تہذیبوں کا تصادم

مصنف : شاہنواز فاروقی
صفحات : 216 قیمت 300 روپے
ناشر : اسلامک پبلی کیشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ
فون : 042-35252501-2
موبائل : 0322-4673731
ای میل : islamicpak.com.pk
ویب گاہ : www.islamicpak.com.pk
فیکس : 042-35252503
جناب شاہنواز فاروقی کی اس قیمتی تصنیف کا حرفِ آغاز سید منور حسنؒکے قلمِ معجز رقم سے ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’تہذیبوں کا تصادم پرانے شکاریوں کا نیا جال ہے۔ تہذیب کے معروف معنی اصلاح سے آراستہ کرنا، سلیقہ پیدا کرنا وغیرہ سمجھ میں آتے ہیں۔ توازن اور عدل و انصاف اور احترامِ آدمیت بھی اس اصطلاح کا ایک حصہ ہیں۔ ان معنوں میں اگر بالکل جانب داری کے بغیر جائزہ لیا جائے تو صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو ان تمام باتوں کو اپنی دعوت کا حصہ بناتا ہے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہی ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیب کے نام سے جو کچھ بھی پیش کیا جاتا ہے وہ کسی طرح بھی اس تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ حرص و ہوس، خودغرضی، فریب کاری، وسیع پیمانے پر قتل و غارت جو نسل کُشی کی حدوںکو چھوتی ہے، مادی تہذیب کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ جس طرح بھتہ خور گروہ کمزور لوگوں کے مال اینٹھتا ہے، اسی طرح اس غیر مہذب تہذیب کے پروردہ لوگ کمزور ملکوں کے وسائل پر غنڈہ گردی سے قبضہ کرتے ہیں، اور اربوں افراد کو بھوک، بیماری اور جہالت کے حوالے کرکے اپنے ملکوں کے عوام کو عیش و نشاط فراہم کرتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے ہی معرکۂ خیر و شر برپا ہے، اور اس کو ابد تک رہنا ہے۔ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے کہ: ۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

قرآن میں کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی جو تعریف کی گئی ہے اس سے معاملہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ کلمہ طیبہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر، اور اس کی تمام صفات پر ان کے پورے استحضار کے ساتھ ایمان کا نام ہے، اور اس کی مثال ایک ایسے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں پاتال میں اور شاخیں آسمان تک بلند ہیں۔ سکونِ قلب، صلۂ رحمی، یگانگت، خلوص و محبت، شکر اور صبر، اور بے شمار اس کے میٹھے پھل ہیں۔ عناصرِ فطرت اس شجرِ طیب کے لیے سازگار ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں شجرِ خبیث ایک ایسا درخت ہے جس پر ظلم، تعدی، فریب اور جھوٹ سمیت ہر طرح کی بے انصافی کے کانٹے لگتے ہیں۔ عناصرِ فطرت اس کے لیے سازگار نہیںہیں، مگر شیطان اور اس کی ذریت اس کی کاشت و پرداخت میں لگے رہتے ہیں، مگر اس کی جڑ استوار نہیں، اور شاخیں بلند نہیں، اور بے ثمر ہیں۔ کلمہ طیبہ ازل سے ایک ہے اور ابد تک ایک ہی رہے گا، جب کہ کلمہ ہائے خبیثہ لاتعداد ہیں اور تاریخ کا کوڑے دان، ان سے بھرا پڑا ہے۔
