پاک دل و پاک باز اور باکردار حافظ سلمان بٹ کی رحلت

اسلامی تحریک سے ان کی غیر متزلزل وابستگی مثالی تھی

جرأت و بہادری کی علامت، نڈر، بے باک و دلیر مگر پاک دل و پاک باز اور باکردار انسان، خوبصورت، خوب سیرت، بے نظیر شعلہ بیانی کی تصویر اور انسانی ہمدردی کی طویل داستان، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما، زندہ دلان لاہور کی پہچان حافظ سلمان نے جمعرات 28 جنوری 2021ء کی شب لاہور کے ایک ہسپتال میں داعیِ اجل کو لبیک کہا، اگلے روز جمعۃ المبارک کا دن تھا، نماز جمعہ کے بعد منصورہ میں نماز جنازہ کی ادائیگی کا اعلان کیا گیا۔ مجھے منصورہ کے قیام سے اب تک وہاں نہ جانے کتنے جنازوں اور دیگر اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ حافظ سلمان بٹ کا جنازہ وہ پہلا موقع تھا جب مجھے منصورہ کی تنگ دامانی کا احساس شدت سے ہوا۔ دور و نزدیک سے پیر و جواں کشاں کشاں جنازے میں شرکت کے لیے کھنچے چلے آئے تھے، منصورہ کے سامنے ملتان روڈ پر دور دور تک گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ نماز جمعہ کا وقت ہوا تو وسیع جامع مسجد کا صحن تو کجا، سڑکوں پر بھی لوگوں کو سربسجود ہونے کی جگہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا۔ نماز جنازہ جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما حافظ محمد ادریس نے پڑھائی۔ اُن سے قبل امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، نائب امیر لیاقت بلوچ، مرکزی قیم امیرالعظیم، صوبائی امیر محمد جاوید قصوری اور ضلعی امیر ذکر اللہ مجاہد نے اپنے مرحوم ساتھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ نماز جنازہ کے بعد ان سے محبت کرنے والے طویل قطار میں لگ کر جماعت کے کلمۂ طیبہ کے پرچم میں ملبوس جسدِ خاکی کا آخری دیدار کرتے رہے، جس کے بعد میت کو لاہور کے تاریخی قبرستان میانی صاحب لے جاکر سپردِ خاک کردیا گیا۔
حافظ سلمان بٹ کو انتقال سے ایک روز قبل دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد انہیں مقامی ہسپتال میں داخل کرایا گیا، مگر وہ جاں بر نہ ہوسکے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 65 برس تھی مگر وہ ملک بھر میں اسلامی انقلاب کے داعی نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ وہ ایک روشن دماغ، درویش صفت اور بہادر انسان تھے۔ طلبہ سیاست سے قومی سیاست تک جرات و بہادری کی بے شمار داستانیں ان کی زندگی سے وابستہ ہیں۔ ان کے والد خواجہ محمد طفیل ایک دین دار اور دبنگ پولیس افسر تھے جنہوں نے خود اپنے حافظ قرآن بیٹے کو اسلامی تحریک کے لیے وقف کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سپرد کیا تھا۔ حافظ سلمان بٹ نے اسلامی تحریک سے غیر متزلزل وابستگی کو تاحیات قائم رکھا۔ انہیں جو بھی ذمہ داری سپرد کی گئی انہوں نے محنت اور لگن سے اسے نبھایا۔ شہر کی بلدیاتی سیاست سے ملک گیر سطح تک جس مورچے پر انہیں کھڑا کیا گیا، وہ پامردی اور استقلال سے اس پر جمے رہے۔ فٹ بال کی گرائونڈ سے ریل کی پٹری تک حافظ سلمان بٹ نے انتھک جدوجہد سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ جماعت اسلامی کی مختلف ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فٹ بال فیڈریشن کے سیکرٹری، پاکستان ریلوے ایمپلائز (پریم) یونین سی بی اے کے صدر، نیشنل لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری، پنجاب اسمبلی کے ایک بار اور قومی اسمبلی کے دو بار رکن منتخب ہوئے۔ سیاسی جدوجہد کے دوران کئی ایک مقدمات کا سامنا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی پامردی سے برداشت کیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی عظیم نعمت کو اپنے سینے میں محفوظ کرنے کی توفیق حافظ سلمان بٹ کو عطا فرمائی تھی۔ حافظ صاحب نے قرآن پاک کو صرف حفظ ہی نہیں کیا بلکہ اس حکمت و تدبر سے بھرپور پیغام کو بھی بخوبی سمجھا، وہ جب درس قرآن دیتے تھے تو ان کے الفاظ دلوں میں اترتے چلے جاتے تھے۔ ان کے دروس کے دوران اکثر لوگوں کی آنکھیں نم آلود دیکھی جاتیں۔ وہ ایک سچے نظریاتی کارکن، انتھک داعیِ حق، ہر ڈر اور خوف سے بالاتر مجاہد فی سبیل اللہ اور حقیقی عوامی قائد تھے۔ وہ اپنی تقاریر کو قرآنی آیات اور احادیثِ رسولؐ سے مزین کرتے، ان کی گفتگو مدلل اور پُروقار ہوتی، دورانِ خطابت برمحل اشعار سناتے، وہ حکومت اور مخالفین کے ظلم و ستم کے حوالے سے یہ شعر اپنی تقاریر میں اکثر سناتے تھے ؎۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے

اسی طرح انتخابی معرکوں میں سیاسی جلسوں کے دوران وہ اپنے سیاسی مخالفین کو اس شعر کی صورت میں پیغام دیتے تھے: ؎

وفا کرو گے، وفا کریں گے۔ ستم کرو گے، ستم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے سو ہم کریں گے

اپنی انتخابی جدوجہد کے دوران انہوں نے بڑے بڑے سیاسی برج الٹ کر صحافتی تجزیہ نگاروں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اطاعتِ نظم کی خوبی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، تحریک نے انہیں جس مورچے پر بٹھایا وہ بلاچوں و چرا ڈٹ گئے، 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی نے ان میں بھرپور شرکت کا فیصلہ کیا، حافظ سلمان بٹ کو لاہور میں اشرافیہ کے ایک بڑے اور نام آور برج، علامہ اقبال مرحوم کے داماد میاں صلاح الدین کے مد مقابل قومی اسمبلی کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا، اُس وقت میاں صلاح الدین کی دھاک ہر طرف بیٹھی ہوئی تھی اور کوئی عام سیاسی رہنما اُن کے مقابلے میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، حافظ سلمان بٹ نے جماعت کی ہدایت پر اس حلقے سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تو میاں صلاح الدین کے بدمعاشوں نے مختلف طریقوں سے خوف و دہشت پھیلانے کی کوشش کی، مگر حافظ صاحب نے اس قدر جرأت و بہادری سے اس کا جواب دیا کہ وہ سب جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور حافظ سلمان بٹ شہر کے غریب عوام، ریڑھی بانوں، ٹھیلے والوں اور نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ابھرے۔ نوجوان حافظ صاحب کے نعرے لگاتے، انہیں کندھوں پر بٹھائے ایک سے دوسرے جلسے میں پہنچتے اور ساری ساری رات ان کی تقاریر سے دلوں کو گرماتے۔ انتخابی نتائج آئے تو حافظ سلمان بٹ کے ہاتھوں میاں صلاح الدین کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ آئندہ انتخابی میدان میں کودنے سے توبہ کر لی!۔
۔2002 ء کے فوجی اقتدار میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو حافظ سلمان بٹ کو جنرل پرویز مشرف کی آنکھ کے تارے، ق لیگ کے سربراہ سابق میئر لاہور و سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے مدمقابل معرکہ آراء ہونے کی ہدایت ملی، اِس مرتبہ بھی انہوں نے برسراقتدار جنرل پرویزمشرف کے اہم ترین مہرے کو ایسی زبردست شکست سے دوچار کیا کہ میاں اظہر نے اس کے بعد انتخابی میدان ہی نہیں سیاست ہی کو خیرباد کہنے میں عافیت جانی۔ پنجاب اسمبلی ہو یا قومی اسمبلی، دونوں ایوانوں میں ان کی یادگار تقاریر کی گونج تادیر سنائی دیتی رہے گی۔
جماعت اسلامی نے انہیں محنت کشوں کی خدمت کی ذمہ داری سونپی، اور ریلوے کی سوداکار پاکستان ریلوے ایمپلائز (پریم) یونین کے صدر مرحوم عباس وزیر کے ساتھ سیکرٹری جنرل اور پھر صدر منتخب ہوئے تو یہاں بھی انہوں نے انتھک محنت اور جانفشانی سے ریلوے کارکنان کے حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑی اور ہر طرح کے لالچ اور خوف سے بے نیاز ہو کر مزدوروں کے شانہ بشانہ ہر مرحلے پر کھڑے رہے۔ حکومتوں نے بارہا ریلوے کی نجکاری کے اعلانات کیے مگر حافظ سلمان بٹ ہمیشہ ’’ریل کی نجکاری، ملک سے غداری‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مزدوروں کو متحد کرکے حکمرانوں کے مدمقابل ڈٹ گئے۔ چنانچہ ان کے ہوتے ہوئے کسی حکومت کو ریل کی نجکاری کی ہمت نہ ہو سکی۔
حافظ سلمان بٹ کی رحلت پاکستان کی اسلامی تحریک کے لیے ایک بڑے صدمے کی حیثیت رکھتی ہے، مظلوم و محکوم پاکستانی قوم میں ان کی طرح کے تراشیدہ ہیرے نہایت نایاب ہیں۔ انہوں نے بچپن سے لڑکپن، اور جوانی سے زندگی کے آخری لمحےتک خود کو اسلامی انقلاب کے لیے وقف کیے رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی طرح کے نظریاتی کارکن مرا نہیں کرتے، اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ جاوید رہتے ہیں۔ وہ جس مرتبے و مقام کی شخصیت کے حامل تھے چاہتے تو آج اربوں کی جائداد اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ کر اگلے جہان سدھارتے، مگر انہوں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔
وہ اس لحاظ سے بھی سرخرو رہے کہ سید مودودیؒ کی امانت کو اپنی اگلی نسل تک منتقل کرنے میں کسی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا، چنانچہ آج ان کے بچے بھی ان ہی کی طرح اسلامی تحریک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ملک بھر میں ان کی تربیت کے فیض یافتہ ہزاروں نوجوان اور بزرگ آج اسلامی انقلاب کا پرچم تھامے سوئے منزل رواں دواں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند درجات عطا کرے۔
شاعر نے حافظ سلمان بٹ جیسے مخلص اور بے باک قائدین ہی کے لیے کہا تھا ؎۔

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
جس ڈھب سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے