”ڈاکٹر صاحب دیکھیں تو، کتنا پیلا لگ رہا ہے۔ روز سورج کی پہلی کرن بھی لگاتے ہیں۔ اب تو دودھ پینا بھی کم کردیا ہے، وزن بھی کم لگتا ہے۔ دیکھیں ناں کتنا کمزور لگ رہا ہے۔ پیشاب بھی بالکل پیلا، زردی کے رنگ کا، اور کم۔ میں تو انڈہ بھی نہیں کھا رہی، اور صرف پتلے شوربے کے ساتھ چپاتی کھاتی ہوں، اماں کے کہنے پر پیلے رنگ کے کپڑے بھی نہیں پہنائے بچے کو۔ اماں کہہ رہی تھیں کوئی ضرورت نہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کی، سب بچوں کو پیلیا ہوتا ہے۔ میں تو اپنی مرضی سے لے کر آگئی ہوں۔“بچے کی ماں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوری داستان سنا دی۔
”اچھا بچے کو کاوچ پر لٹائیں، چیک تو کرنے دیں۔“
میں نے کچھ سوالات کیے، مثلاً ماں کا بلڈ گروپ کیا ہے؟ بچہ کتنے دن کا ہے؟ اور پیدائش پر وزن کتنا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔
بچہ بہت ہی پیلا لگ رہا تھا اور سست بھی۔ میں نے اس کو نرسری میں فوٹو تھراپی کے لیے داخل کردیا، اور ماں کو تسلی دی کہ اِن شا اللہ جلد ٹھیک ہوجائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیلاپن ہے کیا، اور نومولود بچوں میں ہوتا کیوں ہے؟
تقریباً 60 فیصد بچوں میں تھوڑا بہت پیلا پن عام طور پر نظر آتا ہے، مگر پہلے دن نہیں بلکہ دوسرے تیسرے دن سے پانچویں، چھٹے دن تک، ہلکا سا۔
نومولود کے خون کے ذرات کچھ نازک ہوتے ہیں اور پیدائش کے فوراً بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب خون کے یہ سرخ ذرات(RBC) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو ان کے اندر سے ہیم (Heam) اور گلوبن (Globin) نامی دومادوں کا اخراج ہوتا ہے۔ اس ہیم میں سے پیلے رنگ کا مادہ خارج ہوتا ہے جس کو Bilirubin کہا جاتا ہے اور یہ بیلیوروبن ہی بچے کی جلد کو پیلا پن دیتا ہے۔
یعنی پیدائش کے دوسرے دن سے چھٹے دن کے دوران ہلکا سا پیلا پن خون کے سرخ ذرات کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے، اس کو عام پیلا پن یا Physiological Jaundice کہا جاتا ہے، اور اس کے لیے سورج کی روشنی روزانہ دو اوقات یعنی صبح اور شام میں چند منٹ بچے کی جلد پر بغیر کپڑوں کے لگانا ہی کافی ہوتی ہے۔
لیکن بات صرف اتنی سی ہی نہیں، پیلیا کبھی کبھی بہت زیادہ بھی ہوجاتا ہے، اور اس کی وجوہات بھی مختلف ہیں، اس لیے صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ سب بچوں کو ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا کہ پیلا پن زیادہ ہے یا نہیں، اس میں کئی عوامل ہوتے ہیں، یہ فیصلہ بچوں کے ڈاکٹروں ہی کو کرنے دیں کہ کس بچے کو فوراً علاج کی یعنی اسپتال میں داخل کرنے کی اور فوٹو تھراپی کی ضرورت ہے، اور کس کا ٹیسٹ کروا کر انتظار کیا جاسکتا ہے۔ اگر والدین کو صحیح طرح سے گائیڈ کردیا جائے کہ علاج بروقت نہ کروانے کی وجہ سے بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ والدین علاج سے انکار کریں۔ اور ان کو کرنا بھی نہیں چاہیے، بچوں کا ڈاکٹر آپ کے بچے کا وکیل ہوتا ہے۔
بچوں میں اگر پہلے دن ہی پیلیا نظر آنا شروع ہوجائے تو یہ خاصی تشویش کی بات ہے۔ اس لیے پہلے دن بچے کا مکمل چیک اپ بہت ضروری ہے، تاکہ بروقت فوٹو تھراپی شروع کروائی جاسکے اور مستقبل میں بڑی خرابی سے بچا جاسکے، جس کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں۔
اسی طرح پیلیا اگر دوسرے دن کے بعد ہے اور دن بدن بڑھتا جارہا ہے تو اس کی وجہ کا بھی علم ہونا ضروری ہے تاکہ بروقت علاج کیا جاسکے۔
یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو بچوں میں پیلیا کا باعث ہوسکتی ہیں۔
ماں اور بچے کے بلڈ گروپ میں فرق
