فنا فی العلم اور فنا فی التصنیف
گزشتہ سال (2020ء) تو اس اعتبار سے ایک الم ناک سال رہا کہ متعدد اہلِ قلم اور دانش ور متواتر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے، لیکن سالِ رواں بھی اپنے آغاز ہی میں اس روایت پر چل پڑا ہے، اور ڈاکٹر ندیم شفیق ملک (24 دسمبر)، پروفیسر احمد سعید ( 13 جنوری)اور ڈاکٹر گوہر نوشاہی (17 جنوری) جیسے معروف اہلِ قلم بھی علمی و ادبی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس سلسلے میں اگلا سانحہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری کی رحلت کی صورت میں علمی و ادبی دنیا کا مقدر بنا ہے، جو 2 فروری کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را! ان کا پیدائشی نام تصدق حسین خاں تھا، لیکن اپنی ہر دستاویز میں انھوں نے اپنے لیے ابوسلمان شاہ جہاں پوری کے استعمال کو ترجیح دی، اور اسی نام سے وہ معروف ہوئے۔ اپنی جائے پیدائش (30 جنوری1940ء) بمقام شاہ جہاں پور ہی میں انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور قرآن حفظ کیا، پھر 1950ء میں پاکستان ہجرت کی، اور اولاً نواب شاہ اور دیگر شہروں میں قیام کیا، اور پھر 1957ء میں مستقلاً کراچی کو آباد کیا۔ مختلف وجوہ کے باعث حصول ِ تعلیم میں تسلسل نہ رہا، 1970ء میں ایم اے، اور 1980ء میں پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ پی ایچ ڈی میں مطالعے کا موضوع شاہ ولی اللہ کے خانوادے کی علمی خدمات رہا، جو ان کی اسلامی و دینی تحریکات و رجال سے فطری دل چسپی کے تسلسل میں تھا۔ اول و آخر ان کے موضوعاتِ دل چسپی بھی یہی رہے، جن میں اکابرِ دین بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد اور بیسویں صدی کے دیگر ممتاز علمائے دیوبند اور ان کی علمی و قومی خدمات کا مختلف جہات سے مطالعہ شامل رہا، جوچھوٹی بڑی کم و بیش ایک سو تصانیف و تالیفات پر محیط ہے۔ مستقل ملازمت میں تدریس کو اپنا وسیلۂ روزگار بنایا اور 1972ء سے بحیثیت لیکچرر اولاً ’نیشنل کالج‘ اور پھر’عبدالحامد بدایونی کالج‘ میں تا عمرِ سبک دوشی تدریسی ذمے داریاں ادا کیں۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری صاحب سے میرے روابط کی مدت کم و بیش نصف صدی پر محیط رہی ہے۔ ان روابط کا آغاز اُس وقت ہوا جب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اُس وقت کراچی کے مرکزی علاقے صدر (ریگل) میں فٹ پاتھ پر لگی پرانی کتابوں کی دکانوں میں تقریباً روز ہی اپنی دل چسپی کی کتابوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا۔ یہیں پہلی بار ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ میرے لیے یہ وہ زمانہ تھا کہ اپنی کم عمری کے باعث اہلِ علم وقلم سے روابط کا قائم ہونا تو دور کی بات تھی، تعارف بھی محض حُسنِ اتفاق کی مانند تھا۔ کچھ اپنے مزاج کی وجہ سے، کچھ اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے احساس کے باعث خود کو طفلِ مکتب سمجھنے کے سبب اہلِ علم و قلم اور بزرگوں سے ازخود ملاقات کے لیے خود کو آمادہ نہ کرپاتا تھا۔ چناں چہ اُس وقت بھی یہ ملاقات اردو کالج کے اپنے ایک ہم مکتب محمد سلیم فاروقی (اب مرحوم)کے توسط سے ہوئی تھی اور محض منٹوں اور سرسری تعارف تک محدود رہی۔
