بارِشناسائی

ایک سفارت کار کی یادداشتیں

دوسری قسط
قطر کانفرنس کے لیے وزیراعظم کے ہمراہ اسلام آباد سے جو اعلیٰ افسران آئے تھے، ان میں میرے عزیز دوست اور فارن سروس کے رفیق ظفر علی ہلالی بھی تھے۔ ظفر اُن دنوں دفتر خارجہ کی طرف سے وزیراعظم کے سیکریٹریٹ میں ایڈیشنل سیکریٹری کے طور پر تعینات تھے۔ دورانِ قیام ظفر نے مجھے بتایا کہ ان کے دفتر میں ایک سمری (Summary) تیار ہورہی تھی جس میں اُن سینئر افسروں کے نام تھے جنہیں قومی اسمبلی کے تحت قائم اعلیٰ اختیاراتی کشمیر کمیٹی کی معاونت کے لیے تجویز کیا جاسکتا تھا۔ ضرورت صرف ایک اعلیٰ افسر کی تھی جو کمیٹی کے سیکریٹری کی حیثیت سے کمیٹی کے سربراہ (چیئرمین) نواب زادہ نصراللہ خان کی مدد کرسکے۔ اور ظفر کے کہنے کے مطابق جو نام سرفہرست تھا وہ اِس خاکسار کا تھا۔ میرے لیے یہ اطلاع دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ تشویش کا باعث بھی تھی، جس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ اُس وقت میرا منجھلا بیٹا انگلستان میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔ کویت میں سفیر ہونے کے ناتے میرے خارجہ الائونس مجھے اتنی مالی گنجائش دے رہے تھے کہ میں اس کو وہاں بہ سہولت پڑھا سکوں۔ چھوٹا بیٹا بھی ہائی اسکول کے آخری مراحل میں تھا اور انگلستان جانے کے لیے پرتول رہا تھا۔ ظاہر ہے اسلام آباد واپسی کی صورت میں میرے لیے ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا ناممکن ہوجاتا۔
اعلیٰ اختیاراتی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نواب زادہ نصر اللہ کی شہرت؟
لیکن دوسری وجہ زیادہ وزنی تھی اور وہ یہ کہ نواب زادہ نصراللہ کی شہرت ان کے سیاسی حلقوں اور مداحوں میں چاہے جو بھی رہی ہو، سرکاری حلقوں میں وہ بہت بدنام تھے۔ غصہ ان کی ناک کی پھلنگ پر دھرا رہتا تھا۔ شاید اس کی وجہ ان کی سیاسی زندگی کی یاسیت رہی ہو کہ بیچارے ہمیشہ حزبِ اختلاف میں رہے تھے اور اقتدار کا ساغر و مینا ان کے سامنے تو ہمیشہ رقص میں رہا تھا لیکن ان کی دسترس سے دور تھا، اور اپنی اس یاسیت یا فرسٹریشن کو وہ جا و بے جا افسران پر نکالتے رہتے تھے۔ سو میرے لیے ان جیسے ہزیمت خوردہ اور بگڑے ہوئے نواب زادہ کے ساتھ کام کرنے میں دلکشی کی کوئی رمق نہیں تھی، لہٰذا میں نے اپنے دوست ظفر سے درخواست کی کہ وہ کوشش کرے کہ میرا نام اس فہرست سے خارج ہوجائے۔ ظفر نے مدد کا وعدہ کیا اور اسلام آباد واپسی کے ہفتے بھر بعد ہی فون کرکے مجھے مژدہ سنایا کہ مجھے اس عذاب سے بچانے کی کوشش بارآور رہی تھی۔
اُس وقت تک میں نے نواب زادہ نصراللہ کو نہ کبھی قریب سے دیکھا تھا اور نہ ہی ان کے حُسنِ سلوک کا مجھے کوئی ذاتی تجربہ تھا، لیکن اس کے چند ماہ بعد ہی جب وہ صدر فاروق لغاری کے ہمراہ کویت تشریف لائے تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ کام نہ کرنے کا فیصلہ کرکے میں نے کتنی بڑی عقلمندی کی تھی۔
صدر فاروق لغاری کا کویت کا دورہ
نواب زادہ صاحب تو خیر صدر فاروق لغاری کے وفد کے ایک مقتدر ہمراہی تھے، لیکن وفد میں ایک بے نشان اور غیرمعروف ہستی اُس جوان کی تھی جو اُن کے ہمراہ ہمہ وقت سائے کی طرح رہتا تھا تاکہ انہیں اٹھا، بٹھا سکے۔ اس لیے کہ نواب زادہ صاحب بیچارے جسمانی صحت کے اعتبار سے خود سے اٹھنے بیٹھنے کے لائق بھی نہیں تھے، لیکن میرے لیے اس سے زیادہ تشویش ناک ان کی ذہنی کیفیت تھی۔