یورپ کی اقوام کا رہن سہن، لباس، عادات و اطوار اور روایات ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ ان کی زبانیں ایک ہی منبع سے پھوٹی ہیں۔ پھر ان کے درمیان عالمی جنگیں کیوں ہوئیں؟ اسی طرح سے خود امریکہ کے اندر جنوب اور شمال کی جنگ کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے! جنوبی اور شمالی امریکہ میں کیا تفریق ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ساری مفادات کی جنگ ہے۔ اس سارے فساد کی جڑ یہودی ہیں، اور ہر شرارت کے ماسٹر مائنڈ وہی ہیں۔ اس تصادم نے اب اسلام کے خلاف جنگ کا روپ دھار لیا ہے، اور اسلام کو مغرب کے پروپیگنڈہ بازوں نے دہشت گردی کا مصداق بنا دیا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں یہ جنگ لڑنی ہے، اور اس میں اللہ کی مدد اور تائید سے کامیابی بھی حاصل کرنی ہے، کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسری صورت ممکن ہی نہیں۔
اس جنگ میں ہر پڑھا لکھا مسلمان حصہ لیتا ہے اور یہ اس کا دینی فریضہ ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کے منصوبے کو اچھی طرح سمجھیں، اور ان کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اس کی حقیقت سے خود بھی آگاہ ہوں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔ بلکہ پروپیگنڈے کے تمام ذرائع کو احقاقِ حق کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جائے۔ شاہنواز فاروقی صاحب ایک صاحب ِذوق اور صاحبِ اسلوب لکھنے والے ہیں۔ انہوں نے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کے عنوان سے بڑی خوبی سے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ا س کا مطالعہ یقینا بہت مفید ہو گا۔
نوجوان محض اس پر اکتفا نہ کریں بلکہ اپنے مطالعے کو وسعت دیں اور مطالعہ قرآن و سنت کی روشنی میںکریں، اور اس مطالعے کو اپنے لیے بھی علمِ نافع بنائیں اور مخلوقِ خدا کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنیں‘‘۔
جناب طارق محمود منیجنگ ڈائریکٹر اسلامک پبلی کیشنز تحریر فرماتے ہیں:۔
’’بیسویں صدی کے آخر میں ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سیموئل پی ہن ٹنگٹن نے تہذیبی تصادم، اور پروفیسر فوکویاما نے ’خاتمۂ تاریخ‘ کا نظریہ پیش کرکے اسلام کی حقانیت کو وقتی، عارضی اور فانی قرار دیا، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آنے والی صدیوں میں مشرق اور مغرب کی تہذیبیں ٹکرائیں گی، گویا کہ اس طرح مادہ پرستی کا بول بالا ہوگا۔ مذکورہ دونوں نظریات پر علمی حلقوں میں شدید بحث ہوئی، کیونکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ یہ ثابت کرچکی ہے کہ مسلمان اپنے اعمال و کردار میں کمزور و کوتاہ تو ہوسکتے ہیں، لیکن ایمان باللہ، حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ذاتی و خاندانی طہارت کا تصور ان سے کبھی بھی جدا نہیں ہوا۔ مغرب کی تہذیب نے مسلم خاندان، مسلم روایات، مسلم معاشرت اور مسلم ثقافت کو نشانہ بنایا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں احیائے اسلام کی تحریکیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جڑ پکڑ رہی ہیں اور نوجوان بہت بڑی تعداد میں ان کا دست بازو بن رہے ہیں۔
آج باطل قوتوں کی سازشوں، دنیا کے بدلتے حالات، دینِ حق پر چہار سو حملوں نے اسلام اور مشرق، مغرب کی تہذیبی کشمکش کے موضوع کو اور بھی اہم بنا دیا ہے۔
اسلامی تحریک بنیادی طور پر اسلامی تہذیب کے احیا کی تحریک ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے لٹریچر میں اس تہذیبی احیا پر خاص طور پر زور دیا ہے۔ ’’تنقیحات‘‘، ’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی‘‘ اور’’ تفہیم القرآن‘‘ میں جا بجا یہی موضوع بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے دلیل کی زبان میں مغربی تہذیب کو باطل ثابت کیا۔ اس سے پہلے علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا تھا۔
