مصنف : ڈاکٹر فاروق حسن
صفحات : 112 قیمت:ندارد
ناشر : گلوبل اسلامک مشن، نیویارک
رابطہ : 03332315083
ای میل : dr.fhassan@gmail.com
پیش نظر کتاب بنیادی طور پر ’اصولِ فقہ‘ پر امام غزالیؒ کی تجدیدی خدمات سے متعلق ہے۔ کتاب کا مکمل نام ’’امام محمد الغزالیؒ کی اصولِ فقہ میں تجدیدی خدمات اور بعض شبہات کا ازالہ‘‘ ہے۔ یہ کتاب درجِ ذیل چارابواب پر مشتمل ہے:
1۔ امام محمد غزالی اور کتب ِ اصول فقہ، 2۔ کتاب ’المنخول من تعلیقات الاصول‘ کا تعارف اور ازالہ شبہات، 3۔ امام محمد غزالی کی اصول فقہ میں آخری کتاب ’المستصفی‘ کا تعارف، 4۔ امام غزالی کی آراء پر ابن رشد کی تنقید کا جائزہ۔
حجۃ الاسلام، زین الدین ابوحامد محمد بن محمد بن محمد بن احمد الغزالی، الطوسی، الفقیہ الشافعی(451ھ۔505ھ) کا شمار پانچویں صدی ہجری کے بالغ نظر فقہاء و متکلمین اور نامور علمائے اصولیین میں ہوتا ہے۔ امام غزالی نے طوس میں علی احمد الرازکانی سے اشتغال کیا، پھر نیشاپور آئے اور امام الحرمین ابوالمعالی الجوینی کے دروس میں شرکت کرتے رہے، یہاں تک کہ اپنے استاد کے زمانے ہی میں ان اعیان میں سے ہوگئے جن کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ امام الحرمین الجوینی(م: 478ھ) کے انتقال کے بعد امام غزالی نیشاپور سے العسکر چلے گئے۔ وہاں نظام الملک طوسی نے آپ کے علم و فضل سے متاثر ہوکر اپنے عہد کے سب سے شاندار تعلیمی ادارے یعنی مدرسہ نظامیہ بغداد کی تدریس آپ کے سپرد کردی۔
483ھ سے 487ھ تک امام غزالی اپنے زمانے کے مختلف مذاہبِ فکر خصوصاً فلسفے کا بڑی محنت سے مطالعہ کرتے رہے، لیکن ذوالقعدہ 488ھ میں آپ نے سب کچھ چھوڑکر زہد و انقطاع کا طریق اختیار کرلیا، اورعبادت و ریاضت کی طرف متوجہ ہوگئے۔ آپ خود بیان کرتے ہیں کہ: ۔
’’مجھ پر یہ اچھی طرح سے واضح ہوچکا تھاکہ سعادتِ اخروی کی صورت صرف یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے اور نفس کو اس کی خواہشات سے روکا جائے، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ دارِ فانی سے بے رغبتی، آخرت کی طرف میلان و کشش، اور پوری یکسوئی کے ساتھ توجہ الی اللہ کے ذریعے قلب کا علاقہ دنیا سے ٹوٹ جائے۔ لیکن یہ جاہ و مال سے اعراض، اور موانع و علائق سے فرار کے بغیر ممکن نہیں۔ ‘‘ (المنقذ من الضلال،ص88) ۔
499ھ میں سلطان سنجر اور اس کے وزیر فخرالملک بن نظام الملک نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ مدرسہ نیشا پور میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری کریں۔ آپ راضی نہ تھے مگر بعض دوستوں کے اصرار، استخارہ اور رویائے صادقہ کی بنا پر آپ نے ذوالقعدہ 499ھ میںیہ پیشکش قبول کرلی۔ محرم 500ھ میں فخرالملک بن نظام الملک کی ایک باطنی کے ہاتھوں شہادت کے بعد نظامیہ کی تدریس سے کنارہ کشی کرلی اور اپنے وطن طوس چلے گئے۔ طوس میں صوفیہ کے لیے ایک خانقاہ اور طالب علموں کے لیے ایک مدرسہ بنایا اور اپنے اوقات کو تادمِ آخر نیکی کے کاموں، اہلِ دل کی مجالست اور تدریس کے لیے وقف کردیا۔ امام غزالی کے انتقال پر مشہور شاعر، ادیب ابوالمظفر محمد ابیوردی نے آپ کا مرثیہ کہا، جس کا ایک یہ شعر بھی ہے: ۔
