لفظ اور معنی کی تکرار کا عیب

اردو کی شکل بگاڑنے کا مذموم عمل تیز تر ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں ٹیلی وژن کے درجنوں اردو چینل اور سوشل میڈیا کے گھنائونے کردار کو زیر بحث لانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ ان کے سدھار کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ صاحبِ نظر اور سنجیدہ فکر لوگوں کو تشویش لاحق ہے کہ اخبارات میں برتی جانے والی اردو کا معیار نہایت پست ہوچکا ہے، حتیٰ کہ ادارتی صفحوں پر شائع ہونے والے مضامین بھی املا اور قواعد کی غلطیوں سے پُر ہوتے ہیں۔ اردو کے فروغ میں علمی اور ادبی رسائل و جرائد کا کردار بھرپور اور توانا رہا ہے، مگر بدقسمتی سے آج کل اکثر رسائل میں اردو غلط لکھی جاتی ہے جس سے اس کا چہرہ مسخ ہورہا ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے اردو کے نام پر شہر شہر اور نگر نگر تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ اردو کانفرنسیں، ثقافتی اجتماع اور بڑے بڑے کتاب میلے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں بظاہر اردو کا نام نمایاں ہے، لیکن افسوس! اردو کے اصل مسئلوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ لسانی بگاڑ عفریت کی صورت اختیار کررہا ہے اور اس کے مداوے کی کوئی بات نہیں کرتا۔ لوگ خدا جانے کہاں کہاں سے کیسی کیسی ترکیبیں، روزمرہ اور محاورے اٹھا کر لارہے ہیں۔ غلط تلفظ، غلط محاورے اور نئی نئی اختراعاتِ بد رواج پذیر ہورہی ہیں جن میں ایک، لفظ و معنی کی غلط اور بے جا تکرار کا عیب ہے جو ذوق سلیم رکھنے والوں پر گراں گزرتا ہے۔ یہ عمل عبارت اور گفتگو کے حسن کو گہنا دیتا ہے۔ لفظی تکرار معنوی تکرار کا باعث بنتی ہے، یہ جہاں سماعت کو بھلی نہیں لگتی وہاں بصری طور پر بھی ناگوار گزرتی ہے۔
تکرار کے غلط اور بے جا استعمال سے قطع نظر، نظم و نثر میں اس کو برتنے کے متعدد اچھے اور مفید پہلو بھی ہیں۔ مدعا واضح کرنے، بات نکھارنے، پیرایہ بیان دل کش بنانے، کسی مسئلے کی اہمیت اور تاکید کے لیے تکرار اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن مجید میں انبیا کے واقعات کی تکرار ہر مرتبہ نیا اور دل کش اسلوب سامنے لاتی ہے۔ (1)قرآنی الفاظ کی تکرار سے جہانِ معانی عیاں ہوتے ہیں، (2)آیاتِ مقدسہ کی تکرار سے حکمتوں کے چشمے پھوٹتے ہیں، (3) اردو نظم و نثر میں بھی فعل کی تکرار سے کئی معانی پیدا ہوتے ہیں جیسے:
-1 وقت کی قلت ظاہر کرنے کے لیے کہتے ہیں ’’ہمارے دیکھتے دیکھتے زمانہ بدل گیا‘‘۔
-2 فعل کا جاری رہنا جیسے ’’میں تو اسے سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا‘‘۔
-3 وقت کی درازی کے لیے جیسے:۔

نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دے
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

-4 فعل کا وقوع کے قریب پہنچ کر رک جانا جیسے: ’’یہ بات میری زبان تک آتے آتے رہ گئی‘‘ اور ’’کام بنتے بنتے بگڑ گیا‘‘ وغیرہ
اردو نثر میں لفظی تکرار کی ایسی مثالیں ہمیں جابجا نظر آتی ہیں جیسے: ’’مجھے لمحے لمحے کی خبر ہے‘‘۔ ’’میں نہر کے ساتھ ساتھ چلتا گیا‘‘۔ ’’یہ قریب قریب دو ماہ پہلے کی بات ہے‘‘ اور ’’میں لفظ لفظ کی صحت کا خیال رکھتا ہوں‘‘ وغیرہ۔
تکرار کے غلط استعمال میں عام طور پر ایک ہی جملے میں کسی بات کو لفظاً اور معناً دہرادیا جاتا ہے اور یہ مضحک صورتِ حال توجہ کے فقدان کا ثبوت بن جاتی ہے۔ آئے دن ایسی سیکڑوں مثالیں ہمارے مشاہدے میں آتی رہتی ہیں۔ ممبئی (انڈیا) کے رہنے والے ہمارے محترم دوست ندیم صدیقی، جو نامی ادیب، شاعر، صحافی اور لسان شناس ہیں، الفاظ کے بے جا استعمال اور ناپسندیدہ تکرار کی بابت لکھتے ہیں:۔
’’ہمارے استاد کہتے تھے کہ میاں! لفظ بھی سکّے کی مانند ہوتے ہیں۔ کیا آپ ایسا کرتے ہیں کہ جہاں پانچ روپے کے سکّے کی ادائیگی کی ضرورت ہو وہاں آپ پانچ کے دو تین سکّے دے دیتے ہوں؟ میاں! یاد رکھیے کہ کسی بھی چیز کا ’’اسراف‘‘ اس چیز کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی ہے۔ اگر آپ لفظوں کے اسراف کے عادی ہوگئے تو عجب نہیں کہ ایک دن آپ کے لفظوں سے معنیٰ ہی کم ہوجائیں۔ اچھی تحریر کے لیے اساتذہ نے کہا ہے کہ لفظ کم ہوں اور معنیٰ زیادہ۔ اسی کو بلاغت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض قلم کار لفظوں کے تھوک بیوپاری نظر آتے ہیں۔ ذرا غور و فکر کے ترازو میں ان کی تحریر تولیے تو کلو بھر لفظوں میں دس گرام معنیٰ برآمد ہوتے ہیں… یہ بھی اسراف ہی کی ایک شکل ہے‘‘۔
تحریر و تقریر انسانی شخصیت کا ثقافتی تلازمہ ہے۔ اہلِ ذوق اس امر کا اہتمام کرتے ہیں کہ زبان و بیان مسلمہ اصول و معیارات سے ہم آہنگ رہے۔ اس طرح کی مختلف النوع لغزشیں اور فروگزاشتیں اگر تحریر و تقریر میں در آئیں تو زبان کی نزاکتوں کو سمجھنے والوں کی طبیعت تکدر اور بیزاری کا شکار ہوتی ہے۔ ماضی میں شاعر و ادیب، اساتذہ اور صحافی حضرات ہی زبان و بیان کے معیار و وقار کا سبب بنتے تھے، لیکن فی زمانہ ان میں اکثر حضرات اس کی پروا نہیں کررہے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ محتاط روی کی تلقین کرنے والے ادیب، شاعر اور صحافی پھسل گئے تو ایک امت پھسل جائے گی، کیوں کہ علم و ادب کے معاملات میں لوگ ان ہی کی پیروی کرتے ہیں۔
( ماہنامہ اخبار اردو، اسلام آباد۔ دسمبر 2020ء)

بیادِ مجلس اقبال

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