شاہنواز فاروقی تحریکِ اسلامی کا اثاثہ ہیں۔ وہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں، اور اس خواب میں تعبیر کا رنگ بھرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ زیرنظر کتاب تہذیبوں کا تصادم ان کے کالموں کا مجموعہ ہے جو جسارت میں شائع ہو کر قبولِ عام حاصل کر چکے ہیں‘‘۔
جناب شاہنواز فاروقی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’گزشتہ دو سال سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی زندگی کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مغرب کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس حوالے سے پوری مسلم دنیا تین گروہوں میں منقسم ہے۔ مسلم دنیا کا ایک گروہ ہے جو مغرب سے متاثر ہی نہیں بلکہ مرعوب ہے، اور وہ مغرب کو ’’حق‘‘ سمجھتے ہوئے اُسے سو فیصد قبول کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کی ’’نجات‘‘ مغرب کی پیروی میں ہے۔ مسلمانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اسلام اور مغرب کا ’’امتزاج‘‘ تیار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہماری تمام ’’کامیابیاں‘‘ اس امتزاج سے نمودار ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کا ایک بہت ہی چھوٹا گروہ وہ ہے جو مغرب کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مغرب باطل ہے، چنانچہ اسے اصول حیات نہیں بنایا جا سکتا۔ بدقسمتی سے مغرب کو سو فیصد قبول کرنے والوں کو بھی معلوم نہیں کہ وہ مغرب کو کن بنیادوں پر سوفیصد قبول کرتے ہیں۔ اتفاق سے اسلام اور مغرب کا ’’امتزاج‘‘ تیار کرنے والے بھی نہیں جانتے کہ وہ کن بنیادوں پر حق و باطل کو آمیز کررہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو لوگ مغرب کو سو فیصد مسترد کرتے ہیں اُن کی اکثریت بھی اپنے استراد کی بنیادوں کا علم نہیں رکھتی۔ ان میں سے کسی کو مغرب سے یہ شکایت ہے کہ وہ عریانی و فحاشی کی علامت ہے۔ کسی کو مغرب کے لباس پر اعتراض ہے۔ کوئی مغرب سے سیاسی طور پر ناراض ہے۔ بلاشبہ یہ چیزیں بھی اہم ہیں، مگر مغرب ان چیزوں سے Define نہیں ہوتا۔ اسلامی تہذیب ہو یا مغربی تہذیب… وہ اپنے تصورِ خدا، تصورِ علم، تصورِ انسان، تصورِ تخلیق، تصورِ نجات،تصورِ کامیابی و ناکامی اور تصورِ اقدار سے Define ہوتی ہیں۔ اس کتاب کی بنیادی اہمیت یہی ہے کہ اس کے صفحات میں تہذیبوں کے تصادم کو وسیع تناظر میں سمجھا اور سمجھایا گیا ہے۔ بعض لوگ لاعلمی یا جہالت کی وجہ سے تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح کو مغربی دانش ور سیموئل ہن ٹنگٹن کی وضع کردہ اصطلاح سمجھتے ہیں، مگر یہ کتاب پڑھ کر آپ کو معلوم ہوگا کہ تہذیبوں کا تصادم امام غزالیؒ کے یہاں بھی موجود تھا، لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کی شاعری میں بھی تہذیبوں کا تصادم برپا تھا، اقبال بھی تہذیبوں کے تصادم کے علَم بردار تھے، اور مولانا مودودیؒ کی تحریریں بھی تہذیبوں کے تصادم سے بھری ہوئی ہیں۔