ڈاکٹر صاحب کے نام اور اُس وقت تک کے اُن کے تصنیفی کاموں سے میں واقف تھا، اور یہ معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب اُس وقت ’انجمن ترقی اردو‘ سے منسلک تھے۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب چند کتابیں اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے اور دبیز شیشے کی عینک اور وضع قطع سے سنجیدہ اور بردبار اسکالر کی تصویر پیش کررہے تھے۔ اس تعارف کے بعد میرے اور ابوسلمان صاحب کے درمیان گاہے گاہے ملاقاتوں کا ایک تسلسل قائم ہوا جو روزمرہ کے روابط تک وسعت اختیار کرگیا۔ ہمارے درمیان تعلقات کا بڑا انحصار علمی و ادبی معاملات پر ہی بالعموم موقوف رہا، جس میں ایک دوسرے کے ساتھ علمی مشاورت اور تعاون و معاونت بھی شامل رہا کرتی تھی۔ یہ معمولات تقریباً دس برس، یا 1970ء کی دہائی کے وسط سے 1980ء کی دہائی کے آخری سالوں تک یوں ہی رہے۔ تاآں کہ 1986ء کے آخر میں کراچی کے حالات نے دگرگوں صورت اختیار کرلی۔ ڈاکٹر ابوسلمان صاحب کا گھر اور کتب خانہ ہنگاموں کی نذر ہوا تو وہ بجھ کر رہ گئے اور اپنے معمولات محدود کرنے پر مجبور ہوگئے اور خود کو گھر تک محصور کرلیا۔ صبح کالج میں تدریسی فرائض ضرور انجام دیتے، کہ یہ روزگار کا مسئلہ تھا، لیکن سہ پہر اور شامیں اپنے گھر ہی میں گزارنے لگے۔ بس ضروری کاموں یا ناگزیر ملاقاتوں کے لیے کچھ دیر کے لیے گھر سے نکلتے اور پھر گھر میں قید ہوجاتے۔ تقریبات یا جلسوں میں شرکت ویسے ہی ان کے مزاج میں شامل نہیں تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کسی اخلاقی مجبوری یا وضع داری کے تحت اپنے معمولات سے صرفِ نظر بھی کرلیتے تھے۔
مجھے یاد ہے دو ایک بار ڈاکٹر ایوب قادری مرحوم نے، جو اہلِ علم و دانش اور بزرگوں سے روابط میں بہت مشتاق رہتے، یا باقاعدگی برتتے اور اہتمام فرماتے تھے، وہ ڈاکٹر ابوسلمان صاحب کو اور گاہے خود مجھے بھی بہت مخصوص اور منتخب محفلوں میں شرکت، گفتگو اور خطاب پر آمادہ کرلیتے تھے، اور ان کی خواہش اور ان کی فرمائش ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ ڈاکٹر قادری صاحب کی علمی حیثیت اور ان کی منفرد خدمات کا سب ہی کو اعتراف رہا، اور وہ ہر جگہ قدر اور احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے اور اسی مناسبت سے اکابرِ علم و دانش اور علمی و تحقیقی اداروں میں قدرو منزلت حاصل رہتی تھی۔ علمی و تصنیفی منصوبے بھی انھیں سپرد کیے جاتے تھے۔ اس قسم کے اداروں میں ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘، ’’پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘، ’’جناح لٹریری سوسائٹی‘‘، ’’انجمن ترقی اردو‘‘ اور ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ وغیرہ سے ان کا راست اور قریبی تعلق تھا، اور انھوں نے ان اداروں کے متعدد علمی و تحقیقی منصوبوں میں سرگرمی سے حصہ بھی لیا اور ان اداروں کے لیے تصنیفی و اشاعتی منصوبوں کی تکمیل بھی کی۔ جب کراچی میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی سربراہی میں ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو ڈاکٹر ایوب قادری صاحب سے خاص روابط کے باعث ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور میجر آفتاب حسن (معتمد عمومی) نے جو ڈاکٹر قادری صاحب کے بہت معترف تھے، ڈاکٹر قادری صاحب کی سربراہی میں مقتدرہ کی ایک ذیلی’’مجلس طباعت و اشاعت‘‘ قائم کی اور اس کے کُل اختیارات انھیں سونپ دیے۔ اُس زمانے میں ڈاکٹر قادری صاحب، ڈاکٹر ابو سلمان صاحب اور میرے درمیان ایک مستقل قرب و شراکت قائم تھی، اور مجھے ان دونوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ ڈاکٹر قادری صاحب جہاں ڈاکٹر ابو سلمان کے ساتھ شفقت و محبت فرماتے، وہیں ان کی عنایات اور شفقتیں مجھے بھی حاصل رہتیں، اور کوئی بھی موقع ہوتا وہ میری حوصلہ افزائی ضرور فرماتے۔ چناں چہ انھوں نے مذکورہ مجلس کی تشکیل کے لیے اپنے ساتھ محض دو اراکین کو شامل کرنا کافی سمجھا اور ہم تینوں پر مشتمل اس مجلس نے مقتدرہ کے تصنیفی و طباعتی منصوبوں کی تیاری اور تعمیل میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ مقتدرہ کی ’’انگریزی اردو لغت‘‘ جو ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی زیر ادارت اور ان کی سربراہی کے عرصے میں شائع ہوئی، اس منصوبے کا آغاز، اس کا بنیادی خاکہ، کہ یہ انگریزی کی معروف لغت ’ویبسٹرس‘کی بنیاد بنے گی، اور اس کا ابتدائی مرحلہ اسی وقت شروع ہوگیا تھا اور مندرجات کے کارڈ بھی بننے لگے تھے۔ اسی طرح اردو ادب کی ایک فرہنگ کا منصوبہ بھی تیار ہوا تھا اور اس کا ابتدائی خاکہ بھی تیار کرلیا گیا تھا، لیکن یہ کام آگے نہ بڑھ سکا اور مقتدرہ کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے بعد معلوم نہیں اس منصوبے کا کیا رہا۔ مقتدرہ کا ماہنامہ رسالہ ’’اخبار اردو‘‘ جو ہمیشہ ہی سے باقاعدگی سے نکل رہا ہے، یہ بھی اسی مجلس کا منصوبہ تھا اور بہت مقبول اور مؤثر ثابت ہوا، اور دراصل اسی رسالے نے عوام اور مقتدرہ کے درمیان ایک رابطے کا کام کیا، اور مقتدرہ کے مقاصد، منصوبوں اور سرگرمیوں سے عوام کو آگاہ کرتا اور انھیں مشوروں میں شامل کرتا رہا۔ مجلس نے اس کی ادارت میرے سپرد کی تھی۔ چناں چہ میں نے کُل اختیارات کے تحت اس رسالے کو بہتر سے بہتر اور مؤثر سے مؤثر بنانے کی اپنی سی پوری کوشش کی۔ ڈاکٹر قادری صاحب اور ڈاکٹر ابوسلمان صاحب کا مکمل تعاون مجھے حاصل رہا۔ افسوس کہ ڈاکٹر قادری صاحب کی ناگہانی رحلت اور پھر متقدرہ کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے باعث یہ مثلث باقی نہ رہی اور ڈاکٹر ابوسلمان صاحب سے بھی ایسے مستقل رابطوں کا جواز باقی نہ رہنے کے باعث اور پھر دو سال کے لیے اوّلاً میری یورپ روانگی اور پھر جاپان کے میرے سات سالہ طویل قیام کے سبب صحبتوں کا تسلسل حسبِ سابق باقی نہ رہا اورمیری روزافزوں مصروفیات کے سبب ہمارے روابط اور ملاقاتوں میں طویل طویل وقفے آنے لگے۔
جب میںیورپ میں رہا اور جاپان میں طویل عرصے قیام کا موقع ملا تو مراسلت کے ذریعے ہمارے درمیان تعلقات قائم رہے۔ ڈاکٹرابوسلمان اپنی حد درجہ وضع داری کے باعث مراسلت یا میرے خطوں کی رسید دینے میں بالعموم تاخیر یا تساہل سے کام نہیں لیتے تھے۔ بڑے اہتمام اور پابندی سے خطوط لکھتے رہے جن میں محبت بھی شامل رہی اور رواداری و وضع داری بھی۔
