دعا: آداب، اہمیت اور فضیلت

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:۔’’تم میں کوئی بھی اس طرح دعا نہ مانگے کہ اے پروردگار! اگر تیری مرضی ہو تو مجھے بخش دے، اگر تیرا ارادہ ہو تو مجھ پر رحم فرما، بلکہ طلب و سوال کے معاملے میں یقین کی استواریاں ہونی چاہئیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں‘‘(متفق علیہ)۔
قرآن حکیم میں ہے:۔
’’اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو کہہ دو کہ میں تو تمہارے پاس ہوں، جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں‘‘ (البقرہ: 186)۔
’’اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘
(اعراف: 55)
’’تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمٰن کے نام سے، جس نام سے پکارو، اس کے سب نام اچھے ہیں‘‘
(بنی اسرائیل: 110)
احادیث میں دعا کو کس نظر سے دیکھا گیا ہے اور اس کی کیا اہمیت بیان کی گئی ہے، اس کو ذیل کی روایات کی روشنی میں دیکھیے:۔
’’دعا ہی تو اصل میں عبادت ہے۔‘‘ (اصحاب السنن)۔
’’دعا عبادت کا مغزو حاصل ہے۔‘‘ (ترمذی)۔
’’اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔‘‘ (ترمذی)۔
’’دعا سے تین چیزوں میں سے کوئی نہ کوئی تو بہرحال حاصل ہوکر رہتی ہے، یعنی یا تو کسی گناہ پر خطِ عفو کھینچ دیا جاتا ہے، یا خیر و برکت کے کسی کام میں تعجیل ہوجاتی ہے، اور یا پھر خیر کو دوسرے کسی وقت کے لیے اٹھا رکھا جاتا ہے جو اس کے لیے زیادہ موزوں اور مناسب ہے۔‘‘ (فردوس)۔
قبولیتِ دعا کے اوقات و احوال: دعا کب اور کن احوال میں زیادہ قبولیت کے امکانات رکھتی ہے، اس کو جاننے کے لیے اس کی ضروری شرائط کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے جو متعدد ہیں: پہلی شرط مثلاً یہ ہے کہ اس کے لیے مخصوص ایام اور ساعتوں کو منتخب کیا جائے، یعنی سال میں ایک عرفہ کا دن، مہینوں میں رمضان، دنوں کے اعتبار سے جمعہ، اور شب و روز گزرنے والی گھڑیوں میں ہنگام سحر۔
یہ سب قبولیت و اجابت کے اوقات ہیں۔ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے:’’جب رات کا آخری ثلث باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے، اور پکار ہوتی ہے کہ کون دعا مانگتا ہے، کہ میں اس کی دعا کو قبول کروں، اور کون مجھ سے طلب کرتا ہے کہ میں اسے دوں، اور کون بخشش چاہنے والا ہے کہ میں اس کے گناہ بخش دوں‘‘۔
اوقات کی مناسبتوں کے پہلو بہ پہلو، احوال کی رعایت بھی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے:۔
’’جب اللہ کی راہ میں مجاہدین میں جنبش پیدا ہوتی ہے، جب بارانِ رحمت کا نزول ہوتا ہے اور جب پانچوں نمازوں کی اقامت کہی جاتی ہے، اُس وقت آسمان کے دروازوں کو قبولیت کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ اس لیے ان اوقات میں دعا کو منعتنم جانو‘‘۔
جناب مجاہد کا قول ہے:’’نمازوں کی تعیین بہترین اوقات میں ہوئی ہے، اس لیے دعا مانگنا ہو تو نماز کے بعد مانگو‘‘۔
اور غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اوقات و ساعات کو جو قبولیت کا شرف بخشا گیا ہے تو احوال ہی کی بنا ہے، مثال کے طور پر یوم عرفہ اور جمعہ کو لیجیے۔ ان دنوں جس قدر اربابِ ہمم کا اجتماع ہوتا ہے اور جس قدر اذہان و قلوب میں تعاون و ہمدردی کے داعیات ابھرتے ہیں، دوسرے دنوں میں کہاں میسر ہیں؟ اسی طرح ہنگامِ صبح گاہی دل کے اخلاص و فراغ کے لیے جس درجہ موزوں اور مناسب ہے، دوسرا کوئی وقت اس کا کہاں مقابلہ کرسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ان ساعتوں میں خصوصیت سے انسان اللہ کی رحمتوں کو حاصل کرنے میں نسبتاً زیادہ کامیاب رہتا ہے۔
سجدہ بھی ایسی حالت ہے کہ اس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ حدیث میں ہے: ’’سجدے کی صورت میں انسان اللہ کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اس لیے اس میں کثرت سے دعائیں مانگا کرو۔‘‘ (مسلم)۔
ایک اور روایت میں ہے: ’’مجھے رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے روک دیا گیا ہے، اس لیے رکوع میں تم پروردگارِ عالم کی عظمت بیان کرو۔ اور سجدے میں سعی اور کوشش سے دعا مانگو، کیوں کہ اس میں قبولیت و اجابت کے اچھے خاصے مواقع ہیں‘‘۔
دوسری شرط یہ ہے کہ انسان جب دعا مانگے تو قبلہ رو ہوکر اور دونوں ہاتھ اس طرح اٹھا کر مانگے کہ آغوش کی سپیدی نظر آنے لگے۔ جابر بن عبداللہ نے اس کی توجیہ میں یہ حدیث بیان کی ہے:۔
’’آنحضرتؐ نے فرمایا کہ تمہارا پروردگار حیا و کرم سے متصف ہے، لہٰذا نہیں چاہتا ہے اس کے بندے ہاتھ اٹھا کر اس سے کچھ طلب کریں اور وہ انہیں خالی لوٹا دے۔‘‘ (ابودائود، ترمذی)۔
تیسری شرط یا ادب یہ ہے کہ آواز جہر و خفا کے بین بین ہو، یعنی نہ تو اس درجہ آہستہ اور مدہم ہو کہ خود دعا مانگنے والا بھی نہ سن سکے، اور نہ اس قدر اونچے انداز میں ہو کہ خشوع و خضوع کے منافی ہو۔ ابو موسیٰ اشعری کا کہنا ہے کہ: ہم لوگ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے نعرئۂ تکبیر بلند کیا اور تحمید و شکر کے کلمات کو بلند آواز سے دہرایا، اس پر آنحضرتؐ نے ان لوگوں سے کہا:۔
’’لوگو! تم جس ذات کو پکار رہے ہو وہ نہ تو بہرہ ہی ہے اور نہ کہیں غائب ہی ہے، بلکہ وہ تمہارے عین درمیان میں موجود ہے۔‘‘ (متفق علیہ)۔
قرآن میں ہے: ’’اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ، بلکہ اس کے بیچ کا مؤقف اختیار کرو‘‘ (بنی اسرائیل: 110)۔
’’اور اپنے رب سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔‘‘ (الاعراف: 55)۔
مقفع و مسجع کے بجائے دعا سادہ الفاظ میں مانگو: بعض لوگ دعا میں سجع پیدا کرنے کے لیے تکلف و تصنع سے کام لیتے ہیں۔ یہ چونکہ تضرع و اخلاص کے منافی ہے، اس لیے یہ ممنوع ہے۔ دعائیں حتی الامکان سادہ الفاظ میں ہونی چاہئیں۔