حسن اخلاق کا پیکر عبدالستار غوری

وہ افراد کامیاب، خوش قسمت، خوش خصال اور لائقِ مبارک باد ہوتے ہیں جن کو اللہ رزقِ حلال اور صدقِ کلام کی توفیق عطا کرکے نفسِ مطمئنہ کی دولت سے سرفراز فرماتا ہے… جن کو ہر لمحہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی فکر دامن گیر رہتی ہے… جو رنگ ونسل، زبان و علاقہ، فرقہ و مسلک اور مسلم و غیر مسلم کی تمیز کے بغیر اپنی استطاعت کے مطابق وسائل سے محروم خلقِ خدا کی خدمت کو دینی فریضہ سمجھ کر زندگی گزارنے کو اپنا شعار بناتے ہیں۔
مسلم معاشرہ کسی دَور میں بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ایسے نیک اطوار، پاک باز افراد سے خالی نہیں رہا۔ خلافت ِ راشدہ کے دَور کے بعد غریب اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری میں اہم اور بنیادی کردار ہمارے روحانی سلسلوں سے جڑے خانقاہی نظام نے ادا کیا ہے۔ دینی مدارس، یتیم خانے اور اہلِ خیر کے قائم کردہ وقف املاک کے ٹرسٹ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مسلمان اپنے نظام خیرات (چیریٹی) کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح مربوط و منظم کرلیںتو بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان آج بھی اپنی زکوٰۃ و صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ میں سب سے آگے ہیں۔ جب تک ہم یہ نظام وضع کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے اُس وقت تک وسائل سے محروم طبقات کی دادرسی مکمل طور پر ممکن نہیں۔
ماضیِ قریب میں اندرونِ سندھ ضلع سانگھڑ کی تحصیل ٹنڈو آدم سے تعلق رکھنے والی شخصیت عبدالستار غوری ایڈووکیٹ (مرحوم) بھی ایسے ہی قابلِ رشک لوگوں میں سے ایک تھے، جن کو اللہ نے زندگی بھر علم کے فروغ اور دُکھی انسانیت کی خدمت کے بے لوث جذبے سے سرشار رکھا۔ 29 جنوری 1999ء کو عبدالستار غوری مرحوم اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر آج بھی ٹنڈو آدم کے مسلم اور غیر مسلم باشندے ان کے سیاسی نقطہَ نظر اور مذہبی رجحانات سے قطع نظر ان کی امانت و دیانت اور حسنِ اخلاق کی گواہی دیتے ہیں اور شہریوں کی بے لوث خدمت کے معترف ہیں۔ عبدالستار غوری کا تعلق ایک سفید پوش متوسط گھرانے سے تھا، ان کے والد مرحوم حبیب احمد خاں غوری کا ذریعہ معاش سنگ تراشی تھا۔ وہ عمارات میں استعمال ہونے والے جے پور کے گلابی پتھر کو تراشتے تھے۔ عبدالستار غوری اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتے تھے: میں سنگ تراش و معمار کا بیٹا ہوں۔
۔1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد وہ جے پور سے ہجرت کرکے ٹنڈوآدم آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کے آبا و اجداد بابر کے زمانے میں افغانستان سے ہجرت کرکے پہلے دہلی، وہاں سے فتح پور سیکری (جس کی شہرت پاک و ہند کے معروف روحانی بزرگ حضرت سلیم فاروقی چشتی کے مزارِ مبارک کی وجہ سے ہے) آگئے، بعد ازاں ان کے خاندان نے مستقل سکونت ریاست جے پور میں اختیار کرلی تھی۔