ایک اور وصف اگر میں ڈاکٹر صاحب میں نمایاں دیکھتا رہا ہوں تو وہ ان کی محنت و مشقت ہے۔ مشقت کی حد تک مسلسل محنت ڈاکٹر صاحب کا ایک برا وصف ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو میں نے کبھی بے کار اور خاموش نہیں پایا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی شخصیت، اپنی حیثیت، اپنے مقام و مرتبے کو خود تعمیر کیا ہے۔ ’’پدرم سلطان بود‘‘ والی کوئی بات میں نے ڈاکٹر صاحب سے کبھی نہیں سنی اور نہ ان کے حوالے سے کسی اور نے سنائی۔ پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب نے جس گھر میں زندگی کا بڑا حصہ گزار دیا، اپنے ہاتھوں سے خود انھوں نے اسے تعمیر کیا تھا۔ اینٹیں خود بنائیں، دیواریں خود چنیں اور چھت بھی ڈالی، اور اسی طرح اپنی شخصیت کی تعمیر بھی خود کی۔ رفتہ رفتہ تعلیمی تحصیل کے مدارج طے کیے، تعلیم میں تواتر نہ رہا، جیسے جیسے موقع ملتا رہا آگے بڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ایم اے کیا اور پھر پی ایچ ڈی بھی کرڈالی۔ زندگی کا سارا ہی وقت جہدِ مسلسل میںگزارا۔ ایک طرف فکرِ معاش رہی جس نے انھیں شاید کبھی بہت فراخ دست نہ رکھا، عیش و عشرت اور آسائشوں سے بے نیاز ایک نہایت سادہ اور کفایت شعار زندگی گزاری۔ ابتداً عارضی اور جز وقتی ملازمتیں کیں، اور پھر جب ایم۔ اے کیا تو تدریس سے منسلک ہوگئے اور کراچی کے ’نیشنل کالج ‘میں لیکچرار تعینات ہوئے، لیکن دیگر مشاغل برقرار رکھے۔ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ میں اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔ پھر ہمہ وقت اپنے تصنیفی کاموں میں گزارتے، اور یہی نہیں بلکہ ان کی طباعت کے لیے کوشاں رہتے اور خود اپنی کوششوں اور اپنی نگرانی میں اپنی کتابیں شائع کرائیں۔ ابتداً ’’مکتبہ شاہد‘‘ جو ان کے فرزند شاہد حسین خاں کے نام پر ان کا ذاتی مکتبہ تھا، ان کی ذاتی مطبوعات کی اشاعت کا مرکز و محور رہا، پھر ’’ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘، ’’آزاد نیشنل کمیٹی پاکستان‘‘، ’’مولانا عبیداللہ سندھی اکیڈمی پاکستان‘‘ کی مطبوعات کے اصل روح رواں ڈاکٹر صاحب ہی رہے۔ اسی پر بس نہیں، ان کے رفقاء اور دوست احباب اگر اپنی کتابیں خود شائع نہ کرسکتے تو ڈاکٹر صاحب ہی سے رجوع کرتے کہ طباعتی مراحل طے کرا دیں۔ بس پھر یہ ڈاکٹر صاحب کی ذمے داری ہوجاتی کہ وہ ایسے کاموں کو بھی اپنا کام سمجھ کر پوری دل جمعی، خلوص اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیں۔ غرض، ڈاکٹر صاحب اداروں کا سا کام خود تن تنہا انجام دیتے رہے ہیں۔ مذکورہ بالا جو ادارے ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے عمل میں آئے، ان میں نہ کوئی افسر تھا، نہ کارکن، نہ ملازم، نہ چپڑاسی… سارے کام ڈاکٹر صاحب ہی انجام دیتے رہے۔ صرف اسی پر بس نہیں کہ ڈاکٹر صاحب خود کتابیں تصنیف کررہے ہیں، بلکہ انھیں شائع کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرکے مختلف مقامات سے، لاہور تک سے کتابت کرواتے، کاتبوں کے ناز اٹھاتے، کتابوں کے پروف خود پڑھتے اور پھر پریسوں کے چکر لگاتے، اور آخر میں حود ہی ان کے بنڈل بناکر ڈاک خانوں کی قطاروں میں خود کھڑے ہوکر انھیں ارسال کرتے۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی اور ان کے معمولات کو دیکھتا رہا، ان کی محنت و مشقت، مصروفیات اور پھر ان کے اخلاقی و معاشرتی تقاضے اور پھر گھر اور خاندان کی دیکھ بھال… کہاں اور کس سے وہ جڑے ہوئے نہیں تھے؟ لیکن زندگی کے آخری کئی برس وہ تنہائی کا شکار رہے۔ ان کی رفیقۂ حیات نے کئی سال پہلے متعدد عارضوں میں مبتلا رہنے کے بعد اس دارِ فانی کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ کئی برس وہ علیل رہیں، یہاں تک کہ ان کی بینائی ضائع ہوگئی بستر پر پڑ گئیں۔ بہت عرصے یہ کیفیت رہی۔ اس عرصے میں اور خصوصاً آخری چند ماہ میں ڈاکٹر صاحب بس ان ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اُن دنوں جس مکان میں رہتے تھے، وہ دو منزلوں پر مشتمل تھا۔ نچلی منزل پر کتب خانہ اور بیٹھک تھی، جس میں سارا وقت گزارتے، بیگم کے بیمار ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنا بستر بھی وہیں قریب ہی ڈال لیا تھا، اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ سارا وقت بیگم کی دیکھ بھال اور خدمت کرتے اور اگر وقت ملتا تو اپنے لکھنے پڑھنے کے کام وہیں انجام دیتے، صرف عصر تا مغرب کے وقت وہ نیچے آتے۔ کتب خانے میں وقت گزارتے اور اپنے ملاقاتیوں سے ملتے۔ یہ زمانہ ایسا بھی نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب خود صحت مند رہے ہوں۔ کئی سال قبل خود عارضۂ قلب سے دوچار ہوئے جو آخری سانس تک ساتھ رہا۔ اس کے علاوہ کئی اور عارضے انھیں لاحق تھے۔ متعدد بار ہسپتالوں میں رہنا پڑا۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ لاحق ہونے والے عوارض اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ضعف اور کمزوریوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب آخروقت تک ہمیشہ کی طرح متحرک اورکچھ نہ کچھ کرنے میں مصروف رہتے۔ نہ اخلاقی اور معاشرتی رشتے اور تقاضے کبھی ان سے نظرانداز رہے، نہ لکھنے پڑھنے کے کام متاثر ہوئے۔ اپنے ذوق وشوق اور اپنی ضرورتوں کے تحت رفتہ رفتہ جو کتابیں جمع ہوگئیں یا جمع کیں، وہ ایک بڑے کتب خانے کا منظر پیش کرتی تھیں۔ ایک دو دہائی قبل انھوں نے اپنے کتب خانے کا بڑا حصہ شہر کے ایک دارالعلوم کو بخش دیا تھا، لیکن لگتا تھا کہ وہ اپنے اس فیصلے پر بعد میں بہت مطمئن نہ تھے جس کا سبب شاید یہ تھا کہ اس دارالعلوم میں ان کی کتابوں سے خاطر خواہ استفادہ انھیں ہوتا نظر نہ آیا، بلکہ ان کی دیکھ ریکھ بھی ر سلیقے سے کیے جانے کا انتظام وہاں موجود نہیں تھا۔ قبل ازیں جب تک یہ کتب خانہ ان کے گھر پر ہی رہا تھا اس کی ترتیب اور دیکھ بھال ڈاکٹر صاحب خود کرتے تھے۔
معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے زندگی میں کبھی کسی دن آرام بھی کیا تھا یا نہیں؟ کبھی کوئی دن کچھ کیے بغیر بھی گزارا تھا یا نہیں؟مجھے ایک بار ڈاکٹر صاحب کے ساتھ لاہور تک بذریعہ ریل جانے کا موقع ملا۔ یہ دسمبر 1978ء کا واقعہ ہے۔ میں تو سفر میں بالعموم کچھ کرتا نہیں، چاہے وہ سفر جہاز کا ہو، ریل گاڑی کا یا بس کا۔ زیادہ سے زیادہ پڑھ لیتا ہوں۔ چناں چہ اس سفر میں مَیں تو کھڑکی کے پاس بیٹھا دن بھر باہر دیکھتا رہا اور لطف لیتا رہا، لیکن جیسے ہی ریل کراچی اسٹیشن سے روانہ ہوئی ڈاکٹر صاحب نشست سے اٹھ کر اوپر برتھ پر چلے گئے اور سارا وقت صبح سے شام تک وہاں جھکے ہوئے کچھ لکھتے رہے۔ صرف کھانے کے وقت وہ نیچے اترتے اور پھر اوپر چلے جاتے۔ رات ہونے پر جب روشنی اتنی نہ رہی کہ کچھ لکھا جاسکتا، تو ڈاکٹر صاحب نے لکھنا بند کیا اور سوگئے۔ صبح بتایا کہ اس سفر میں انھوں نے متعدد احباب کو خطوط لکھے، جوابات دیے اور فلاں فلاں کتابوں پر تبصرے لکھ ڈالے۔ ظاہر ہے اس قسم کی تحریروں کے لیے نہ مآخذ ضروری ہوتے ہیں، نہ ان کا لکھنا کسی بہت بڑے منصوبے کا حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس وقت کا ایک نہایت قابلِ رشک مصرف نکال لیا، اور وہ وقت بھی ضائع ہونے نہ دیا۔
وقت کے مصرف کی یہی صورت رہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تمام معمولاتِ زندگی، اخلاقی، معاشرتی اور خاندانی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ، اتنے سارے علمی کام انجام دیے کہ مشکل ہی سے ان کا تفصیلی اور انفرادی تذکرہ کیا جاسکے۔ علم سے نسبت، دل چسپی اور شوق کا یہ عالم کہ ساری زندگی لکھنے پڑھنے میں گزار دی، اور نہ صرف خود اس کام میں لگے رہے بلکہ اپنے احباب و اقربا کو بھی اس راہ پر لگادیا۔ جب کبھی کوئی مناسبت ہوتی تو وہ اپنے ہم خیال اور اپنے ہم ذوق افراد کو بھی موضوعات دے دیتے اور انھیں لکھنے پر آمادہ کرتے۔ ایک زمانے میں جب وہ ’نیشنل کالج‘ سے منسلک تھے تو وہاں کے تعلیمی اور علمی جریدے ’’علم و آگہی‘‘کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ چناں چہ اس مجلے کی ایسی خصوصی اشاعتیں وہ منظرعام پر لائے جن کی نظیر تعلیمی اداروں کے مجلوں میں عام نہیں۔ خصوصاً اس جریدے کی خاص اشاعتوں کو ملک بھر میں بڑی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ ’’تحریکاتِ ملّی‘‘، ’’قائداعظم محمد علی جناح‘‘، ’’مولانا محمد علی جوہر‘‘، ’’تحریکِ پاکستان‘‘ اور ’’تاریخ و تحریکِ پاکستان‘‘ کے عنوانات پر بھی اس جریدے کی خاص اشاعتوں نے اہلِ ذوق کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
ڈاکٹر صاحب معاشرتی روابط اور علمی کاموں میں کسی نظریے، عقیدے اور مسلک کو کبھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ مجھے کبھی کوئی عصبیت یا جانب داری اُن میں نظر نہ آئی۔ چناں چہ اگر وہ اپنے عملی منصوبوں، جائزوں اور مطالعات میں کسی مخصوص میلان یا رجحان پر مُصر یا قائم نظر آتے ہوں تو یہ ان کا حق تھا، لیکن انھوں نے اپنے احباب یا رفقاء سے اپنے ایسے کسی رویّے یا عمل پر کبھی کوئی اصرار نہ کیا، اور نہ ہی دوسروں کے معاملات یا نظریات پر کبھی لب کشا ہوئے۔ بلکہ ایسی باتوں کو کبھی درمیان میں آنے ہی نہ دیتے۔ ذاتی تجربہ ہے کہ میرے، ڈاکٹر ایوب قادری صاحب اور مشفق خواجہ کے خیالات و نظریات سیاسی اور قومی معاملات میں ڈاکٹر صاحب سے مختلف رہے ہیں، اور یہی صورت پروفیسر شفقت رضوی اور ان کے درمیان رہی ہے، لیکن سب کے ساتھ روابط سراسر علمی نوعیت کے رہے، جو رفتہ رفتہ دوستانہ بلکہ برادرانہ نوعیت میں تبدیل ہوگئے، اور زاویۂ نظر کی رنگا رنگی اپنی جگہ ہر ایک میں قائم رہی، اور باہمی روابط پر کبھی کوئی اثر نہ پڑا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی وسعتِ قلبی اور وضع داری کی ایک شان دار مثال ہے۔
