔
اِن شاء اللہ اگلے ہفتے بچوں کے نئے موضوع کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ فی امان اللہ