وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کب کہا تھا کہ پاکستان کا نظامِ سیاست شریعت کے مطابق ہوگا، وہ مانکی شریف چلے جائیں جہاں قائداعظم علماء و مشائخ کے اجتماع میں وضاحت فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں کون سا نظامِ حکومت ہوگا۔ قائداعظم ایک جمہوری ذہن کے آدمی تھے۔ ان کا جواب ہمیشہ یہ ہوتا تھا چاہے مغرب کا کوئی صحافی پوچھے یا برصغیر کا کوئی باشندہ کہ ”میں کون ہوتا ہوں یہ بتانے والا؟ اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے، اور یہ کہ جیسا میں ان کے مزاج کو جانتا ہوں یہ آئین پارلیمانی اور جمہوری ہوگا“۔ تاہم ان سے جب یہ سوال پوچھا جاتا اور اس کا حوالہ اسلام ہوتا تو وہ صاف کہتے ”پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہوگی۔ اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ نظام اسلامی شریعت سے ہٹ کر ہو، ہمیں اس بارے میں کسی تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے“۔ چنانچہ یہاں بھی انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کا نظام شریعتِ اسلامیہ کے عین مطابق ہوگا۔ جب علماء نے تحریری یقین دہانی چاہی تو قائداعظم نے پیر صاحب مانکی شریف کو ایک خط کے ذریعے اپنے اس یقینِ محکم سے آگاہ کیا۔ آپ اسے یقینِ محکم کہہ لیں یا ایمان کہہ لیں۔ قائداعظم یہی سمجھتے تھے۔ مانکی شریف میں قائد کی اس گفتگو اور اس خط کے حوالے سے اگر میں یہ کہوں کہ دو شخصیتوں کے ساتھ ساتھ آنے کا مطلب کیا ہے؟ تو سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ جی ہاں اب تو کوئی کنفیوژن نہیں رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں بعض اعتزاز احسن (ویسے وہ ایک بھلے آدمی ہیں۔ ان کا ذکر اس لیے آ گیا کہ اس فیصلے پر میری پبلک بحث انہی سے ہوتی رہی ہے)یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر تھے۔ اچھا یہ بات ہے، تو بھائی قائداعظم تو انگریزی جانتے تھے ناں۔ یہ جو آج کل کہا جاتا ہے کہ فلاں دستاویز کا اردو میں ترجمہ ہوجائے تو ان لوگوں کو سمجھ آئے گا، تو قائداعظم کے بارے میں تو کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا ناں۔ وہ سیاسیات کے علم سے بھی باخبر تھے اور انہوں نے تمام نظام ہائے حیات کا مطالعہ بھی کررکھا تھا۔ وہ سیکولرازم کے لفظ سے تو واقف ہوں گے؟ کیا خیال ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کبھی سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ عجیب سیکولر تھے کہ ہمیشہ اس لفظ سے اجتناب کرتے رہے۔
(سجاد میر۔ روزنامہ92۔ یکم فروری2021ء)
حافظ سلمان بٹ خوبرو، پُرجوش اور بہادر انسان
حافظ سلمان بٹ کے حوالے سے میرے ذہن میں بہت سی خوبصورت یادیں محفوظ ہیں۔ حافظ سلمان بٹ کے والد خواجہ طفیل والدِ گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے قریبی دوستوں میں شامل تھے اور ہفتے میں دو تین مرتبہ والد صاحب سے ملنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ والد گرامی بھی اُن کو جلسوں میں کئی مرتبہ اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ والد گرامی سے ان کی غیر معمولی وابستگی تھی۔ جب وہ آپس میں ملتے تو یوں محسوس ہوتا گویا کہ چچا اور بھتیجا آپس میں ملاقات کررہے ہیں۔ 1985ء میں حافظ سلمان بٹ انتخابی مہم کے دوران ہمارے گھر میں والد گرامی سے ملنے کے لیے تشریف لائے، یہ میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد وہ گاہے گاہے تشریف لاتے رہے اور والد گرامی کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ بھی پیار اور شفقت والا رویہ اپناتے رہے۔ حافظ سلمان بٹ خوبرو، پُرجوش اور بہادر انسان تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ سیرت سے بھی نوازا تھا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے اور بعدازاں بھی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے۔ حافظ سلمان بٹ کئی انتخابات میں فتح یاب ہوئے اور کئی دفعہ فتح سے ہمکنار نہ ہوسکے، لیکن انہوں نے پُرجوش اور پُرعزم انداز میں اپنے سیاسی سفر کو جاری وساری رکھا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد حافظ سلمان بٹ لاہور کے ایک ضمنی انتخابی معرکے میں اُمیدوار تھے۔ اس حوالے سے وہ مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ تشریف لائے۔ مرکز میں محترم چچا عابد الٰہی اور میں نے ان کا استقبال کیا۔ حافظ سلمان بٹ شوگر کی وجہ سے ان ایام میں کمزور ہوچکے تھے اور ان کی بینائی بھی متاثر ہوچکی تھی۔ ان کی صحت میں کمزوری کی وجہ سے محترم چچا عابدالٰہی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حافظ سلمان بٹ تادیر مرکز قرآن وسنہ میں بیٹھے رہے اور مختلف دلچسپی کے اُمور پر ان کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ ماضی کی بہت سی خوب صورت یادوں کو بھی تازہ کیا گیا۔
حافظ سلمان بٹ کے ساتھ مجھے مختلف ٹیلی وژن پروگراموں میں بھی شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ان پروگراموں کے دوران بھی میں نے حافظ سلمان بٹ کو دین اور وطن سے محبت کرنے والا پایا۔ وہ ہمہ وقت دین کی حمایت میں سربکف رہا کرتے تھے اور اس حوالے سے کسی قسم کی لچک اور سمجھوتے پر آمادہ و تیار نہ ہوتے تھے۔ انہوں نے بھرپور سیاسی، سماجی اور جماعتی زندگی گزاری اور ان تمام شعبوں میں انہوں نے ہمیشہ دین ہی کو مقدم رکھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں خطابت کی بے مثال صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ جب تقریر کرتے تو نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا ہوجاتا اور نوجوان ان کے جذبات کو اپنے دل اور روح کی گہرائیوں میں اترتا ہوا محسوس کرتے اور ایسے لگتا کہ حافظ صاحب ان کے دلی جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ انہوں نے دورِ نوجوانی میں دینی حوالے سے چلنے والی تمام تحریکوں میں بحیثیت کارکن والہانہ کردار ادا کیا۔ تحریک ختم نبوتﷺ اور تحریک نظام مصطفیٰﷺ کے متحرک کارکن کی حیثیت سے وہ برسرِپیکار رہے اور اپنے نظریات کو بلند آواز سے بیان کرتے رہے۔ حافظ سلمان بٹ صاحب کی شخصیت میں منافقت اور مصلحت پسندی نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ لوگ انہیں نظریاتی اعتبار سے ہمیشہ یکسو اور یکطرفہ پایا کرتے تھے۔
(علامہ ابتسام الہٰی ظہیر۔،روزنامہ دنیا ۔یکم فروری2021ء)