ان کا معمول تھا کہ اپنے مذکورہ منصوبوں اور جریدوں میں اپنے تمام قریبی احباب سے اپنی اپنی دل چسپی کے موضوعات پر مقالات لکھوانے کے دوران اور دیگر تصنیفی کاموں میں ایک تحریک پیدا کرنے اور پھر ان کی تکمیل تک خود ان کے ساتھ معاونت کرنے، مواد اور مآخذ فراہم کرنے اور پھر ان کی اشاعت کے لیے تمام تعلقات، ذرائع اور وسائل فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہوجاتے۔ متعدد ایسی تصانیف، جو ان کے احباب اور رفقا نے تحریر کیں، اگر ڈاکٹر صاحب کا تعاون نہ رہتا تو نہ تووہ لکھی جاتیں، نہ منظر عام پر آتیں۔ پروفیسر شفقت رضوی صاحب مرحوم برملا فرماتے تھے کہ ان کے اپنے بیشتر کام ڈاکٹر صاحب کی ترغیب اور تحریک پر ان کا موضوع بنے اور منظر عام پر آئے، ورنہ شاید وہ ان کی طرف آمادہ ہی نہ ہوتے۔ کئی اور احباب کے بارے میں مَیں جانتا ہوں کہ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے قلم اٹھایا اور ان کی فرمائش پر لکھنے لکھانے کی طرف مائل ہوئے اور لکھا۔ خود میں نے کئی مقالات ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر تحریر کیے، ورنہ میں شاید ان موضوعات پر ازخود قلم نہ اٹھاتا۔ نہ معلوم کتنے ہی افراد اور کتنے ہی اہلِ قلم پر ڈاکٹر صاحب کا فیض اسی طرح جاری رہا۔
سیاسی اور قومی معاملات میں نظریے اور مسلک کی اوپر بات ہوئی تھی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب مستقل مزاجی کی ایک منفرد مثال پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کے تصنیفی موضوعات میں سب سے مقبول اور حاوی موضوع ’’مولانا ابوالکلام آزاد‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے بیشتر کام مولانا آزاد کی حیات وخدمات کے مختلف عنوانات پر مشتمل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان موضوعات پر جس جس پہلو سے ممکن تھا، بے حد جستجو، خلوص، مستعدی اور دل جمعی کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی اپنی تصنیفات، تالیفات اور مرتبہ مجموعوں کے علاوہ مولانا آزاد کی تصانیف کے نئے ایڈیشن، متون اور حواشی و تعلیقات کے اضافوں کے ساتھ شامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں مولانا آزاد کے علاوہ دیگر قوم پرست علماء اور اکابر بھی ڈاکٹر صاحب کے محبوب موضوعات میں شامل ہوگئے تھے، اور متعدد کتابیں ڈاکٹر صاحب نے ان پر تصنیف و تالیف کیں یا مرتب کیں۔ ڈاکٹر صاحب نے علمی دل چسپی کے موضوعات میں جس نظریے، نقطۂ نظر اور مسلک کو مناسب سمجھا، اس پر مستقل مزاجی اور دل جمعی سے قائم رہے اور کسی مصلحت، دباؤ یا تنقید کا کوئی اثر قبول نہ کیا۔ اس حوالے سے کہ وہ نظریاتی سطح پر پاکستان میں رہنے کے باوجود ابتدا میں خود کو ’’الہندی‘‘ لکھتے رہے اور قوم پرستانہ خیالات پر قائم رہے، ان پر کئی سمتوں سے کئی قسم کے اعتراضات اور الزامات عائد ہوتے رہے، تنقیدیں کی جاتی رہیں اور انھیں گرم و سرد زمانے بھی سہنے پڑے، لیکن ڈاکٹر صاحب کے پائے استقلال میں کوئی لرزش پیدا نہ ہوئی۔ انھوں نے جس زاویۂ نظر کو روز اوّل اختیار کیا تھا، آخر تک اس پر قائم رہے۔ مولانا آزاد کے علاوہ ان کی محبوب شخصیات میں اکابر دیوبند خصوصاً مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا محمودالحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا مناظر احسن گیلانی شامل ہیں۔ ان مطالعات کے ضمن میں خود اپنے ذاتی منصوبوں اور کاموں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بعض رفقاء کو بھی ان میں سے بعض شخصیات جیسے مولانا آزاد اور مولانا سندھی پر مختلف نوعیت کے کاموں میں لگادیا، اور اس اہتمام سے ان دونوں اکابر پر متعدد کتابوں کی اشاعت کا انتظام کیا کہ جو اداروں کے بس کی بات بھی نہیں تھی۔ خود بھارت میں ان بزرگوں پر اس اہتمام اور تواتر اور خلوص واستقلال کے ساتھ علمی و تصنیفی کام نہیں ہوا، جو ڈاکٹر صاحب نے تنہا یہاں انجام دیا۔ یہ خلوص، مستقل مزاجی اور انتہا درجے کی مستعدی کی ایسی منفرد مثال ہے جو ہمارے نقطۂ نظر سے یہاں قابلِ قبول نہ ہو لیکن کسی اور میں نظر نہیں آتی۔
یہ نہیں کہ اتنے سارے متنوع موضوعات پر اتنی ساری تصنیفات و تالیفات کا اہتمام محض سرسری نوعیت کا ہو، اور اس لحاظ سے غیر معیاری سا بھی ہو، یہاں ایسا نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے تمام موضوعات پر نہایت جستجو، دیانت داری، خلوص اور تندہی سے ممکنہ تمام ضروری مآخذ اور مواد ہر طرف سے یک جا کرکے یہ کام کیے ہیں، اور متعلقہ موضوعات پر قیمتی اور حقیقی معلومات اور وقیع تجزیاتی نتائج کے ساتھ اپنے مطالعات کو پیش کیا ہے۔ معلومات کی فراہمی میں پوری دیانت داری کے ساتھ کوشش کی ہے کہ ان کے اطمینان کی حد تک کوئی سقم، خلا یا تشنگی باقی نہ رہ جائے۔ اس ضمن میں اگر کسی مقام پر کوئی کمی یا خلا محسوس ہو، یا کوئی مصدر یا مآخذ دستیاب نہ ہورہا ہو تو اس کے لیے اپنے تمام متعلقہ احباب سے جو کسی طرح معاون ہوسکتے ہوں، مدد طلب کرنا بھی وہ ضروری سمجھتے اوربلا تکلف رجوع کرتے۔ ایسا تجربہ بارہا خود میرا ہے کہ معلومات کی فراہمی، کسی ماخذ کی جستجو، کسی بات کی تصدیق کے لیے ڈاکٹر صاحب بصد شوق و اضطراب مجھ سے بھی رجوع کرتے رہے، یہاں تک کہ میرے ذاتی ذخیرۂ کتب سے راست استفادے کے لیے غریب خانے کو رونق بھی بخشتے رہے۔ اپنی اسی محنت و جستجو کے باعث ڈاکٹر صاحب کے تصنیفی و تالیفی منصوبے اور کام اپنے موضوع پر قیمتی معلومات اور مواد کا خزینہ ہیں جو تن تنہا ان کی محنت وکاوش کا ثمر ہیں، اور ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیازی کا ان کا اعلانیہ مظہر بھی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی عملی اور علمی زندگی، ہر دو حیثیتوں میں حقیقتاً آج کے ایک صنعتی اور برقیاتی معاشرے کے غیر علمی اور غیر شائستہ ماحول میں ایک ایسی مثال ہمارے سامنے پیش کررہی ہے جو اعلیٰ اخلاقی و معاشرتی اقدار کے حسن، عمدہ اور وقیع علمی روایات کے امتزاج اور محنت و جستجو کے قابلِ رشک معیار سے عبارت ہے۔ ان اوصاف نے اس معاشرے میں ایک ایسے انسان کو جنم دیا تھا، جس کی تعمیر میں انتہا درجے کی سادگی، محنت، دیانت داری، خلوص، محبت، علم دوستی، علم پروری وضع داری، ہمدردی، بے لوثی، بے غرضی اور ایسی ہی اعلیٰ انسانی صفات یک جا نظر آتی ہیں۔ اب ایسے انسان اس دنیا سے معدوم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ لینے والا کوئی نظر نہیں آتا، اور نہ اس کا کوئی امکان ہی نظر آتا ہے۔