ان کا گھرانہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ہم رکاب تھا۔ قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو عبدالستار غوری نے جے پور میں ہائی اسکول سے نویں جماعت کا امتحان پاس کرلیا تھا۔ مگر پاکستان آکر کئی برس نامساعد حالات اور معاشی تنگ دستی کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع رہا۔ عبدالستار غوری کا سن پیدائش 1932ء ہے۔ ان کی پیدائش جے پور میں کھیتری میں ہوئی تھی جہاں ان کا خاندان آباد تھا۔ عبدالستار غوری کے خاندان کا تعلق پٹھان قبیلے کی شاخ آبندہ افغان سے ہے۔ ٹنڈو آدم میں جے پور سے ہجرت کرکے آباد ہونے والے غوری برادری کے افراد کی تعداد کم و بیش 25 ہزار ہے۔ عبدالستار غوری پاکستان آکر کئی برس روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہے، تاآنکہ اپنے والد کے مشورے پر ٹائپنگ سیکھی اور اس میں اتنی مہارت حاصل کی کہ شہر میں ان کے مقابلے میں درست انگریزی میں برق رفتاری کے ساتھ کم ہی لوگ ٹائپ کرتے تھے۔ عبدالستار غوری دردمند دل کے مالک تھے، اس لیے دوسروں کی مجبوریوں کا احساس ان کے ذہن پر نقش رہا، اسی وجہ سے وہ اپنے کام کا انتہائی مناسب اور دوسروں سے بہت کم معاوضہ لیا کرتے تھے۔ اللہ نے کم معاوضہ لینے کے باوجود کشادگی کا دروازہ کھول دیا تو غوری صاحب مرحوم نے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ پھر سے شروع کیا۔ میٹرک، انٹر اور بی اے کا امتحان پرائیویٹ اُمیدوار کے طور پر پاس کیا، جب کہ ایل ایل بی کے امتحان میں سندھ یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اُردو اَدب سے شوق کی وجہ سے جامعہ پنجاب سے ادیب فاضل کا امتحان بھی پاس کیا تھا۔ ان کی ذاتی لائبریری میں دینی کتب کے علاوہ ادب اور دیگر موضوعات پر کتابوں کا وافر ذخیرہ اُن کے علمی ذوق کا غماز تھا۔ بقول ان کے: کتاب سے تعلق پیدا کرنے میں ٹنڈوآدم شہر کے کپڑے کے معروف تاجر خواجہ منظور الحسن کا بنیادی کردار ہے۔
۔1950ء کے عشرے میں خواجہ منظورالحسن صاحب نے غوری صاحب کو مجدّدِ عصر سید مودودیؒ کی دو کتابیں ’’دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ پڑھنے کو دی تھیں، جنہوں نے ان کے دل کی کایا پلٹ دی۔ وہ سید مودودیؒ کی فکر کے ایسے اسیر ہوئے کہ زندگی کی آخری سانس تک خدا کے دین کی سربلندی کی جدوجہد کے لیے قائم جماعت اسلامی کی تنظیم سے جڑے رہے۔ عبدالستار غوری نے 1950ء کے عشرے میں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کی تھی۔ وہ جماعت اسلامی کے 1957ء میں ہونے والے ماچھی گوٹھ کے تاریخی اجتماع میں بھی شریک تھے۔ انتخابی سیاست کا آغاز 1960ء کے عشرے میں بلدیاتی انتخاب میں حصہ لے کر کیا۔ 1964ء میں جنرل ایوب خان کے خلاف مادرِ ملت کی انتخابی مہم میں پیش پیش تھے۔ 1979ء کے بعد 1983ء میں بھی دوبارہ منتخب ہوکر عبدالستار غوری ٹنڈوآدم شہر کے مسلسل آٹھ سال تک چیئرمین رہے۔ 1979ء میں چیئرمین بلدیہ کے انتخاب میں انہیں ان کی غیر موجودگی (بوجوہ ادائیگی فریضۂ حج) میں منتخب کیا گیا، مخالف امیدوار کو صرف دو ووٹ مل سکے، اور 1983ء کے انتخاب میں وہ بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی کے ٹنڈوآدم شہر اور بعد ازاں ضلع سانگھڑ کے بھی امیر رہے۔ ان کا انتقال ہوا اُس وقت بھی وہ ضلع سانگھڑکے امیر، جماعت اسلامی کی صوبائی و مرکزی مجلس شوریٰ کے رُکن تھے۔