تہذیبوں کے تصادم کا یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ ہم جب تک تہذیبوں کے تصادم کی معنویت کو نہیں سمجھیں گے اُس وقت تک مسلمان اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب کے احیاء کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے کہ مغرب ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر چھایا ہوا ہے۔ ہمارا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہوا ہے۔ ہمارا معاشی ماڈل مغربی ہے۔ ہمارا عدالتی نظام مغربی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام مغربی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں، خواب اور مثالیے یا Ideals بھی مغرب سے آئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جب تک ہم مغرب کو گہرائی میں سمجھ کر اُس کو مکمل طور پر رد نہیں کریں گے اُس وقت تک ہماری تہذیب کی کامل بازیافت ممکن نہیں ہوسکے گی۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 2008ء میں ادارہ مطبوعات طلبہ کے زیراہتمام شائع ہوا تھا۔ اب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن اسلامک پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہورہا ہے۔ دوسرے ایڈیشن میں صرف ایک مضمون ’’پاکستان پر مغرب کی یلغار اور تہذیبوں کا تصادم‘‘ کا اضافہ کیا جارہا ہے‘‘۔
کتاب میں درج ذیل مضامین شامل کیے گئے ہیں:۔
عقیدہ اور تہذیب، تہذیبوں کا تصادم کلیات کی سطح پر، تہذیب کی اہمیت … ایک تاریخی تناظر، تہذیبوں کے تصادم کا نیا مرحلہ، تہذیبوں کا تصادم اور تہذیب و بدتہذیبی کا معاملہ، تہذیبوں کا تصادم یا مرغوں کی لڑائی، تہذیبوں کا تصادم اور مغربی دنیا کی ٹی بی، تہذیبوں کا تصادم اور حافظے کی کمزوری، تہذیبوں کاتصادم اور سیموئل ہن ٹنگٹن کی شیو، تہذیبوں کا تصادم اور ہم، جنون مذہب اور شعور، سرسید دو قومی نظریہ اور تہذیبوں کا تصادم، تہذیبوں کا تصادم امام غزالیؒ کے دور میں، تہذیبوں کا تصادم… اکبر الٰہ آبادی کی شہادتیں، تہذیبوں کا تصادم اور فکرِ اقبال، تہذیبوں کا تصادم… مولانا مودودیؒ کیا کہتے ہیں؟، تہذیبوں کاتصادم اورمحمد قطب، تہذیبوں کا تصادم اور ریڈیکل اسلام، اسلامی تہذیب اور اہلِ مغرب کا احساسِ کمتری، پردہ… مغرب کا نیا اور رنگین مؤقف، بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کے معجزے، حماس اور الفتح…ایک تقابل، واہ اہلِ مغرب، آخر رخِ لیلیٰ تھا تماشا تو نہیں تھا، Limbo، پاکستان پر مغربی تہذیب کی یلغار اور تہذیبوں کا تصادم
کتاب تحریکِ اسلامی سے متعلق ہر شخص کو پڑھنی چاہیے۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔

گوہرِ مقصود (اردو) شرح مرغوب القلوب (فارسی)

ناظم : حضرت امام السالکین مولانا
شمس الدین محمد تبریزی قدس سرہ العزیز
مترجم و شارح : مولانا حبیب اللہ اویسی حفظہ اللہ
فاضل جامعہ عباسیہ بہاول پور
صفحات : 240 قیمت: 500 روپے
ناشر : جناب مقصود احمد کامران۔ ورلڈ ویو پبلشرز۔ الحمد مارکیٹ، فرسٹ فلور، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور
فون : 042-37236426-0333-3585426
ای میل : worldviewforum786@gmail.com
مولانا حبیب اللہ اویسی صاحب مدظلہ باوجود علالت کے علمی و دینی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ عربی اور فارسی سے ترجمہ اور قابلِ شرح لوازمے کی آسان علمی زبان میں شرح بھی عامۃ الناس کے لیے کردیتے ہیں۔
