عربی ذرائع نے دستاویزی صورت دی
ترجمہ: ناصرفاروق
بعد کے ذرائع سے ہم نے جانا ہے کہ فارس کی سلطنت قدیم ہندوستان اور یورپ کے دوراہے پرقائم تھی۔ اس طرح یہ توقع کرنا فطری ہے کہ فارسی تہذیب نے دونوں سے علمی اکتساب کیا تھا۔ زیادہ اہم بات یہ سامنے آئی کہ ساسانی دربار میں ’سائنس‘ اور ’سائنسی علماء‘ کی بڑی قدر تھی۔ چوتھی صدی میں ہم شامی مکتب نصیبین کا ذکر سنتے ہیں، جو یونانی سائنس سے متعلق ہیں۔ ساسانی سلطنت میں ان کا بھرپور خیرمقدم ہوا تھا، نصیبین اساتذہ کی بڑی عزت افزائی کی گئی تھی۔ اسی صدی کے دوران (یا اگلی صدی میں) ذرائع Paul the Persian (پال فارسی) کا تعارف پیش کرتے ہیں، جس نے یونانی ارسطو کی منطق سے ساسانیوں کو روشناس کیا تھا۔
غرض فارس اور بازنطین میں علمی رابطوں نے کئی صورتیں اختیار کیں، اور کہیں کوئی خلل واقع نہیں ہوا، اور یہ کوئی ایک ہی رُخ پر ایک ہی سرگرمی نہ تھی۔ یہی صورت حال فارس اور ہندوستان کے درمیان بھی قائم تھی، جسے ہم دستاویزی صورت دے سکتے ہیں۔ فلکیاتی متون فارس سے ہندوستان اور ہندوستان سے فارس منتقل ہورہے تھے۔ مزید یہ کہ ساسانی شہر جیسا کہ جُندی شاپور، کہ جب مسلمانوں نے اسے ساتویں صدی کی ابتدا میں فتح کیا تھا، پہلے ہی سے کئی سائنسی روایات کا امین تھا، وہ علمی روایات جومغرب میں بازنطین اور مشرق میں ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ایک ساسانی فلکیاتی متن، جسے عربی میں کئی نام دیے گئے جیسا کہ ’زیج شاہی‘ اور’زیج شہریار ‘ وغیرہ۔ اسلامی علم فلکیات کا تشکیلی دور طویل عرصہ ساسانی فلکیاتی روایت کے زیر اثر رہا ۔
سن431ء میں نسطوری عیسائیوں کی فرقہ بندی سے یہ نوبت آئی کہ اُن کے علماء School of Edessa سے نکال دیے گئے، جسٹینین کے تحت قائم ایتھنی اکادمی (Athenian Academy) بھی بند ہوئی، اور ہیلینی علماء فارسی سلطنت میں زیادہ سے زیادہ پناہ گزین ہوئے۔
اگرچہ ان معلومات کی سند پر بہت بڑے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں، کہ جن میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فارس کی علمی تاریخ اور سائنسی پیش رفت بازنطین کے ان یونانی علماء کی مرہونِ منت رہی جنہوں نے بازنطین سے فارس میں پناہ لی تھی۔ واضح طور پر نظرآتا ہے کہ بازنطین سے یونانی علماء کا ترکِ وطن خالصتاً مذہبی جبر کانتیجہ تھا۔ بعد کے عربی ذرائع میں ایک مشکوک کہانی سامنے آتی ہے۔ یہ کہانی دعویٰ کرتی ہے کہ ساسانی بادشاہ شاپور (241-272)نے نیا شہر جُندی شاپور کے نام سے تعمیر کیا تھا، یہ آج کے خوزستان میں واقع تھا۔ اس شہر کی تعمیر کا مقصد رومی قیدیوں کی آبادکاری تھی جوAD 260 شہنشاہ ولیرین کی شکست پر گرفتارکیے گئے تھے۔ قیاس ہے کہ ان قیدیوں میں اطباء شامل تھے۔ یہیں سے اس شہر میں یونانی طب کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک کہانی یہ بھی سامنے آتی ہے کہAD 270 میں شاپور کی رومی شہنشاہ اورلیان کی بہن سے شادی ہوئی، اور وہ اپنے ساتھ کئی ذاتی معالجین فارس لائی۔ آگے یہ کہانیاں مزید مبالغہ آرائی کرتی محسوس ہوتی ہیں، ایک میڈیکل اسکول اور ہسپتال کا ذکر بھی ملتا ہے، کچھ نے ایک اکادمی اور رصدگاہ کی موجودگی بھی بیان کی ہے۔
غرض اہمیت یہاں اس بات کی نہیں ہے کہ اس ضمن میں جُندی شاپورکا کردار کتنی حقیقت کتنا فسانہ ہے، اصل بات اس کہانی سے ملنے والے وہ اشارے ہیں جو سلطنت روما (بعد میں بازنطین) سے ایک جانب اور ساسانیوں سے دوسری جانب مستحکم ہونے والے علمی رابطوں اور تحقیقی رجحانات کی خبر دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ علمی ربطِ باہم مزید ذرائع کی معاونت سے پیش رفت کرتے رہے، ان میں شامی ذریعے کی مرکزی حیثیت مسلّم ہے۔ خواہ رومی قیدی ہوں یا پناہ گزین، ساسانی شاہی دربار میں علماء کی ایک کے بعد دوسری لہر آرہی تھی۔ یہ لہریں شاپور اول سے خسرواول اور نوشیرواں (AD 531-579)تک متواتر نظر آتی ہیں۔ تاہم ان کی کوئی وقعت اور پہچان نہ ہوتی اگربعد کے عربی ذرائع ساسانی تہذیب سے تحصیل اور اکتساب کو دستاویزی صورت نہ دیتے، اور برملا اس کا اعتراف نہ کرتے، اور اس شہر جُندی شاپور کی سرگرمیوں کو انتہائی باریک بینی سے ریکارڈ پر نہ لاتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ساسانی دور میں جُندی شاپور کی علمی سرگرمیوں کی تاریخی اہمیت تھی، جوابتدائی عباسی دور تک باقی رہی۔ مثال کے طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ جندی شاپور نسطوری عیسائی علماء کی پناہ گاہ تھا۔
ساسانی علمِ کونیات اور علمِ ستارہ شناسی کے دیگر پہلوؤں میں سال کی مدت اور زمین کی ہزاروں سال کی عمر کا شمار اہم ہیں، جنہیں بالائی سیاروں زحل اور مشتری میں اتصال میں تسلسل کی بنیاد پر حساب میں لایا گیا، اس کے لیے ہزاروں کروی دائروں کے ڈایا گرام بنائے گئے تھے۔کیونکہ سال کے دنوں کا شمار اس طریق پر یونان یا ہندوستان کے متون میں نہیں ملتا، یقیناً یہ کام ساسانی ایران ہی میں کیا گیا تھا، جہاں سے یہ غالباً ہندوستان منتقل ہوا، اور ’’کالی یوگا‘‘(ہندو مت میں دنیا کے چار ادوار کا نظام) میں ضم کردیا گیا، اور پھر وہاں سے اسلامی زمینوں پر برآمد کیا گیا۔
لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی آمد تک ساسانی سلطنت مغرب میں بازنطینی علوم، مشرق سے ہندی علوم، اور اپنی روایتی سائنس سے متمتع ہوچکی تھی۔ جہاں تک علمِ فلکیات کا تعلق ہے، ابتدائی اسلامی صدیوں میں ساسانی علمی روایات کا اثرقوی تھا، جسے محمد موسیٰ الخوارزمی کے فلکیاتی رسالہ میں آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے)