مولف : پروفیسر میاں ظفر اقبال
صفحات : 1016 قیمت:درج نہیں
ملنے کا پتا : 0300-6733924
زیر نظر کتاب پروفیسر میاں ظفر اقبال نے عشقِ مصطفیٰ میں ڈوب کر تحریر کی ہے۔ سطر سطر میں نبی کریمﷺ سے محبت اور عقیدتِ کے فوارے پھوٹتے محسوس ہوتے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر صاحب کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ پروفیسر میاں ظفر اقبال تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصافِ حمیدہ ہوں یا اخلاقِ کریمانہ… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوت و شجاعت ہو، یا غیرت و حمیت… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت ہو یا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی منتہائے عنایت… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شدتِ وفا ہو، یا اللہ عزوجل کی حسنِ عطا… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقامِ عروج ہو یا واقعہ معراج… جمالِ نظارت ہو یا کمالِ معرفت… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سلیقۂ بندگی ہو یا منصب ِبزرگی… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا علم بانٹنے کا قرینہ ہو یا آخرت کا خزینہ… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حُسنِ سلوک ہو یا شفقتِ مملوک… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا باطل سے معرکہ ہو یا ایمان یافتہ سے معانقہ… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بچوں سے پیار ہو یا امت کے لیے ایثار… آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خواتین سے بہترین برتائو ہو، یا ہر دم نیکی کی طرف جھکائو… ہر سمت، ہر زاویہ، ہر رخ لازوال لازوال لازوال۔
اس سعادت سے میں نے یہ جانا ہے کہ یہ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کمال و جمال کو ضبطِ تحریر کرکے قلم و کتاب میں مقید کردے۔
رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
اس کتاب کی ترکیب و ترتیب میں مجھے پانچ سال لگ گئے۔ اس کے مندرجات کے صحت مند ہونے کے لیے میں نے حتی المقدور کوشش کی ہے۔ مصر، عراق، ایران، شام اور عرب کے اہلِ سِیَر کی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ بعض امور میں اختصار مناسب سمجھا، وہیں محققین کے لیے مزید معلومات درج کردیں… یعنی صفحہ نمبر اور کتاب کا نام۔ اس کتاب کی تالیف میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ اس کتاب کو مرتب کرتے وقت اَن گنت دفعہ ایسا ہوا جیسے میں عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں رہ رہا ہوں اور میرے ذمہ یہ کام لگا ہوا ہے۔ حوالہ جات کی تصدیق بارہا رُکی، مگر جلد ہوئی اور وہ بھی بڑے لطیف انداز میں۔ وارداتِ قلبی کا کئی بار مزہ چکھا۔
میرا مدعا اس اندازِ اسلوب کی ترتیب سے طرزِ نو متعارف کرانا ہرگز نہیں، میری فکر کا مقصد سنن کا احیا ہے۔ آج کا انسان سہل پسندی اور اختصار کا مشغلہ اپنا بیٹھا ہے۔ کتب کی ضخامت انسانی دماغ پر بوجھ لگتی ہے۔ فکر کی آڑ میں تمنا ہے کہ انسان بندہ بن جائے۔ کم از کم وقت میں ضرورت کے مطابق سنت کے بارے میں معلومات ایک صفحے پر میسر آجائیں، اور کسی قسم کا تردد درکار نہ ہو، اور تنگیِ داماں کا شکوہ جاتا رہے۔
اس پیغامِ حیات آفریں کے سر آغاز کے لیے والدہ مرحومہ کی کتاب سے مراجعت کی گئی ہے۔ اللہ کریم انہیں جنت مقیم بنادے۔ آمین
دنیا بھر کے اہل سِیَر کی خدمات واجب التعظیم ہیں۔ ان کے درجات میں بلندی کی استدعا کرتا ہوں۔ بہت ساری باتیں کہنا چاہتا ہوں، ادب اور رازکا تقاضا چپ کرا دیتا ہے۔ دعا ہے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے‘‘
کتاب کی فہرست میں بیس ابواب درج ہیں جو درج ذیل ہیں:۔
پہلا باب: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ثنا کیسے کی، دوسرا باب: عرش پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا نام مبارک، تیسرا باب: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سماوی مخلوق، چوتھا باب: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ملائکہ، پانچواں باب: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت کا ظہور، چھٹا باب: حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا، بشارت ہوں‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ’’میں اپنی امی کا خواب ہوں‘‘، ساتواں باب: آسمانی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تذکرہ، آٹھواں باب: قدیمی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضائل اور مناقب، نواں باب: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، دسواں باب: قدیم پتھروں پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، گیارہواں باب: علمائے یہود اور راہب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بشارت دیتے ہیں، بارہواں باب: وہ خط جو ایک ہزار سال بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، تیرہواں باب: مدینہ میں تبع ثانی کی آمد، چودہواں باب: حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شبیہ مبارک دیگر انبیائے کرام کی تصاویر کے ساتھ صحابہ کرام، ہرقل کے دربار میں اہلِ کتاب کے علما کا اس رات کے بارے میں بتا دینا، پندرہواں باب: دریائے دجلہ کا پھٹ جانا، ایوانِ کسریٰ کا لرز اٹھنا، اس کے کنگرے گر جانا اور آگ کا بجھ جانا، سولہواں باب: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حسب نسب مبارک، سترہواں باب: عبدالمطلب کی کفالت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لڑکپن اور جوانی، اٹھارواں باب: حرب الفجار اور حلف الفضول، انیسواں باب: بعثت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عمرِ مبارک اور بعثت کی تاریخ، بیسواں باب: نزولِ وحی کی ابتدا، اکیسواں باب: پہلی وحی… یہ باب 277 صفحات پر ختم ہوتا ہے، اس کے بعد فصول میں 45 صفحات پر اسما النبیؐ ہیں۔ آپؐ کی انقلابی سرگرمیاں، آپؐ کی نشست و برخاست کا اندازِ مبارک، آپؐ کا پہلا کلام، آپؐ کا تیمم، آپؐ نے ثنا کیسے کی، آپؐ کا جود و سخا، چھینک، آپؐ کا حسن و جمال، آپؐ کے جسم اطہر کے روحانی خصائص، آپؐ کی دعا میں آداب، آپؐ کل کے لیے کچھ ذخیرہ نہ کرتے تھے، آپؐ کی رضا، رعب، پسندیدہ و ناپسندیدہ اور آپؐ کے اعمالِ صالحہ۔ پروفیسر صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شمائل و خصائل اور خصائص اور اسوۂ حسنہ کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بہت تحقیق ہوچکی ہے، اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ کتاب کے آخری صفحے 1016 پر اظہارِ تشکر کے عنوان سے پروفیسر صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:۔
’’جبین نیاز بسجود، چشم پُرنم، قلب مسرور، باطن حیران و شاداں، پور پور مشکور، اللہ کریم کی نعمتوں میں ایک نعمتِ عظمیٰ عطا ہوئی جو میری حیات کی متاع ہے۔ مجھے اپنے حبیبِ لبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنن کی اشاعت میں سعادتِ عظیم سے سرفراز کیا اور ماں بیٹے کو ایک ہی اعزاز کا مستحق ٹھیرایا۔
اللہ عزوجل کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے۔ یا ارحم الراحمین اس انعام کے شکر کا حق ادا کرنے میں میری نصرت فرما۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس توفیقِ بے مثال کو شرفِ قبولیت بخش دے۔ میرے جسم اور روح میں سرورِ سروراں سید مرسلاں کی محبت، عقیدت، اطاعت اور عنایت اثر انگیز کردے۔ میرے خاندان کو خیر کثیر سے نواز دے۔
تاجدارِ کشورِ رسالت میں ایک ادنیٰ سا ارمغان مودت پیش کرنے کی تمنا رکھتا ہوں، خالی ہاتھ تہی دامن ہوں، ہمیشگی کی غلامی ثبت کردیجیے۔ اس کوشش کو زیارتِ قبولیت عطا کردیجیے۔ میرے ایمان اور جھولی کے چھیدرفو کرکے عطائے کثیر سے بھر دیجیے۔
تجھ سے حروفِ ہست و بود تیرا وجود الکتاب
ظلمت زدہ حیات نے پائی تجھ سے آب و تاب
تیری نگاہِ پاک سے روشن ہوئے ضمیر و دل
تیرے چراغ پا بنے فرش و فلک کے ماہتاب‘‘