حامد انصاری صاحب

سابق نائب صدر بھارت، سابق وائس چانسلر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور سابق سفارت کار اپنوں اور غیروں کے نشانے پر

مدیر اعلیٰ، ملی گزٹ، نئی دہلی
حامد انصاری صاحب کے بارے میں آج کل جتنے منہ اتنی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں تبصرہ نگاروں میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو انصاری صاحب کو ذاتی طور سے نہیں جانتے۔ کچھ لوگوں نے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ انصاری صاحب کو اپنی ملّت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ محض ایک ”سرکاری مسلمان“ ہیں۔ اس سیاق میں ایک یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ان کی یونیورسٹی کے چانسلر ہوتے ہوئے بھی انصاری صاحب ان کی یونیورسٹی میں کبھی نہیں آئے۔
میں خود کو انصاری صاحب کا دوست یا قریبی تو نہیں کہہ سکتا، لیکن میری اُن سے اچھی ملاقات ضرور ہے۔ اور بار ہا ان سے ملاقات اور طویل گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ جب بھی ملاقات ہوئی ہے انہوں نے ملک و ملّت دونوں کے بارے میں تفصیل سے میری رائے جاننے کی کوشش کی۔ اکثر اپنی رائے بھی بتائی اور کبھی خاموش بھی رہے۔
ان سے میری پہلی ملاقات تقریباً 15۔16 سال قبل مسلم مجلس مشاورت کے دفتر میں ہوئی۔ وہ سفارت کاری سے ریٹائر ہوکر واپس دہلی آئے تھے۔ پھر تین سال کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ وہاں سے فراغت کے بعد دہلی میں مقیم تھے۔ اس عرصے میں فارن سروس میں ان کے سینئر ساتھی سید شہاب الدین نے ان کو مشاورت کا ممبر بنایا تھا۔ اس زمانے میں انصاری صاحب مشاورت کی میٹنگوں میں چند بار شریک ہوئے۔ ایک بار وہ آئے تو کہنے لگے کہ رنگ روڈ پر مسلم قبرستان کو میلینیم پارک میں تبدیل کیا جارہا ہے، آپ لوگ اس سلسلے میں کچھ کیجیے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ان کو ملت کے معاملات سے دلچسپی تھی۔ سنہ2006ء میں وہ نیشنل مائنارٹیز کمیشن کے صدر بنائے گئے۔
اُس زمانے میں ایک دن ان کا فون آیا کہ آئیے کچھ بات کریں گے۔ میں گیا اور انہوں نے دیر تک مجھ سے ملّت کے مسائل کے بارے میں بات کی، جس سے اندازہ ہوا کہ وہ مسائل کو جاننا چاہتے ہیں۔ یہ غالباً اس لیے بھی ضروری تھا کہ سفارتی ذمہ داریوں کے تحت وہ برسوں ملک سے باہر رہے تھے، اس لیے یہاں کے اندرونی حالات سے پوری طرح باخبر نہیں تھے۔ یہی حال میرا اپنا تھا کہ 1966ء سے لے کر 1984ء تک میں ملک سے باہر تھا، اس لیے دلچسپی کے باوجود ملک اور بالخصوص مسلمانوں کے حالات اور ان کی قیادت اور مختلف مسلم تنظیموں کے پیچ و خم سے واقف نہیں تھا۔ واپس آنے کے بعد مجھے حالات سمجھنے میں کئی سال لگے۔
2007ء میں انصاری صاحب ملک کے نائب صدر جمہوریہ بنائے گئے۔ اس کے بعد سے عہدے کے تقاضے کے لحاظ سے انصاری صاحب کا تعلق عوام الناس سے کم ہوگیا جو ایسے عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے عام بات ہے، نیز ایسے لوگوں کی مصروفیات بھی بہت بڑھ جاتی ہیں۔ صدر، نائب صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس وغیرہ ایسے عہدے ہیں جن کے حامل افراد کا عوام سے براہِ راست رابطہ کم ہوتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں سیکورٹی کی ضروریات کی وجہ سے۔ ان حالات کے باوجود جب بھی میں نے ان سے ملنے کی درخواست کی، چند دن کے اندر اپائنٹمنٹ مل گیا۔ کہیں کسی تقریب وغیرہ میں مل گئے تو مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’گھر آئیے گا، ساتھ چائے پئیں گے‘‘۔ ایک بار ان سے ملنے گیا اور کسی وجہ سے چائے سے انکار کیا تو کہنے لگے: ’’ہم تو منتظر تھے کہ آپ آئیں گے تو ساتھ چائے پئیں گے‘‘۔