آپ جامعہ عباسیہ بہاولپور کے فاضل ہیں۔ 1957ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ مولانا شیخ ناظمؒ ندوی، مولانا ادریس کاندھلویؒ، مولانا مفتی احمد یار خان نعیمیؒ، مولانا احمد سعید کاظمیؒ اور مولانا امید علی خان رضویؒ آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ عربی اور فارسی کا خوب ذوق رکھتے ہیں۔ ترجمہ نگاری پر خوب دسترس ہے۔ لیاقت پور، رحیم یار خان سے تعلق ہے۔ اویسی سلسلے سے نسبت رکھتے ہیں۔ حضرت سلطان محمد بالادین اویسیؒ کے دست گرفتہ ہوئے۔ اپنے پیر کی اولاد کے استاد بھی رہے۔ لیاقت پور میں ایک سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر رہے، اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیۂ مبارک پر آپ کا بہت کام ہے۔ آپ نے امام سراج الدین علی بن عثمان اوشیؒ کے قصیدہ بدء الامالی کا ترجمہ اور شرح بھی کی ہے جو گزشتہ برس شائع ہوچکی ہے۔
جناب سید عثمان وجاہت تحریر فرماتے ہیں:۔
’’تمام حمد خالقِ کائنات کو سزاوار کہ جو بے حد اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ صدہزار درود و سلام سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر کہ جنہوں نے انسان کو بامقصد جینا سکھایا۔ گمراہی اور جہالت کی تاریکی کو اپنی سیرت اور تربیت سے دور فرمایا۔ اس انقلاب میں فیضِ صحبت نے وہ کمال کیا کہ انسانیت اپنے عروج اور اوصاف سے آشنا ہوئی۔
بعد میں اور آج بھی صوفیہ کرام نے اسی طریقۂ تربیت کو جناب رسالت مآبؐ کی پیروی میں جاری رکھا۔ آج تاریخ کی کتب بہت سی عظیم ہستیوں کے تذکروں سے روشن ہیں جو اسی طریقۂ تربیت سے فیض یاب ہوئیں۔ ان تمام حضرات نے مذہبی حوالے سے تو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہی ہیں لیکن ان کے وجود، سیرت اور تعلیمات کا سماج پر بھی بہت مثبت اثر رہا۔ اسی وجہ سے ان شخصیات کی حیثیت مذہباً اور مشرباً تو مسلّم تھی ہی، لیکن سماجی حیثیت بھی کچھ کم نہ تھی۔ محبت اس طریقے کی وہ قوت تھی جس نے مختلف مزاج کے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی اور یوں ’’میں‘‘ اور ’’تُو‘‘ کا فرق ختم ہوتا گیا۔
معاشرہ زوال پذیر ہے اور صوفیہ بھی اس معاشرے کا ایک حصہ ہیں۔ بزرگوں کے احوال اور تعلیمات کو محفوظ اسی لیے کیا جاتا ہے کہ معاشرے کی تنزلی میں جب معیار بدلیں تو حق کی اصل صورت کسی طرح باقی رہے۔ آج کا انسان بہت ترقی کے بعد سادہ زندگی کی طرف لوٹنے کو امان قرار دینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اسی طرح طریقۂ تربیت یعنی تصوف میں بھی ضرورت ہے کہ اسلاف کے آثار اور ان کی تربیت سے استفادہ کیا جائے۔ اسی کوشش میں اہلِ علم اور اہلِ محبت صوفیہ کرام کی کتب کے تراجم بھی کرتے ہیں، جہاں ضرورت ہو شرح بھی فرما دیتے ہیں تاکہ آج کا طالب اس کلاسیکی طریقۂ تربیت کو سمجھ سکے، اور یوں اپنی اصلاح کا سامان کرے۔ نظم میں حضرت شمس تبریزیؒ کا یہ کلام طالبانِ حق کی رہنمائی کے لیے خوب ہے۔ چونکہ فارسی زبان میں ہے اور اکثریت اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں، لہٰذا مختلف ادوار میں اس کا ترجمہ اور شرح کی گئی۔
حضرت شیخ شمس الدین کے حالات کے بارے میں مؤرخین کا کام قدرے کم ہے۔ حضرت مولانا جامی نے نفحات الانس میں ذکر کیا ہے، مولانا غلام دستگیر نامی نے آپ کی سوانح لکھی ہے۔ سوانح مولانا روم میں حضرت شبلی نعمانی نے آپ کے بارے میں مختصر لکھا ہے۔ موجودہ دور میں راجا طارق محمود نعمانی صاحب نے آپ کی سوانح بہت محنت سے لکھی ہے۔ یہ تمام کتب حضرت کے احوال اور سوانح پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