اپنے پرائے کی تمیز کیے بغیر دُکھی انسانیت اور شہریوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ ان کے دل میں ہمیشہ کی طرح موجزن رہا۔ تعلیم کے فروغ سے انہیں خصوصی دل چسپی تھی، اس لیے انہوں نے اپنی غوری برادری کے سیکریٹری کی حیثیت میں پرائمری اسکول قائم کیا تھا۔
اخبارات میں پہلی بار میں نے ان کا نام 1964ء میں ضلع سانگھڑ میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلانے والے دبنگ سیاسی کارکن کے طور پر پڑھا تھا، مگر اس کا علم کہ وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں 1967ء میں حیدرآباد میں ہونے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے سالانہ اجتماعِ عام کے موقع پر ہوا، جہاں وہ اے کے بروہی اور جناب الطاف حسن قریشی کو سننے آئے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی عبدالعزیز غوری (مرحوم) اُس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ سندھ کے ذمہ داروں میں تھے۔ مجھے1991ء میں عبدالستار غوری کے گھر ٹنڈوآدم جانے اور وہاں ایک رات قیام کا موقع جناب الطاف حسن قریشی صاحب کے اندرونِ سندھ کے مطالعاتی دورے کے دوران ملا تھا۔ ان کے گھر قیام کے لیے مولانا جان محمد عباسی (مرحوم و مغفور) لے کر گئے تھے۔ ان کے دھیمے لہجے، خوش اخلاقی اور نرم گفتاری، فروعی بحث و مباحثط سے گریز کی پالیسی، سیاسی و نظریاتی اختلافِ رائے رکھنے والوں کے ساتھ باہمی عزت و احترام کے ساتھ معاشرتی اور سماجی تعلقات قائم رکھنے کے وصف اور بے لوث خدمت گزاری نے شہر کو ان کا گرویدہ بنادیا تھا۔
اللہ نے ان کو حسنِ اخلاق اور دیگر بے پناہ اوصاف سے نوازا تھا۔ ان میں ایک وصف کسی کی دل آزاری نہ کرنا تھا۔ وہ صلح جُو انسان تھے۔ اس کا فائدہ ٹنڈوآدم کے باسیوں کو ہوا۔ جب سندھ میں شہر شہر زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے نفرت اور تعصب کی آگ کے الائو جلا کر لوگوں کو باہم دست و گریباں کر دیا اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگیا تو عبدالستار غوری نے ٹنڈوآدم شہر میں سندھی اور غیر سندھی بولنے والے شہریوں کو باہم دست و گریباں ہونے سے محفوظ رکھا۔ جو لوگ خوف زدہ ہوکر شہر سے نقل مکانی کرنے لگے تھے ان کو نقل مکانی سے روکنے کے لیے سندھی زبان بولنے والے اور غیر سندھی بولنے والے شہریوں پر مشتمل امن کمیٹی قائم کرکے جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ شہر میں آباد پختون جو نقل مکانی کرنے کے لیے اسٹیشن چلے گئے تھے اُن کو واپس لے کر آئے۔ ان کی کوششوں اور کاوشوں سے ٹنڈوآدم شہر زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاسی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود باہم دست و گریباں اور قتل و غارت گری کے عذاب سے محفوظ رہا۔ 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کا کچھ زور ٹوٹا تو ٹنڈوآدم کے شہریوں نے بلدیہ ٹنڈوآدم کا چیئرمین عبدالستار غوری کے بیٹے مسرور احسن غوری کو منتخب کیا۔ پورے صوبہ سندھ میں ٹنڈوآدم واحد شہر ہے جہاں جماعت اسلامی کا نامزد نمائندہ شہر کی بلدیہ کا چیئرمین منتخب ہوا۔ مسرور احسن غوری بھی اپنے والد عبدالستار غوری کی طرح جماعت اسلامی کے کونسلرز کے علاوہ دوسری جماعتوں کے کونسلرز سمیت غیر مسلم کونسلرز کی حمایت سے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ان کی کامیابی میں ٹنڈوآدم کے معروف سیاسی رہنما، سابق سینیٹر و رکن قومی اسمبلی محترم فدا حسین ڈیرو، اور موجودہ سینیٹر محترم امام الدین شوقین کا مرکزی کردار رہا۔ مکرر عرض ہے کہ عبدالستار غوری نے 1979ء میں بلدیہ کے چیئرمین کا الیکشن جیتا تو وہ اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے خود شہر میں موجود ہی نہیں تھے، بلکہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس میں تھے۔ 1983ء میں دوسری بار بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیا تو شہریوں نے اَزخود ایک کمیٹی قائم کرکے بلدیاتی کونسلر کا الیکشن لڑنے والے تمام اُمیدواروں کو کہا کہ ہم اُس کو ووٹ دیں گے جو یہ حلف اُٹھائے گا کہ وہ کامیاب ہوکر چیئرمین شپ کے لیے عبدالستار غوری کو ووٹ دے گا۔ 1983ء کے بلدیاتی انتخاب میں ٹنڈوآدم شہر میں بھاری اکثریت سے وہ اُمید وار کامیاب ہوئے تھے جنہوں نے عبدالستار غوری کو چیئرمین منتخب کرانے کا حلف اُٹھایا تھا۔ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں غوری صاحب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اُمیدوار تھے۔ اُس وقت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی پولنگ میں تین دن کا وقفہ ہوا کرتا تھا۔ عبدالستار غوری قومی اسمبلی کے انتخاب میں حلقے کے تمام شہری پولنگ اسٹیشنوں سے تو بھاری اکثریت سے کامیاب رہے، تاہم دیہی علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر بااثر اور طاقت ور افراد اور قوتوں نے دھونس، دباؤ اور انتظامی مشینری کے بے دریغ استعمال اور دھاندلی کے ذریعے جیت کو ہار میں بدل دیا۔ چنانچہ تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو پولنگ کے روز شہر میں تمام پولنگ اسٹیشنوں پر ہُو کا وہی عالم تھا جو 1977ء میں قومی اسمبلی کے انتخاب میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف پی این اے کی اپیل پر پورے ملک میں ہوا تھا۔
اس منظر کو قومی و بین الاقوامی میڈیا نے دیکھا اور رپورٹ کیا تھا۔ عبدالستار غوری کا شمار جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اُن رہنمائوں میں ہوتا ہے جو جماعت کے حلقوں سے باہر بھی اپنے اثر رسوخ کی بنا پر مقبول تھے۔ جماعت اسلامی کے ایسے ہی رہنماؤں میں 1970ء میں صوبہ سرحد میں دیر سے منتخب ہونے والے 27 سالہ نوجوان صاحب زادہ صفی اللہ خان (مرحوم)، ڈیرہ غازی خان سے منتخب ہونے والے ڈاکٹر نذیر احمد شہید، کراچی سے پروفیسر عبدالغفور احمد (مرحوم)، محمود اعظم فاروقی (مرحوم) ، افتخار احمد (مرحوم)، حیدرآباد کے میاں محمد شوکت (مرحوم) اور کراچی سے آزاد امیدوار کے طور پر جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور بعد ازاں پاکستان کی دستور سازی کی جدوجہد کے اہم کردار مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم و مغفور بھی شامل تھے۔
عبدالستار غوری جیسے جماعت کے رہنمائوں و کارکنوں کے ذہن میں سیّد مودودیؒ کا یہ جملہ اپنی پوری معنویت کے ساتھ نقش رہا کہ ’’خدمتِ خلق کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ خود مقصد، قربِ الٰہی کے حصول کا مؤثر ذریعہ اور دین کا بنیادی تقاضا ہے۔‘‘
