ترجمہ: اسامہ تنولی
زیرنظر کالم اتوار 7 فروری 2021ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا ہے، جس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
…………
’’شہروں میں سرمائے کی غیر معمولی گردش اس طرح سے کام کرتی ہے جس طرح پیداوار کے دوسرے عناصر… مثلاً زمین، انسانی محنت اور معاشی تنظیم سازی۔ یہ سب عناصر مالیاتی سرمائے سے مل کر سماجی اور مکانی مناظر تشکیل دیتے ہیں جو منظم سرمائے کے انبار کو کچھ ہاتھوں میں مرتکز کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ شہر کے اندر جگہوں، خلا اور مقامات کو باہم اس طرح سے جوڑا جاتاہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ معاشی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ زمین اس عمل میں نفع کو جمع کرنے کا بنیادی عنصر ہے۔ زمین کے استعمال اور اس کے باہمی تبادلے کی قدر سے کئی سماجی طبقات امیر اور آسودہ تر ہوتے ہیں۔ سماجی اور معاشی تفریق کی نشاندہی ہوتی ہے۔ کرائے پر کاروبار، زمین، مستقبل کی سرمایہ کاری، شہروں کی اکھاڑ پچھاڑ نقل و حرکت اور تضادات میں اضافہ کرتی ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے جاری شہروں کے وجود اور منظرنامہ کو بین الاقوامی سرمائے اور بینکوں کی مدد سے نیو لبرل نظریے نے ایک خوفناک مالیاتی شکل دے دی ہے۔ کئی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک صنعتیں یا نئے کارخانے کھولنے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن وہ بین الاقوامی مالیات کی مدد سے اسٹاک مارکیٹ اور دیگر غیر رسمی سرمایہ کاری کرکے معاشی سرگرمیوں میں مشغول ہیں، جس میں زمین ایک اہم عنصر ہے۔ سرمائے کی ریل پیل کو بڑھانے کے لیے شہروں کی قیمتی زمین، سرمائے کی افزائش اور کرایہ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ شہروں میں کرایہ اور زمین لینڈ مافیا، بینکوں اور سیاست دانوں کے لیے کاروبار کا بنیادی عنصر ہے۔ کرائے اور لیز کے کاروبار پر قائم مافیا کے ساتھ لیز کے نقشوں کو اگر ہم سمجھنے کی سعی کریں گے تو معلوم ہوگا کہ لیز اور کرائے کی سرگرمیاں چلتی کس طرح سے ہیں، ان میں کیسے تیزی لائی جاتی ہے، اس کے محرکات اور ایجنٹ کون ہیں؟ زمین کا کاروبار کیوں بڑھ رہا ہے؟ بینک، سیاست دان اور دیگر ادارے ایک دوسرے کیوں تعاون کررہے ہیں؟ ریاست کی سماجی پالیسیوں اور سماجی شہری جدوجہد کو سمجھے بغیر یہ منظرنامہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
زمین تضادات سے بھرپور شہری سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک طاقتور عنصر ہے، جس سے نہ صرف لینڈ مافیا منافع کماتا ہے، بلکہ اس غیر پیداواری سودی سرمائے سے ہی طبقاتی تضادات ابھرتے ہیں۔ کیا زمین کو پیداواری استعمال میں لایا جائے، گھر اور رہائش کے لیے استعمال کیا جائے، یا زمین کو خودساختہ و پرداختہ سرمائے کے ذریعے سے گردش کرکے مالیاتی اثاثہ بنایا جائے؟ انہی تضادات سے ریاست کی معاشی تشکیل کی جانب سوال اٹھتا ہے کہ زمین کے استعمال کو کس طرح سے منظم کرنا چاہیے۔ زمین کی ملکیت، منصوبہ بندی اور اس کے منڈی میں طاقتور حلقے ایک متحرک ایجنٹ کے طور پر قائم کرتے ہیں۔ زمین کے استعمال اور اس تک رسائی پر طبقاتی کھینچا تانی ہے۔ زمین سے متعلقہ اور وابستہ کئی کیس عدالتوں میں ہیں۔ اگر حکومت قانون میں تھوڑی سی تبدیلی کرنا چاہے تو زمین کے کرائے اور استعمال پر بڑا فرق مرتب کرسکتی ہے۔ ریاستی ادارے ایک منظم سسٹم کے ذریعے کچھ افراد کو بے زمین کرکے زمین کو خودپرداختہ سرمائے کے توسط سے دیگر طبقات کے لیے منافع پیدا کرتے ہیں۔ سرمائے کی حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ شہری زمین اور اس پر کرایہ سرمائے کے انبار کے تضادات کو بڑھاتا ہے، اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کی شناخت اور پہچان ہے۔ پاکستان میں اگر کسی کو راتوں رات امیر بننا ہے تو اس کے لیے محفوظ راستہ قانونی یا غیر قانونی زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ زمین امیر ہونے کے لیے آسان راستہ اور اہم عنصر ہے، سیاسی پارٹیوں کے افراد، حکومتی ادارے، منتخب پارلیمانی نمائندے ظاہری اور خفیہ طور پر اس کاروبار میں شامل ہیں، جس کی وجہ سے ’’پراپرٹی ٹائیکون‘‘ پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں راتوں رات امیر ہونے کا شوق ہے۔ اس طرح سے سیاست اور لینڈ مافیا کا اس کاروبار میں ایک اسٹرے ٹیجک ملاپ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سے حکومتی ادارے بھی اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ اداروں کی مدد سے زمین پر بآسانی قبضہ کیا جارہا ہے۔ اداروں، حکمرانوں اور پولیس کی مدد سے دیکھتے ہی دیکھتے زمین ایک قیمتی اثاثہ اور تن تنہا ایک قابلِ اعتماد کاروبار بن جاتی ہے۔ اندازہ ہے کہ لاکھوں ایکڑ زمین مافیا کے براہِ راست کنٹرول میں ہے، اور حکومتی اداروں کی مدد کے بغیر یہ کام کس طرح سے ممکن ہے؟ یہ کاروبار نہ صرف ایک مستحکم کاروبار ہے، بلکہ دیگر جرائم کی طرح سے زمین پر قبضہ کرنے والا جرم بھی نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ گزشتہ کئی برس سے ملک میں مجموعی استحکام کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ 2018ء کی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سندھ میں زمین پر قبضہ کرنے والوں کو 2010ء سے صرف 5 کیسوں ہی میں سزا ملی ہے۔ کراچی میں اسپیشل انسدادِ تجاوزات عدالت (اینٹی انکروچمنٹ کورٹ AEC) میں سزا کی شرح صفر (زیرو) فیصد رہی ہے۔ یہ حقیقت حد درجہ حیران کن ہے، کیوں کہ امسال انسدادِ تجاوزات عدالت اور کراچی میں اسپیشل فورس قائم کی گئی تاکہ وہ عوامی ملکیت حاصل کرنے، اغوا کنندگان اور غیرقانونی تعمیرات کو مسمارکرے۔ اب تک صرف کراچی میں امسال زمین پر قبضے کے 10 کیس داخل کیے گئے ہیں۔ ریکارڈ دیکھنے سے یہ سوچا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟ اس کاروبار نے ایسا کوئی گوشہ یا کونہ نہیں چھوڑا جہاں زمینوں پر قبضہ نہ ہوا ہو۔ تعمیر اس کاروبار میں پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر بڑا کاروبار بن چکی ہے۔ اس عمل نے زمین کے ضوابط کو نقصان پہنچایا ہے۔ متعلقہ ذمہ داران زوننگ قوانین پر عمل کرنے کے بجائے سرکاری زمینیں محفوظ رکھیں اور اسے یقینی بنائیں، گھروں کی اراضی اس مقصد کے لیے استعمال کریں اور اسے یقینی بنائیں۔ لیکن یہاں پر زمین کے محافظ ہی اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ حکومتی اشرافیہ کے طاقتور طبقات اور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بلڈر مافیا کو اپنی خدمات فراہم کی گئی ہیں۔ پولیس بھی یقیناً اس مالی ریکٹ میں پارٹی ہے۔ پولیس طاقت کا ایک اہم نیٹ ورک ہے، جو لوگوں کو اپنی زمین چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ متوسط طبقے کا ابھرنا اور تعمیرات کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اس دھندے نے زور پکڑا ہے۔ اس عمل میں متعلقہ اربابِ اختیار اور قانون ہدف بن جاتے ہیں، اور یقینی طور پر اعلیٰ طبقات کے ساتھ بدعنوان بیوروکریسی اس کے تابع ہے۔ اس قسم کا کاروبار حکمران طبقے کی مدد کے بغیر چلایا نہیں جا سکتا۔ عوام اس حوالے سے ایک بھاری قیمت ادا کرچکے ہیں۔ غریب افراد اور کسانوں نے اپنی زمینیں فروخت کیں۔ زرعی زمین کم پڑگئی، حکومت نے لوگوں کو رہائش مہیا کرنے کا اپنا فرض پورا نہیں کیا۔ یہ خلا اس غیر رسمی مارکیٹ نے پُر کیا ہے۔ شہری پسے ہوئے اور دبائو میں ہیں۔ وہ کمزور ہیں اور قبرستان کی مانند فلیٹوں اور بلند عمارتوںمیں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہاری (کاشت کار) رزق سے محروم ہوگئے ہیں۔ زمین ایک کارآمد کاروبار بن چکی ہے۔ کراچی، اسلام آباد، پنڈی اور دیگر شہروں میں زمین کے وحشی استحصال کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔
کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
کمزور نظام کمزور قانون اور طاقت ور اشرافیہ پیدا کرتا ہے جو قانون کو اپنے حق میں استعمال کرسکیں۔ ریاست اور سیاسی پارٹیوں کو زمین کے استعمال کا سوال دوبارہ سوچنا چاہیے۔ تمام افراد کی گھروں کی ضروریات کا احترام کرنا چاہیے۔ زمین کے منافع کے تحت چلنے والے کاروبار کو یک لخت روک دینا چاہیے۔ زرعی زمین ہائوسنگ ملکیت کے لیے فروخت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ عمل خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے مستقبل کی فوڈ سیکورٹی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