’’مرغوب القلوب‘‘ حضرت امام السالکین برہان راہِ طریقت مولانا شیخ شمس الدین محمد تبریزی قدس سرہ العزیز (متوفی 645ھ) کا منظوم کلام ہے۔ یہ منظوم کلام ’’مرغوب القلوب‘‘ اور ’’مثنوی حضرت شمس تبریز‘‘ کے نام سے ہندوستان میں کئی مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔
٭اس منظوم کلام کی ایک اہم طباعت مطبع مجتبائی لکھنؤ سے ہوئی۔ اس کی طباعت اور ترجمے کا اہتمام محمد عبداللہ صدیقی صاحب نے فرمایا تھا، اور سنِ طباعت 1899ء/ 1361ھ تھا۔ یوں اس طباعت کو ہندوستان میں ہونے والی اوّلین طباعت قرار دیا جاسکتا ہے۔
٭ اس کا ایک ترجمہ خواجہ نذیر احمد کشتواری صاحب نے کیا اور اسے اسلامک پروڈکشنز، سری نگر سے 1997ء/ 1418ھ میں شائع کیا گیا۔ محمد اشرف فاضلی نے اس کو مرتب کیا اور لکھا ہے کہ یہ کلام انہیں اپنے اجداد کے کتب خانے سے ہاتھ آیا جو کہ مطبع اسلامی لاہور سے 1901ء میں طبع ہوا تھا۔
٭ تیسری طباعت اللہ والے کی قومی دکان لاہور سے ہوئی تھی، اور وہیں سے طبع شدہ نسخہ مترجم یعنی حبیب اللہ اویسی صاحب کے زیر مطالعہ رہا۔ انہوں نے اس کو زمانۂ طالب علمی میں لاہور سے خریدا تھا۔ فی الوقت ہمیں اس کا سنِ طباعت معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
مطبع مجتبائی اور اللہ والے کی قومی دکان سے شائع ہونے والے نسخوں میں کچھ فرق بھی ہے، مثلاً آخری فصل مطبع مجتبائی میں دربیان سفر ہے، اور لاہور کی طباعت میں دربیان درویش ہے۔ اشعار تقریباً وہی ہیں، کچھ اشعار میں الفاظ کا فرق بھی ہے لیکن موضوع اور مفہوم مختلف نہیں۔ اس منظوم کلام کے مرتب حضرت مولانا جلال الدین رومی ہی ہیں۔ یہ بات سری نگر سے شائع شدہ ترجمے کی ابتدا میں لکھی ہوئی ہے اور درست معلوم ہوتی ہے۔
مرغوب القلوب کی اس شرح کا نام ’’گوہرِ مقصود‘‘ رکھا گیا ہے جو کہ نہایت موزوں اور خوب صورت ہے۔ اس شرح میں شارح نے قرآن مجید کی آیات، احادیثِ رسول اکرمؐ، تابعین اور اولیائے امت کے اقوال تائیداً نقل کیے ہیں۔ خصوصاً حضرت مخدوم جہانیاںؒ کی ملفوظ المخدوم، رسالۂ قشیریہ، کتاب اللمع، مکتوبات امام ربانی وغیرہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ شرح ہذا مرغوب القلوب کی فی زمانہ بہترین شرح قرار دی جاسکتی ہے۔ بے شک یہ تصوف کی حقیقی تعلیم حاصل کرنے میں ایک اہم کتاب ہے۔ قارئین اور اہلِ ذوق اس کو پڑھ کر ضرورت مستفید ہوں گے۔
اس کلام کا مقصد تربیت اور ظاہری و باطنی اصلاح ہے۔ اسی مقصدیت اور جامعیت کے پیش نظر اس کا مختلف ادوار میں ترجمہ کیا گیا اور اشاعت بھی عمل میں آئی۔ مولانا حبیب اللہ اویسی کے پیش نظر بھی یہی مقصد ہے کہ اس سے پڑھنے والوں کو فائدہ پہنچے‘‘۔
کتاب جن مضامین پر مشتمل ہے وہ درج ذیل ہیں:۔
دیباچہ از حضرت ناظمؒ
فصل اول: شریعت، طریقت، حقیقت و معرفت
فصل دوم: توبہ کے بیان میں
فصل سوم: بیان روح و نفس اور دل کا
فصل چہارم: وضو کے بیان میں
فصل پنجم: توکل کے بیان میں
فصل ششم: یقین کے بیان میں
فصل ہفتم: معرفت کے بیان میں
فصل ہشتم: عشق کے بیان میں
فصل نہم: فنا کے بیان میں
فصل دہم: درویش کے بیان میں
خاتمہ
کتاب سفید کاغذ پرخوبصورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔ کتاب پبلشر کے علاوہ مکتبہ غوثیہ پرانی سبزی منڈی کراچی اور رنگِ ادب اردو بازار کراچی، اور مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد سے بھی دستیاب ہے۔