سمجھوتوں کا نظام کرپشن کو طاقت فراہم کررہا ہے
کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست ایک عالمی مسئلہ ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنی تمام تر ٹھوس پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی بنیاد پر ترقی اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کا اپنا داخلی نظام شفافیت پر مبنی ہو۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن سے متعلق سی پی آئی انڈیکس رپورٹ جو2020ء کی بنیاد پر جاری ہوئی ہے، کوئی انہونی رپورٹ نہیں ہے۔ یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کرپشن سے نمٹنے میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہے، اور کرپشن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 180ممالک کی بنیاد پر ہونے والی اس درجہ بندی میں پاکستان 31 پوائنٹ کی بنیاد پر 124 نمبر پر کھڑا ہے، جبکہ اس سے قبل 2019ء میں 120ویں نمبر پر تھا۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست کی بنیاد احتساب، اور کرپشن کی سیاست کا خاتمہ تھا، اور ان کے بقول وہی کرپشن کو ختم کرنے کی عملی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن جو اعداد و شمار اس بین الاقوامی رپورٹ سے ظاہر ہوتے ہیں وہ عمران خان حکومت کے دعووں کے برعکس نظر آتے ہیں۔ یہ رپورٹ موجودہ حکومتی مؤقف کے برعکس اور اس کے لیے بڑا سیاسی دھچکہ ہے۔ اس رپورٹ کو اگر بنیاد بنایا جائے تو یہ بھی درست ہوگا کہ پاکستان سمیت دنیا کے وہ ممالک جو کرپشن کی سیاست کا شکار ہیں ان کا مسئلہ اپنے معاشروں میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی، عدم شفافیت، عدم احتساب یا نگرانی کا کمزور اور سمجھوتوں کی بنیاد پر موجود نظام ہے۔ یہ نظام کرپشن کے خاتمے کے بجائے اسے عملاً طاقت فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان میں جب بھی کرپشن کے خاتمے کی بات کی جائے تو دو امور سامنے آتے ہیں:۔
(1) کرپشن کو ایک بڑا قومی مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے آج کی دنیا میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ سمجھ کر قبول کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس طبقے کے بقول کرپشن کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں بلکہ اسے بلاوجہ بڑا بناکر پیش جاتا ہے۔ (2) جب بھی کرپٹ لوگوں یا کرپشن کے خاتمے کی بات کی جائے تو اہلِ سیاست سمیت اہلِ دانش کا بھی ایک بڑا طبقہ سیاست، جمہوریت اور سول حکمرانی کو بنیاد بناکر اسے اس نظام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی سیاسی تاویلیں پیش کرتا ہے، یا اسے محض سیاسی انتقام کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔
مسئلہ محض سیاست یا سیاست دانوں کا نہیں، بلکہ معاشرے کا مجموعی مزاج یا طاقت کے حامل سب فریقین کرپشن پر مبنی سیاست پر ہمیشہ سے مصلحتوں کے تحت سیاسی سمجھوتوں کا شکار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میںجمہوری اور فوجی حکمرانوں کی موجودگی کے باوجود ہم کرپشن کے خاتمے میں کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھاسکے۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ طاقت کے مراکز نے کرپشن اورکرپٹ لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بجائے ان سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی سمجھوتے کرکے ان مجرموں کو تحفظ دیا۔ہم نے کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی انتظامی اور قانونی ادارے بنائے بدقسمتی سے ان کو کمزور کرکے اپنے ہی سیاسی اورمعاشی مفادات کو تحفظ دیا۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں کرپٹ لوگوں کے خلاف قانون کی حکمرانی کا نظام کمزور ہے، اورکرپٹ لوگ آج ملک میں فیصلہ سازی سے جڑے نظام کا حصہ بن کر کرپشن پر مبنی سیاست کو مزید بڑھاوا دینے کے کھیل کا حصہ ہیں۔