ٹنڈو آدم میں قیامِ پاکستان کے بعد آکر آباد ہونے والے دیگر مہاجرین کی طرح غوری برادری کے نوجوانوں نے بھی تعلیم کی ناکافی سہولیات اور نامساعد حالات کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ خود عبدالستار غوری کے اپنے بچوں اور ان کے دونوں چھوٹے بھائیوں کی اولادوں نے ٹنڈوآدم کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور فوج اور سول بیوروکریسی میں ترقی کی منازل طے کیں۔ عبدالستار غوری کے دو بیٹے فوج میں گئے جن میں سے ایک ڈاکٹر عبدالقیوم غوری پاک فوج سے کرنل کی حیثیت سے، اور دوسرے بیٹے عبدالواحد غوری میجر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جب کہ ایک بیٹے تسنیم عالم غوری اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعداسلام آباد میں ایک انٹرنیشنل ادارے میں اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ ایک بیٹے مسرور احسن غوری اپنا ذاتی کاروبار کررہے ہیں۔ عبدالستار غوری کے منجھلے بھائی (مرحوم) عبدالرحیم غوری کے بڑے بیٹے عبدالمالک غوری وفاقی حکومت میں گریڈ 22 کے نیک نام اعلیٰ افسر اور وزارتِ پارلیمانی امور کے وفاقی سیکرٹری ہیں۔ دوسرے بیٹے ڈاکٹر عبدالخالق غوری محکمہ صحت کی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر بیرونِ ملک فلاحِ انسانیت کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تیسرے بیٹے اسلم غوری سندھ حکومت میں ایک محکمے کے سیکریٹری ہیں۔ چوتھے بیٹے اکرم غوری اپنا ذاتی کاروبار کررہے ہیں۔ اسی طرح عبدالستار غوری کے تیسرے بھائی عبدالعزیز غوری کے بچے بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹنڈوآدم اور حیدر آباد میں ملازمتیں کررہے ہیں۔
عبدالستار غوری نے غوری برادری کے سیکریٹری کی حیثیت میں 1960ء کے عشرے میں ایک پرائمری اسکول قائم کیا۔ بلدیہ ٹنڈوآدم کے چیئرمین کی حیثیت میں 1980ء کے عشرے میں ایک گرلز ڈگری کالج، ایک ہائی اسکول، ایک پرائمری اسکول اور ایک آنکھوں کا اسپتال قائم کیا، جب کہ چیئرمین شپ سے سبک دوشی کے بعد 1990ء کے عشرے میں ٹنڈوآدم ایجوکیشنل سوسائٹی کے صدر کی حیثیت میں ’’حرا پبلک اسکول‘‘ کے نام سے ایک اعلیٰ درجے کا ہائی اسکول قائم کیا تھا۔ عبدالستار غوری نے جو تعلیمی ادارے قائم کیے تھے، وہاں وہ خود اعزازی طور پر پڑھایا بھی کرتے تھے۔ اُن کی برادری کا قائم کردہ اسلامیہ پرائمری اسکول اور اس کی شاندار بلڈنگ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں نجی شعبے میں قائم تمام تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیے جانے کی پالیسی کی نذر ہوگئی۔
بلدیہ کے چیئرمین کی حیثیت سے شہر کے مشرقی حصے ’’جوہر آباد‘‘ میں مولانا محمد علی جوہر کے نام پر ہائی اسکول تعمیر کرایا۔ شہر کے اس پسماندہ علاقے کی اتنی بڑی آبادی میں کوئی ہائی اسکول نہیں تھا۔ آج اس ہائی اسکول میں ہزاروں کی تعداد میں غریب بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ٹنڈوآدم شہر میں طالبات کے لیے کوئی گرلز کالج موجود نہیں تھا۔ گورنمنٹ کالج میں ’’مخلوط تعلیم‘‘ کی وجہ سے میٹرک کے بعد شہر کی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا تھا، یا تعلیم کو خیرباد کہنا پڑتا تھا۔ غوری صاحب نے چیئرمین بنتے ہی لڑکیوں کے کالج کے لیے زمین حاصل کی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کی معاونت سے گرلز کالج کی شاندار عمارت تعمیر کرائی۔ اِس وقت اس کالج کو ڈگری کالج کا درجہ حاصل ہے اور یہاں ایم اے تک کی کلاسز ہورہی ہیں۔ اسی طرح شہر کی مضافاتی بستی ’’گوٹھ خیر محمد مری‘‘ ٹنڈوآدم میں علامہ اقبال کے نام پر پرائمری اسکول قائم کیا۔
