۔’’تعلیم پر دھیان دینے کی ضرورت ہے‘‘۔

ترجمہ: اسامہ تنولی

کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدر آباد کے ادارتی صفحہ پر کالم نگار منظور کھوسو نے اتوار 31 جنوری 2021ء کو درج بالا عنوان سے جو مضمون تحریر کیاہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
…………

’’وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت کابینہ کے آٹھ گھنٹے تک چلنے والے اجلاس میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ سندھ کے 12 ہزار سے زیادہ اسکولوں میں اساتذہ اور 11ہزار سے زائد اسکولوں میں طلبہ و طالبات ہی نہیں ہیں۔ مزید واضح کیا گیا کہ سندھ میں کُل 49 ہزار 103 اسکول ہیں، جن میں 37 ہزار 795 اسکولوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ بنیادی سہولیات میں کلاس روم، چہار دیواری، پینے کا صاف پانی، بجلی اور واش روم وغیرہ کے نام آجاتے ہیں۔ صوبے میں 12 ہزار 136 اسکول ایسے ہیں جن میں طلبہ و طالبات تو ہیں لیکن اساتذہ نہیں ہیں، اور 11 ہزار 441 اسکولوں کی عمارات بھی ہیں، اساتذہ بھی ہیں لیکن شاگرد موجود نہیں ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم نے بریفنگ میں مزید بتایا کہ 7 ہزار 611 اسکول ایسے ہیں جن کی چھتیں ہیں اور نہ ہی چہار دیواری! جن میں 71 سے زیادہ اسکولوں میں 100سے زائد شاگرد رجسٹرڈ ہیں۔ اس وقت صوبے میں 81 ہزار 600 اسکول One Teacherہیں۔ جن میں 10ہزار516 اسکول صرف ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں، جبکہ 18 ہزار 507 اسکول صرف دو کمروں پر مشتمل ہیں۔ یعنی ان اسکولوں میں لائبریری، لیب، پلے گرائونڈ وغیرہ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
کابینہ کے اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر علاقے میں ایک ماڈل اسکول قائم کیا جائے گا۔ سائنس ٹیچرز کی کمی ہے، اس لیے سائنس پڑھانے کے لیے اساتذہ بھرتی کیے جائیں گے۔ نصابِ تعلیم پر غور کیا جائے گا اور مزید اصلاحات بھی کی جائیں گی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے برسراقتدار آنے سے قبل عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ملک میں ’’یکساں قومی نصاب‘‘ نافذ کرے گی۔ موجودہ تعلیمی نظام معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اور اس کی وجہ سے ملک میں ہمہ جہت مسائل اور پریشانیاں جنم لے رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جولائی 2020ء میں قومی اسمبلی سے دورانِ خطاب کہا تھا کہ اپریل 2021ء تک سرکاری اور نجی اسکولوں اور دینی مدارس میں یکساں قومی نصاب نافذ کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔
صوبے اور وفاق کے تعلیم کے بارے میں خیالات اوپر پیش کیے گئے ہیں۔ 2019ء میں سندھ کابینہ میں جو فیصلے کیے گئے اُن کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ نہ کہیں کوئی ماڈل اسکول قائم ہوا اور نہ ہی درسی کتب میں اصلاحات کی گئیں، اور نہ ہی قابلِ ذکر ترقیاتی امور سرانجام دیے گئے۔ اسکول بنیادی سہولیات سے تاحال محروم ہیں۔ سال 2019-20ء میں سندھ کا بجٹ 12 کھرب 17 ارب روپے پاس کیا گیا، جس میں تعلیم کے لیے 178.618 ارب روپے اسکول ایجوکیشن کی مد میں مختص کیے گئے، اور ترقیاتی بجٹ میں بھی تعلیم کے لیے 15.15ارب روپے رکھے گئے۔ بجٹ میں اسکولوں میں خصوصاً پینے کے صاف پانی، واش رومز، چہاردیواری، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے بھی رقومات مختص کی گئی تھیں۔ یہ تو حکومتِ سندھ کے بجٹ کا ذکر ہے۔ عالمی ڈونرز ادارے جن میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، USAID، جاپان اور دیگر ممالک پر نظرڈالی جائے تو صورت حال 2019ء سے بھی کہیں بدتر نظر آئے گی، اور کوئی بھی قابلِ ذکر تبدیلی دکھائی نہیں دیتی کہ صوبے اور وفاق کے تمام تر دعوے محض دعووں تک ہی محدود رہے ہیں۔ اسمبلیوں کے فلورز پر کی گئی تقاریر اور وعدے محض نشتند، گفتند اور برخاستند کے مصداق ہی ثابت ہوئے ہیں۔ اتنا سرمایہ دکھانے کے باوجود عملاً کہیں بھی خرچ نہیں ہوا، اور صرف کاغذات کا پیٹ ہی بھرا گیا ہے، اور کوئی بھی یہ بتانے کے لیے تیار اور آمادہ نہیں ہے کہ عوام کا اتنا زیادہ پیسہ آخر گیا کہاں؟ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ GDP کا 2.2 فیصد ہے، جبکہ یونیسکو کی سفارش ہے کہ کم از کم 4 فیصد خرچ کیا جائے۔ بہرحال تعلیم کی تباہی میں جہاں دوسرے عناصر کارفرما ہیں، وہیں سرکاری خزانے کا بے جا اور فضول خرچ بھی سرفہرست ہے۔ اکنامک سروے کی رپورٹ کے مطابق چار برس کے خرچ اور محنت کے بعد بھی پاکستان کی شرح خواندگی محض 2 فیصد ہی بڑھی ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمارے لیے لمحۂ فکر ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری آئندہ ترقی کی رفتار کیا ہوگی؟ اس وقت سری لنکا کی شرح خواندگی 92 فیصد، بنگلہ دیش 73فیصد، بھوٹان 62فیصد اور ہم 4 برس میں 60 فیصد تک ہی پہنچ پائے ہیں۔ لاکھوں بلکہ شاید کروڑوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ انہیں کس طرح سے اسکول لایا جائے اور تعلیم دی جائے، صوبے اور وفاق کی اس بارے میں کسی نوع کی کوئی واضح پالیسی ہے اور نہ ہی پلاننگ… کیوں کہ ہمارے سیاست دان بے چارے تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ہی میں مصروف ہیں اور انہیں اس سنگین مسئلے کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس لندن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 5.22 ملین بچے حصولِ تعلیم سے محروم ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچیوں کی ہے۔ HRW کی رپورٹ کے مطابق ’’پاکستانی حکومت بچوں کو تعلیم مہیا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں بچیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں‘‘۔ ہمارا طبقاتی نظام تعلیم بھی غریب عوام کے فائدے میں ہرگز نہیں ہے، جس کی وجہ سے غریب طبقہ پس منظر میں جارہا ہے اور اس کے حالات بدتر ہورہے ہیں۔
کووڈ 19 نے تو ہماری تعلیم کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اور یوں سمجھیے کہ ہم تعلیم کے میدان میں مزید کئی برس پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس نقصان کا ازالہ کیسے اور کیوں ہو؟ اس حوالے سے بھی حکومت کے پاس کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک تمام ادارے بند ہیں، اور اس عرصے میں حکومت کا صرف آن لائن تعلیم دینے پر ہی زور رہا۔ جبکہ یونیسیف نے حال ہی میں آن لائن سسٹم کے بارے میں یہ چشم کشا رپورٹ دی ہے کہ “Eighty eight percent of South Asia’s school-age children do not have internet connection in their homes”۔ بہرحال کووڈ 19 تو ایک اچانک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے لیکن برسہا برس سے یہ مسائل بھی تعلیمی تباہی کے اسباب بنے چلے آرہے ہیں۔
وسائل کی قلت، شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری کا نہ ہونا، نصاب کا مقامی زبان میں نہ ہونا، ذہنی سطح سے زیادہ مشکل نصاب جس کی وجہ سے طلبہ میں نقل کا رجحان پیدا ہوتا ہے، تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب کا نہ ہونا، ضرورت سے زیادہ مہنگی تعلیم، سرمایہ داروں کی چالاکی اور عیاری، جنہوں نے تعلیم کو منافع بخش تجارت اور انڈسٹری کی شکل دے دی ہے، اداروں میں کرپشن، سیاست دانوں خصوصاً حکمران طبقے کا اس پر مطلوبہ توجہ نہ دینا۔
اگر مذکورہ مسائل کو حل کرنے کے لیے خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی اور فقط اعلانات اور تقاریر سے ہی عوام کو راضی رکھنے کی کوشش کی گئی تو پھر اس صورت میں تعلیم کی ڈولتی ہوئی کشتی کو ڈوبنے سے کوئی بھی بچا نہیں سکے گا۔ یاد رہے کہ اقوام کی تعمیر اور ترقی کا راز علم میں مضمر ہے، جسے ہم نے نظرانداز کردیا ہے۔