مضی واعظم مفقود فجعت بہ
من لا نظیر لہ فی الناس یخلقہ
’’وہ چلا گیا اور وہ مرنے والا بہت بڑا ہے جس کا مجھے دکھ دیا گیا، اور اس کے پیچھے والے لوگوں میں اس کی نظیر موجود نہیں ہے‘‘۔
امام غزالی نے متعدد علوم و فنون میں مفید کتابیں تصنیف کیں، لیکن تخصیص کے ساتھ جن علوم کو ترقی دی وہ فقہ، اصولِ فقہ، کلام اور اخلاق ہیں۔
امام غزالی نے علم ِ اصولِ فقہ پر کم از کم تیرہ مطول، متوسط اور مختصر کتابیں لکھیں۔ اس فن پر ان کی پہلی کتاب ’المنخول‘ اور آخری ’المستصفی‘ہے۔ آخر الذکر کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ مگر ان کی اوائل زندگی کی شاہکار کتاب ’المنخول‘ گمنامی اور عدم توجہی کا شکار رہی۔ کسی نے اسے امام غزالی کی کتاب ماننے میں تردد کیا، تو کسی نے انکار۔ بعض نے اسے محمود الغزالی المعتزلی کی، اور بعض نے ان کے کسی شاگرد کی کتاب بتایا۔ فاضل مصنف ڈاکٹر فاروق حسن نے اس کتاب میں مذکورہ بالا امور، اعتراضات و شبہات اور غلط فہمیوں کا تجزیہ بھی کیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق حسن این۔ای۔ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور متعدد قومی و بین الاقوامی علمی مجالس کے رکن ہیں۔ تاریخ اصولِ فقہ، تکثیریت، مکالمہ بین المذاہب اور مسلم دنیا کو درپیش علمی و فکری مسائل اور ان کا حل آپ کی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں، جن پر آپ کے متعدد علمی و تحقیقی مقالات ملکی اور بین الاقوامی تحقیقی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ آپ نے فن اصولِ فقہ پر جامعہ کراچی سے ڈاکٹریٹ اور ’ابراہیمی مذاہب کے مابین امن‘ کے موضوع پر جارج ٹائون یونیورسٹی (امریکہ) سے فل برائٹ اسکالر شپ پر پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ علاوہ ازیں جامعہ ازہر (مصر) سے بھی اکتسابِ فیض کیا ہے۔
امام غزالی کی تصانیف کے متعدد مخطوطات اور مصورہ نسخے یورپ کے مکتبوں میں محفوظ ہیں۔ عہد ِ حاضر میں برقی ذرائع کی بدولت امام غزالی کی کتب اصولیہ یا ان پر لکھی گئی شروح و حواشی جو ماضی میں مفقود سمجھی جاتی تھیں، ان تک رسائی ممکن ہوگئی ہے۔ فاضل مصنف نے ان ذرائع کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے قاری کو اس موضوع پر ایک ہی جگہ متعدد خطی نسخوں، کتابوں، ان کی اشاعت و طرزِ تحریر، ان پر لکھی جانے والی شروح و حواشی اور ان کے رَد و قبول کے تعلق سے اہم اورمستند معلومات فراہم کردی ہیں۔
ڈاکٹر فاروق حسن کی یہ مختصر لیکن اپنے موضوع پر ایک جامع کتاب، تشنگانِ علم کے لیے اصول ِ فقہ میں امام غزالی کی خدمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بیش قیمت مواد مہیا کرتی ہے۔ کتاب کا حسنِ طباعت اس پر مستزاد ہے۔ اس اہم کتاب کی اشاعت پر فاضل مصنف اور ناشر دونوں لائق تحسین ہیں۔