نائب صدر رہتے ہوئے انصاری صاحب نے تین بار میری درخواست پر ایسی مناسبتوں یا کانفرنسوں میں شرکت کی جو خالص ’’ملّی‘‘ یا اسلامی تھیں۔ سب سے پہلے انہوں نے فروری 2010ء میں میری درخواست پر بین الاقوامی بین المذاہب کانفرنس کا جامعہ ملیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں افتتاح کیا جس کا انتظام وانصرام میں نے کیا تھا، اور میں نے ہی ان کی سرکاری قیام گاہ پر جاکر ان کو دعوت دی تھی۔ دوسری بار میری درخواست پر انہوں نے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی صد سالہ تقریبات کا میری درخواست پر افتتاح کیا جو اعظم گڑھ کے شبلی کالج کے وسیع میدان میں نومبر2014ۓء میں منعقد ہوئی۔ تیسری بار انہوں نے مسلم مجلس مشاورت کی پچاسویں سالگرہ پر اگست 2015ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس کا میری درخواست پر افتتاح کیا جو دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد ہوئی۔ ان سب موقعوں پر انہوں نے پُرمغز تقریریں کیں اور بہت عمدہ مشورے دیے جو ملّت سے ان کے لگاؤ اور ہمدردی کی دلیل ہیں۔ یہ سب تقریریں ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور چھپ چکی ہیں۔ اسی ضمن میں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ تقریباً دو سال قبل حامد انصاری صاحب نے میری درخواست پر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی صدارت بھی قبول کی جس سے ان کو تو کوئی ذاتی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہوگا، لیکن اس عظیم ملّی ادارے کو ضرور بڑی تقویت ملی ہے۔
تیونس کے اسلامی لیڈر راشد الغنوشی جب اپریل 2015ء میں ہندوستان سرکاری دورے پر آئے تو حیدرآباد ہاؤس میں ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں حامد انصاری صاحب نے مجھے بھی مدعو کیا اور کھانے کی میز پر جب مختلف مسائل پر گفتگو ہورہی تھی تو ایک بات پر مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! اس مسئلے پر آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘
پچھلے چند مہینوں میں مجھ پر جو افتاد پڑی ہے، اس کے دوران انصاری صاحب نے متعدد بار فون کرکے میرے حالات اور خیریت دریافت کی، جب کہ اس افتاد کے بعد سے میرے بہت سے قریبی لوگ بھی مجھ سے ملنے یا مجھے فون کرنے سے کترانے لگے ہیں، حالانکہ توقع تھی کہ ایسے لوگ برملا کہتے کہ ہم اس شخص کو بیس،تیس سال سے جانتے ہیں اور اس پر لگائی گئی تہمت پر یقین نہیں کرتے۔
ایسے میں یہ کہنا کہ انصاری صاحب کو ملّت کی پروا نہیں ہے، یا وہ سرکاری مسلمان ہیں، کسی طرح جائز نہیں ہے۔ انصاری صاحب ایک ذمہ دار اور خوددار انسان ہیں۔ کئی عشروں تک سفارت کار رہ چکے ہیں، اور ملک کے دوسرے سب سے بڑے عہدے پر پورا عشرہ گزار چکے ہیں۔ اس لیے ان سے یہ توقع کرنا غلط ہے کہ وہ عام قائدین کی طرح ہر معاملے میں بولیں گے اور بیان بازی کریں گے۔ ان کو ملک اور ملّت دونوں کی پروا ہے۔ وہ پریشان ہیں کہ ملک اپنے آئین اور سیکولر قدروں سے کس طرح دور ہوتا جارہا ہے۔ اور وہ اس بات کو کھل کر کئی بار کہہ چکےہیں، جس پر ایک خاص فکر رکھنے والے اور گودی میڈیا نے واویلا بھی مچایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ وقتاً فوقتاً ان پر اوچھے حملے کرتا ہے، لیکن ایک شریف اور وضع دار انسان ہونے کے ناتے وہ اس پر خاموش رہتے ہیں۔
کیا ہم میں اتنی سمجھ نہیں اور ہماری اتنی ذمہ داری بھی نہیں بنتی کہ اگر ہم ان کی قدر کرنے کا دل نہیں رکھتے تو کم از کم ان پر تیراندازی تو نہ کریں۔ لیکن اس امت کا المیہ ہے کہ اپنے خیر خواہوں اور حقیقی قائدین کو وہ بہت زمانے کے بعد پہچانتی ہے، وہ بھی اُس وقت جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، اور یہ حقیقی خیرخواہ اپنے چھلنی زدہ دلوں کو لے کر اِس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس ناسمجھی سے اُن لوگوں کے دل بھی ٹوٹتے ہیں جو خلوص کے ساتھ ملّت کے لیے اپنے طریقےسے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں، لیکن ان کو اپنوں سے ہی پتھر اور اینٹوں کا تحفہ ملتا ہے۔