کویت میں پاکستان کا سفیر ہونے کے ناتے ظاہر ہے کہ صدر فاروق لغاری اور اُن کے ہمراہ آنے والی پوری برات کی نگہداشت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری میری تھی۔ عراقی قبضے کے بعد جب سے کویت دوبارہ آزاد ہوا تھا، وہاں افسران جن میں سے کئی ایک میرے عزیز دوست تھے، اپنے کام میں طاق ہوچکے تھے اور ان کی مشاقی اور مہارت پر کویت میں تعینات کسی غیرملکی سفیر کو کوئی شائبہ نہیں تھا۔
نواب زادہ صاحب کے گلے اور شکایتیں
لیکن نواب زادہ نصر اللہ نے سرکاری مہمان خانے ’’قصرِ بیان‘‘ پہنچنے کے دس منٹ کے اندر اندر مجھے میرے افسروں اور کچھ اور لوگوں کی موجودگی میں اس بات پر سرزنش کی کہ میں نے اس انتہائی اعلیٰ درجے کے پُرتکلف قصر میں اُن کی رہائش اور قیام پر مناسب توجہ نہیں دی تھی۔ میرے لیے اُن کی شکایت بے جا اور ناقابلِ فہم تھی، اس لیے کہ بے چارے کویتیوں نے تو پروٹوکول کے قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نواب زادہ صاحب کو کابینہ کے وزراء کے مساوی درجہ دیا تھا اور اُن کے لیے وزیر کے شایانِ شان ویسا ہی کمروں کا سویٹ مختص کیا تھا جیسا کہ صدر کے ہمراہ آنے والے وزراء کو دیا تھا، جبکہ نواب زادہ صاحب کا رتبہ وزیراعظم کے مشیر کے مساوی تھا۔ کویتیوں میں بزرگی کا خیال اور لحاظ بالعموم بہت رکھا جاتا ہے، اس لیے انہوں نے نواب زادہ صاحب کی پیرانہ سالی کا احترام کیا تھا۔
لیکن نواب زادہ صاحب اس سے قطعاً مطمئن نہیں تھے۔ انہیں شکایت یہ تھی کہ صدر لغاری چونکہ انہیں اپنے کنبے کا ایک فرد شمار کرتے تھے، لہٰذا ان کی رہائش قصر مہمان داری کے اُسی فلور پر ہونی چاہیے تھے جہاں صدر اور اُن کے اہل خانہ کو ٹھیرایا گیا تھا۔ میں نے اُن کے گلے کے جواب میں بڑے تحمل سے کہا کہ مجھے قطعاً اس کی سن گن نہیں تھی کہ وہ لغاری صاحب کے اہلِ بیت میں سے تھے۔ لیکن اُن کے شکوے شکایت پر مجھے معاً سرجن نصیر شیخ یاد آگئے جنہیں الجزائر میں مجھ سے اسی طرح کا گلہ ہوا تھا۔
میں نے نواب زادہ صاحب کے حضور وضاحت کی کہ مجھے اس پر قطعاً کوئی تعرض نہیں تھا کہ وہ لغاری صاحب کے اہلِ بیت میں سے تھے، لیکن ساتھ ہی یہ عرض بھی کی کہ دفتر خارجہ سے میرے لیے دورے کے آغاز سے قبل جو بریف آیا تھا اُس میں اس قسم کا کوئی اشارہ یا عندیہ نہیں تھا کہ نواب زادہ صاحب کو لغاری کے اہلِ خانہ میں شمار کیا جائے۔
جاگیردارانہ پس منظر اور سوچ
نواب زادہ نصر اللہ کے متعلق میں نے اس سے پہلے بہت کچھ سنا تھا لیکن مجھے اس کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی پست سوچ کے حامل تھے۔ ویسے ان کے جاگیردارانہ پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی اتنی تعجب کی بات نہیں تھی۔ جاگیرداری کی نفسیات میں یہ عنصر بہت غالب رہتا ہے کہ بڑے کے آگے بھیگی بلی بن جائو اور چھوٹے کو غرّا کے آنکھیں دکھائو۔ اس صفت کو عام زبان میں Bully کرنا کہا جاتا ہے، اور میں نے نواب زادہ صاحب کے قیام کویت میں اس کے اور بھی کئی مظاہر دیکھے۔ فاروق لغاری صاحب سے بات کرتے ہوئے اُن کے لب و لہجے میں حلاوت ہوتی تھی، لیکن مجھ سے یا میرے افسروں میں سے کسی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کے تکلم میں وہ مخصوص رعونت عود کر آتی تھی جو جاگیردارانہ کلام کا خاصا ہے۔ ان فراعین کے نزدیک جو جاگیردار نہیں ہے وہ رعیت ہے، اور اس اعتبار سے کسی عزت و احترام کا سزاوار نہیں ہے۔
میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں اُن کی کشمیر کمیٹی کے تارِ عنکبوت میں الجھنے سے بچ گیا، ورنہ میرا کیا حشر ہوتا اس کا اندازہ مجھے ان دو تین دنوں میں بخوبی ہوگیا تھا جو نواب زادہ جیسے اناپرست اور خودپسندی کے جنون میں مبتلا شخص کے ساتھ اس عالم میں گزرے کہ میں بہرحال سفیر پاکستان تھا اور نواب زادہ صاحب کی گرفت سے آزاد تھا۔
رہائش کے معاملے میں اہلِ بیت کے مرتبے پر فائز نہ ہونے کے بعد نواب زادہ صاحب کسی کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچ نہیں سکتے تھے، لیکن سفارت خانے کے عملے کے ساتھ انہوں نے زبانی نوچ کھسوٹ شروع کردی۔ اُن کا اصل معرکہ اِس خاکسار سے ہوا اور وہ بھی کویت میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد اور گنتی کے موضوع پر، جس پر ہمارا خیال تھا کہ ہمیں کامل دسترس حاصل تھی، لیکن نواب زادہ صاحب آمادۂ پیکار تھے کہ جو وہ جانتے تھے وہ ہماری پہنچ سے بہت دور کی بات تھی، اور جن حقائق کے وہ دانا بلکہ دانائے راز تھے اس کا علم ہمارے فرشتوں کوبھی نہیں تھا۔
کویت میں پاکستانیوں کی تعداد؟
مجھ سے انہوں نے یہ شکایت کی کہ عراقی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد کویت لوٹ کر واپس آنے والے پاکستانیوں کی تعداد ان کی دانست میں کم تھی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اس وقت کویت میں پاکستانیوں کی تعداد کیا تھی؟
انہوں نے جواب دیا کہ چالیس پچاس ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ میں نے عرض کی کہ کویتی حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت کویت میں آباد پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی تھی، جبکہ 1990ء میں کویت پر عراقی قبضے کے وقت پاکستانیوں کی کُل تعداد ستّر ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس عاجز نے دن رات محنت اور بھاگ دوڑ کرکے اپنے ہم وطنوں کو تیل کی دولت سے مالامال اس ریاست میں زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنے اور آباد کرنے کا کام کیا تھا، اور یہی وہ ذمہ داری تھی جو سابق وزیراعظم نوازشریف نے مجھے کویت میں تعینات کرتے ہوئے سونپی تھی۔ میں تو ذاتی طور پر دوبارہ کویت آنے کے حق میں نہیں تھا لیکن میاں صاحب کا اصرار تھا کہ کوئی ایسا سفیر مقرر کیا جائے جو کویت میں پہلے بھی رہ چکا ہو، وہاں کے حالات سے بخوبی واقف ہو اور اپنے پرانے تعلقات کی بنیاد پر پاکستانیوں کی وہاں دوبارہ آبادکاری اور بحالی کے لیے راہ ہموار کرسکے۔
لیکن نواب زادہ صاحب پر میرے دلائل کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ مسلسل یہی رٹ لگاتے رہے کہ میرے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ میں نے زچ ہوکر سوال کیا کہ ان کی معلومات کا ذریعہ کیا ہے؟ جواب میں انہوں نے شانِ بے نیازی سے کہا کہ ان کے کچھ سیاسی مریدوں نے انہیں حقائق اور اعداد و شمار بتائے ہیں۔
