قومی کشمیر کانفرنس کے مطالبات

امیرِ جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اسلام آباد میں قومی کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ کشمیر چار ایٹمی طاقتوں کے درمیان گھرا ہوا دنیا کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اگر اسے لاکھوں کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل نہ کیا گیا تو خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ دنیا مسئلے کی اہمیت و نزاکت کو سمجھتے ہوئے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا احترام کرے۔ پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر سفارتی ایمرجنسی نافذ کی جائے، اور مستقل طور پر ایک نائب وزیر خارجہ تعینات ہونا چاہیے جس کی ذمے داری میں صرف امورِ کشمیر شامل ہوں۔ انہوں نے یہ مطالبات اسلام آباد میں قومی کشمیر کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے کیے۔ اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں، آزاد کشمیر کی قیادت، مقبوضہ کشمیر کی کل جماعتی حریت کانفرنس، وکلاء، صحافیوں، مذہبی رہنمائوں اور مختلف طبقۂ فکر کے نمائندوں نے شرکت کی۔ قومی کشمیر کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی منظور کیا گیا جس میں اہلِ کشمیر سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ مودی حکومت اور اُس کے اقدامات خطے اور دنیا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، اقوام متحدہ تمام وسائل اور اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے بھارت کو مجبور کرے کہ وہ مقبوضہ ریاست میں5 اگست 2019ء کے بعد کیے جانے والے اقدامات کو فی الفور واپس لے۔ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے رائے شماری کا اہتمام کرے، اس سلسلے میں کمشنر رائے شماری کا تقرر کیا جائے، کشمیر پر اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے جو کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لے۔ نیز بین الاقوامی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں، خدمتِ خلق کے اداروں کی مقبوضہ ریاست میں رسائی ممکن بنائے۔ قومی کشمیر کانفرنس میں پیش کی جانے والی ایک تجویز کو منظور کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مشترکہ ’’سیاسی ٹاسک فورس برائے کشمیر‘‘ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا جس کا مرکزی دفتر منصورہ میں قائم کیا جائے گا۔ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر اسد قیصر نے پارلیمانی سطح پر وفود کی تشکیل اور عالمی کانفرنس کے انعقاد کے عزم کا اظہار کیا۔ 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز1990ء میں ہوا تھا جب اُس وقت کے امیرِ جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو خبر دی تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے نئے جذبے سے تحریک ِآزادی شروع کردی ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے5 فروری کو یومِ کشمیر منانے اور انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کا اعلان کیا۔ اس اپیل کی حکومت، حزبِ اختلاف اور تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی۔
مسئلہ کشمیر قومی اتحاد کی علامت بھی ہے۔ اِس برس یومِ یکجہتی کشمیر ایسے حالات میں آیا ہے جب مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر نئی قیامت آئی ہوئی ہے۔ 5 اگست 2019ء کو نریندر مودی کی متعصب اور مسلمان دشمن حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں جبری ضم کرنے کے لیے بھارتی آئین تبدیل کردیا۔ اس فیصلے کو کشمیر کی قیادت اور عوام نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اُس وقت سے آج تک مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھارتی فوج کے مکمل محاصرے میں ہیں۔ تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے طویل عرصے سے انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے۔ پیلٹ گنوں سے بچوں، خواتین اور جوانوں کو زخمی کیا جا رہا ہے۔ فرضی مقابلے میں جوانوں کا قتل عام بات ہے۔ عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کے واقعات دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ صورتِ حال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی قیادت بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگئی ہے، لیکن عالمی طاقتیں اور ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بھارت اپنے ملک میں اقلیتوں اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ریاستی دہشت گردی کا مجرم ثابت ہوچکا ہے۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو ’’گجرات کا قاتل‘‘ کا خطاب امریکہ نے دیا تھا، اور وزیراعظم بننے سے قبل اُس کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد تھی، لیکن جانتے بوجھتے وہی مودی امریکہ اور عالمی سرمایہ دار قوتوں کا اتحادی بنادیا گیا۔ دنیا میں کوئی طاقت نہیں ہے جو بھارت کی ظالم و جابر حکومت کا ہاتھ روکے۔ عالمی طاقتوں کا رویہ تو سمجھ میں آتا ہے، اس لیے کہ وہ دنیا کی کمزور قوموں کو غلام رکھنے اور ان کے مادی وسائل پر غاصبانہ قبضہ رکھنے کے لیے ایسے ظلم و ستم کی عادی رہی ہیں، لیکن یہاں سوال پاکستان کی حکومت اور قیادت کا ہے۔ کشمیر تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ اہلِ کشمیر خدا کی ذات کے بعد اگر کسی طرف دیکھتے ہیں تو وہ پاکستان کے حکمراں اور مسلمان عوام ہیں۔ کشمیری مسلمانوں نے اپنا کردار ادا کردیا ہے، اب یہ پاکستان کی حکومت کا امتحان ہے کہ کشمیریوں کی مدد کرے۔ بھارت نے تقسیمِ ہند کے اصول کو پامال کرتے ہوئے فوجی طاقت سے مسلم اکثریتی ریاست پر قبضہ کیا اور اُس وقت کے مشترکہ فوجی کمانڈر جنرل گریسی نے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی حکم عدولی کی، اور حکم کے باوجود فوجی طاقت استعمال نہیں کی۔ اُس کے بعد سے آج تک ہر حکومت نے کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے سیاسی اور عسکری حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ 5 اگست 2019ء کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ حکومت جارحانہ سفارت کاری اپناتی، اور بھارت پر دبائو ڈالنے کے لیے سیاسی وعسکری مزاحمت کی پالیسی اختیار کرتی، لیکن حکومت کی جانب سے نمائشی اقدامات بھی سامنے نہیں آئے۔ اب تک موجودہ حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ میںکی جانے والی ایک تقریر کے سوا کوئی سرگرمی سامنے نہیں آئی۔ 5فروری کشمیریوں سے یکجہتی کے ساتھ قومی اتحاد و اتفاق کی علامت بھی ہے، لیکن حکومتی سطح پر کوئی ایسا قدم سامنے نہیں آیا جس کی وجہ سے بھارت کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم سے باز آجائے۔ کشمیر کی آزادی اور کشمیری مسلمانوں کی حفاظت قومی پالیسی کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