کرپشن بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہمارے ریاستی، انتظامی اور قانونی اداروں میں بے جا سیاسی مداخلت ہے۔طاقت ور طبقہ سمجھتا ہے کہ اداروں کی کمزوری ہی ان کے سیاسی مفاد میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ نہیں دی اور اس کھیل کو مصنوعی انداز سے چلایا۔مسئلہ محض اوپر کی سطح پر کرپشن کا ہی نہیں، بلکہ نچلی سطح پر بھی روزمرہ کے معاملات کو دیکھیں تو ہمیں عام آدمی سے جڑے اداروں کی سطح پر بھی کرپشن جیسے مرض کا سامنا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں کرپٹ لوگوں کو نہ صرف تحفظ دیا جاتا ہے بلکہ ان کو سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔کیونکہ یہ کرپٹ لوگ چاہے ان کا براہِ راست تعلق سیاست سے ہویا نہ ہو، یہ سیاسی جماعتوں اوران کی قیادت کے لیے پیسہ بنانے کی مشینیں ہیں۔یہی کرپٹ لوگ سیاسی جماعتوں اوران کی قیادت پر عملاً سرمایہ کاری کرکے سیاسی نظام پر غلبہ حاصل کرکے فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ کرپشن کا خاتمہ کوئی معمولی کام نہیں، اورنہ ہی یہ کام محض جذباتی تقریروں اور سیاسی نعروں کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ کام عملی طور پر ملک کے سیاسی، انتظامی، قانونی اورمعاشی نظام میں بڑی اصلاحات بلکہ کڑوی اصلاحات چاہتا ہے۔ان اصلاحات کا ہونا اس لیے بھی آسان نہیں کیونکہ طاقت ور افراد جو اس نظام کے ہر شعبے میں موجود ہیں، خود اصلاحات کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ لوگ جہاں مختلف شعبوں میں موجود ہیں وہیں خود عمران خان کی اپنی جماعت میں بھی ہیں جو شفافیت پر مبنی اصلاحات میں رکاوٹ ہیں اور ایسی کڑوی اصلاحات کو اپنے لیے شدید خطرہ سمجھتے ہیں۔اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں اس بیانیے کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں کہ ان میں کرپٹ لوگ موجود ہیں یا و ہ ان کو سیاسی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں سیاست، قانون اور جمہوریت سے جڑے اہلِ دانش یا تھنک ٹینک بھی کرپٹ لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے بجائے شعوری یا لاشعوی طور پر ان کو دانشورانہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ میڈیا کی سطح پر بھی یہی کرپٹ لوگ سیاسی اور جمہوری حقوق کے چیمپین کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس ملک میں امیری اور غریبی کی بنیاد پر نہ صرف تقسیم بلکہ مختلف نوعیت کی جو ناہمواریاں بڑھ رہی ہیں اس کی جہاں دیگر وجوہات ہیں، وہیں ایک بڑی وجہ کرپشن پر مبنی سیاست بھی ہے۔ کیونکہ اس کرپٹ سیاست کا براہِ راست نشانہ عام لوگ بنتے ہیں، جن کو اپنے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہوپاتے، نتیجتاً ان میں نفرت اور غصہ بڑھ رہا ہے جو سیاست اور ریاست سے ان کے تعلق کو کمزور کررہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ طاقت کے مراکز میں موجود گروہ چاہے وہ کسی بھی طبقے سے ہو، بنیادی طور پر نئی نسل کو یہی پیغام دے رہا ہے کہ اصل مقصد اختیارات کے حصول کے بعد زیادہ سے زیادہ جائز و ناجائز پیسہ بنانا ہوتا ہے۔ اس لیے نئے لوگوں کو جب اختیار حاصل ہوتا ہے تو وہ بھی اسی کرپشن پر مبنی سیاست کے کھیل کا حصہ بن جاتی ہیں، یا ان کو مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ اس کھیل سے جڑے رہیں وگرنہ دوسری صورت میں ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔شفافیت کا نظام بنیادی طور پر ادارہ سازی سے جڑا ہوتا ہے، اور جمہوریت کی بنیادی شرط ہی اداروں کو بنیاد بناکر اصلاحات کی طرف توجہ دینا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اہلِ سیاست اصلاحات کو محض اپنے ذاتی مفادات تک رکھ کر آگے بڑھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ احتساب، نگرانی، شفافیت، جوابدہی، ادارہ سازی،شعور کو اجاگر کرنا جیسے لفظ ہماری سیاسی ڈکشنری میں موجود تو ہیں مگر یہ ہماری قومی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