اگر ماں کا گروپ O positive ہو اور بچے کا A, B, AB تو بچے میں پیلیا کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح اگر ماں نگیٹو بلڈ گروپ کی حامل ہو اور بچہ پازیٹو گروپ کا، تو بھی پیلاپن زیادہ ہونے کے امکانات ہیں۔
مدر فیڈنگ جانڈس
شروع کے دنوں میں ماں کا دودھ کچھ کم ہوتا ہے، اس لیے ماؤں کو سمجھنا چاہیے کہ ایک مرتبہ میں شاید بچے کا پیٹ نہیں بھرتا، اس لیے بچے کو شروع کے دنوں میں جلدی جلدی دودھ پلانا چاہیے، اس طرح مدر فیڈنگ جانڈس کے امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔
مدر ملک جانڈس
ماں کے دودھ میں کچھ نامعلوم مرکبات جو بچوں کے جانڈس کا باعث بنتے ہیں۔ بعض اوقات ماں کے دودھ میں موجود لیکٹوز نامی شکر کے صحیح طرح ہضم نہ ہونے کی وجہ سے بھی جانڈس ہوتا ہے، اور کچھ دنوں کے لیے ماں کے دودھ کی مقدار کم کرکے اور Lactose free دودھ کے استعمال سے پیلے پن کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔
تھائی رائیڈ، ایمیونولوجیکل جانڈس، سرجیکل جانڈس، انفیکشن وغیرہ
کچھ بچوں میں اگر پیلیا دیر سے شروع ہو اور دیر تک رہے، اور عمومی وجوہات جن کا ذکر اوپر ہم کرچکے ہیں وہ نہ ہوں تو پھر آپ دیگر وجوہات تلاش کرتے ہیں، جس میں تھائی رائیڈ گلینڈ کا درست کام نہ کرنا، جسم میں موجود سرخ ذرات کے خلاف اینٹی باڈیز، قدرتی طور پر پتے سے بائیل لانے والی نالی کی غیر موجودگی، جس کی وجہ سے جگر میں پیلیے کو سنبھالنے کی صلاحیت کا نہ ہونا، اس کو سرجیکل جانڈس کہتے ہیں، جس کے لیے سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔بچے میں اگر پیدائش کے ساتھ ہی انفیکشن موجود ہو تو بھی جانڈس نظر آنا شروع ہوجاتا ہے، اور اس کی وجہ جسم کے مختلف نظاموں کا درست کام نہ کرنا ہے۔
اسی طرح پیشاب میں ایک خاص قسم کے انفیکشن کی وجہ سے بھی جانڈس ہوتا ہے۔
جانڈس کی اقسام
دو طرح کا پیلا پن بچوں میں نظر آتا ہے: ان ڈائریکٹ جانڈس یعنی وہ پیلا پن جو جگر میں مرکبات کے ذریعے، کیمیائی عمل کے بعد خون میں شامل ہوتا ہے، اور یہ پیلا پن پانی میں حل ہونے والا ہوتا ہے اور سورج کی روشنی یا فوٹو تھراپی کے ذریعے جو کہ بچوں کی جلد پر لگائی جاتی ہے، کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے جو کہ بچے کی جلد میں انجام پاتا ہے، اور پیشاب یا بچے کے پاخانے کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے،اس لیے جن بچوں کو جانڈس ہو ان کو زیادہ دودھ پلانا چاہیے تاکہ وہ زیادہ پیشاب کریں اور زیادہ پاخانہ… اور اس طرح جلد جانڈس سے ٹھیک ہو جائیں۔
ڈائریکٹ جانڈس
یہ جانڈس کی وہ قسم ہے جو جگر میں کیمیائی مرکبات سے عمل نہیں کرتی اور پانی میں حل بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ زیادہ خطرناک قسم ہے۔ عام طور پر یہ کم کم ہی ہوتی ہے اور پیشاب کے مخصوص انفیکشن کے ساتھ اس کی نسبت ہے۔
جانڈس کا علاج
جانڈس کو عام طور پر شعاعوں کے ذریعے ہی ختم کیا جاتا ہے، لیکن اگر دیر سے چیک کیا جائے یا تمام تر فوٹو تھراپی کے باوجود پیلا پن بہت تیزی سے بڑھ رہا ہو تو ایسے میں بعض اوقات بچے کے خون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جس کو Exchange Transfusion کہتے ہیں۔
جب زیادہ ہوجائے تو علاج کے لیے لازمی طور پر ہسپتال میں داخل کروائیں، کیونکہ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں جانڈس دماغ پر اثر کرکے مستقل دماغی معذوری کا باعث بن سکتا ہے، اور اس معذوری کا کوئی بھی علاج نہیں۔
اہم ترین بات یہ کہ جانڈس کو بچوں میں آسان نہ سمجھیں۔ پیدائش پر بچوں کا لازمی چیک اپ کروائیں، اور پیدائش کے تیسرے چوتھے دن بھی لازمی بچوں کے ڈاکٹر کو دکھائیں، تاکہ جانڈس کو اولین وقت میں ہی چیک کرلیا جائے۔