نواب زادہ صاحب کی خودپسندی کی اس سے بھی بدتر شہادت مجھے اس واقعے کے چند ماہ بعد جدہ میں حج کے موقع پر ملی۔ یہ1995ء کے اوائلِ گرما کی بات ہے جب میں اپنی شریکِ حیات اور دو بہنوں کے ہمراہ کویت سے حج کرنے کے لیے جدہ پہنچا تھا، اور میری تیسری بہن جو جدہ میں رہتی تھیں، ہمارے ساتھ شامل ہوگئی تھیں۔
منیٰ میں حجاج کے خیموں کی آگ
ہم سب لوگ اُس قافلے میں شریک تھے جو جدہ کے پاکستانی قونصلیٹ کے زیراہتمام و انصرام مناسک ِحج کے لیے منیٰ کا رخ کرنے والا تھا ،لیکن اس سال ایام حج سے دو دن پہلے منیٰ میں حجاج کے خیموں میں آگ لگ گئی جس سے بہت سے خیمے جل گئے۔ اب یہ شاید ہمارا امتحان تھا کہ آگ اس حصے میں لگی تھی جس میں پاکستانی قونصلیٹ کے عازمینِ حج کو قیام کرنا تھا۔ اس آفت نے قونصلیٹ کے افسران اور دوسرے عملے کے افراد کے لیے ایک بڑا انتظامی مسئلہ کھڑا کردیا تھا۔ مسئلہ یہ درپیش تھا کہ خیموں کی تعداد کم پڑگئی تھی۔ اس لیے کہ بہت سے جل گئے تھے اور اس قلیل جگہ میں اتنے بہت سے عازمین حج کے لیے رہائش کی سہولت فراہم کرنا ایک امتحان سے کم نہیں تھا۔
منیٰ کے لیے قافلے کی روانگی سے ایک شام قبل میں اپنے پرانے شریکِ کار عارف کمال کے گھر پر بیٹھا اُن کے ساتھ اس غیرمتوقع پیش رفت پر ہی بات کررہا تھا۔ عارف میرے چھوٹے بھائی کی طرح تھے۔ انہوں نے میرے ماتحت کویت اور ٹوکیو دو سفارت خانوں میں کام کیا تھا اور اُن دنوں جدہ میں قونصل جنرل کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ہم دونوں باتیں ہی کررہے تھے کہ اس افتاد سے کیسے نبرد آزما ہوں کہ عارف کے پاس نواب زادہ نصراللہ کا فون آیا۔ نواب زادہ صاحب پاکستان سے آنے والے سرکاری حج وفد کے رکن تھے۔ وفد کے تمام اراکین کے لیے احرام بھی حکومت کے صرفے سے فراہم کیے گئے تھے۔
نواب زادہ صاحب فون یوں کررہے تھے کہ خیموں میں آتشزدگی کی خبر اُن تک بھی پہنچ گئی تھی، لیکن اُن کی فون کال اس لیے نہیں تھی کہ وہ قونصل جنرل سے اس کی نئی اور گراں بار ذمہ داری پر اظہارِ ہمدردی کررہے تھے یا کرنا چاہتے تھے، بلکہ اس لیے تھی کہ اُن کے لیے ہر حال میں ایسے خیمے کا بندوبست کیا جائے جس میں ایئرکنڈیشنر ہو، تاکہ انہیں گرمی نہ لگے۔
بے چارہ عارف کمال حیران و پریشان میری طرف دیکھ رہا تھا اور میں سرپیٹ رہا تھا اپنے سیاسی زعماء کے اخلاقی زوال اور پستی پر۔ نواب زادہ نصراللہ کا شمار تو اُن زعماء میں ہوتا تھا جوجغادری سمجھے جاتے تھے اور جن کے متعلق شہرت یہ پھیلائی جاتی تھی کہ اُن کے دل تو عوام کی محبت سے سرشار ہیں اور عوامی خدمت کا جذبہ ہی اُن کی زندگی کا نصب العین ہے۔
مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ بے نظیر نے نواب زادہ نصراللہ کی قماش کے آثار کہنہ کیوں اپنے گرد جمع کررکھے تھے؟ آخر کیا مجبوری تھی، کون سی مصلحت تھی جس نے بے نظیر کے دامن کو ایسے کاٹھ کباڑ سے بھر دیا تھا؟ ایسے دقیانوسی خیالات کے حامل، غرض کے بندوں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے کیسے ممکن تھا کہ بے نظیر بھٹو اپنے دعووں کے مطابق پاکستان کو ایک روشن خیال، ترقی یافتہ اور متمدن ریاست میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
(جاری ہے)