غوری صاحب نے صحت کے شعبے میں بھی اہم خدمت انجام دی۔ بلدیہ ٹنڈوآدم کی عمارت کے عقبی حصے میں آنکھوں کا اسپتال لیٹن رحمت اللہ بینو ویلنٹ ٹرسٹ (ایل آر بی ٹی) کے تعاون سے قائم کرایا جہاں علاقے کے ہزاروں مریضوں کا ہر سال مفت علاج اور آپریشن کیا جاتا ہے۔
عبدالستار غوری کا انتقال کینسر کے موذی مرض میں ہوا۔ تشخیص میں دیر ہونے کی وجہ سے آپریشن بھی کارگر نہ ہوسکا۔ تاہم انہوں نے اس موذی مرض کا مقابلہ بڑی ہمت اور حوصلے سے کیا۔ علالت کے دوران بھی رفاہی اور فلاحی کاموں میں ان کی دلچسپی جاری رہی۔ جس رات انتقال ہوا اُس دن عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد اپنی اولاد کو جمع کیا اور نصیحت کی کہ اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھنا، قرآن کے حکم کے مطابق قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کے اصول کی پاسداری کرنا، وسائل سے محروم طبقات کی بلا امتیاز خدمت اللہ کی رضا کے لیے کرتے رہنا، اپنے گھر کو اقامتِ دین کی سرگرمیوں کا مرکز بنائے رکھنا۔
ان کا جنازہ اُٹھا تو ازدحام کا یہ عالم تھا کہ کندھا دینے کے لیے میت کی چارپائی کے ساتھ بیس بیس فٹ لمبے بانس لگائے گئے، اس کے باوجود بھی جنازے میں شریک تمام لوگ کندھا دینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کے جنازے کے دونوں طرف ہندو برادری ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے احترام سے کھڑی تھی اور ان کے لیڈر جنازے کے ساتھ چلتے رہے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

سجاد نیازی کا سانحہ ارتحال

جماعت اسلامی کے رہنما اور شعبہ استقبالیہ کے سابق ناظم سجاد احمد نیازی انتقال کرگئے۔ آپ سید منورحسن صاحب کے انتہائی قریب رہنے والے لوگوں میں تھے۔ 1965ء میں سید منور حسن جب ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان تھے اُس وقت انہی کے دستخطوں سے آپ رکن بنے تھے۔ جمعیت میں منور صاحب کے ساتھ کام کیا اور 1968ء میں جمعیت سے فارغ ہوئے۔ پہلے فیصل آباد سے لاہور، اور پھر کراچی ہجرت کی۔ چار سال اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں منور حسن صاحب کے کمرے میں بیٹھ کر ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ 1972ء میں کینیڈا گئے، لیکن ڈیڑھ سال بعد ہی پاکستان آگئے۔ منورحسن صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے قیم ہوئے تو سجاد نیازی اُن کے ساتھ ہی منصورہ میں رہے۔ منور صاحب کی امارت کے دور میں بھی اندرون لاہور سفر میں نیازی صاحب ساتھ ہوتے تھے۔ آپ کی جماعت اسلامی کے لیے بڑی خدمات ہیں، اللہ تعالیٰ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کی خدمات اور جدوجہد کو قبول کرے۔ آئندہ شمارے میں آپ کی شخصیت اور کام پر تفصیلی مضمون شائع کیا جائے گا۔ ادارہ