مصنف : چودھری رفاقت علی (ماہر تعلیم)
صفحات : 184 قیمت:400 روپے
ناشر : عزت اکادمی گجرات
زیر نظر کتاب میں چودھری رفاقت علی صاحب نے سید روح الامین صاحب کی حیات اور تصنیفات پر اپنا تجزیہ تحریر کیا ہے، اس میں اچھی بات یہ ہے کہ ایک زندہ شخصیت نے زندہ شخصیت کو موضوع بنایا ہے۔ جہاں تک چودھری رفاقت علی صاحب کا تعلق ہے ان کا تعارف درج ذیل ہے:۔
’’محترم چودھری رفاقت علی، محکمہ تعلیم میں ایک ممتاز ماہر تعلیم کے حوالے سے جانی پہچانی اور معروف شخصیت ہیں۔ آپ نے 38 سال محکمہ تعلیم کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر کی حیثیت سے بھی ملک و قوم کی خدمت سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ نے میٹرک کا امتحان ڈسٹرک کونسل ہائی اسکول، بھلوال ضلع سرگودھا، انٹرمیڈیٹ کا امتحان گورنمنٹ کالج سرگودھا، اور بی اے کی تعلیم اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے مکمل کی۔ اس کے بعد بی ایڈ کی تعلیم سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے حاصل کی۔ آپ نے ایم اے پولیٹکل سائنس پنجاب یونیورسٹی اور ایم ایڈ سیکنڈری کی تعلیم ادارۂ تعلیم و تحقیق پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سے مکمل کی۔
۔1962ء سے محکمہ تعلیم میں بطور سینئر انگلش ٹیچر اپنی عملی تدریسی زندگی کا آغاز کیا۔ 1969ء میں بطور ہیڈ ماسٹر ہائی اسکول Selection ہوئی۔ ایک طویل عرصہ بطور سبجیکٹ اسپیشلسٹ گورنمنٹ کالج برائے ایلیمنٹری ٹیچرز ٹریننگ سرگودھا تعلیم و تعلم اور درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ نظامتِ تعلیمات سرگودھا ڈویژن اور نظامتِ تعلیمات پنجاب لاہور بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرائض منصبی سر انجام دیتے رہے۔ مزید برآں انہوں نے بطور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سرگودھا بھی کام کیا۔
۔1992ء میں انہوں نے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ٹیچر ٹریننگ پروجیکٹ میں بطور ڈپٹی پروجیکٹ منیجر اور پروجیکٹ منیجر فرائض سر انجام دیئے۔ اس دوران فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں چار ہفتوں کا مینجمنٹ ٹریننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کورس آف ایجوکیشن کیا، جس میں مختلف یونیورسٹیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ اسی پروجیکٹ میں دو نئے ایلیمنٹری ٹیچرز ٹریننگ کالج (زنانہ) وہاڑی اور تلہ گنگ کے علاوہ لاہور میں ہی پراونشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچر ایجوکیشن (PITE) بنانے کا شرف حاصل کیا۔ دورانِ ملازمت انہوں نے بے شمار ٹریننگ کورسز میں شمولیت کی۔ ٹیچرز ٹریننگ پروجیکٹ میں لاتعداد تربیتی ورکشاپس اور کورسز منعقد کرائے، جن میں پنجاب بھر کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں پرائمری/ ہائی/ ایلیمنٹری ٹیچرز ٹریننگ کالجز/ کالج آف ایجوکیشن کے اساتذہ کی ان سروس ٹریننگ ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ اسی پروجیکٹ کے تحت ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کے موضوع پر کئی تحقیقی مقالے مکمل کروائے۔
اس کے علاوہ پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی کئی کمیٹیوں میں کام کرنے کے علاوہ اس کی Examination Reform میں بطور کنوینر رپورٹ تیار کرکے چیئرمین پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن اور چیئرمین TEVTA پنجاب کو پیش کی۔
امتحانات کے حوالے سے ایک طویل عرصہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا اور لاہور بطور چیف سیکریسی آفیسر/ سیکریسی آفیسر نہایت دیانت داری اور احسن طریقے سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
ان دنوں UNICEF پنجاب کے تحت پنجاب ایگزامنیشن کمیشن سے متعلق اپنی ماہرانہ رائے سے نوازتے ہیں اور مختلف ورکشاپس میں بطور Resource Person فرائض سر انجام دے رہے ہیں‘‘۔
چودھری رفاقت علی صاحب کے قلم سے درج ذیل مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب نکلی ہیں:۔
(1) ناموسِ رسالتؐ، (2) مکاتیبِ حضرت عمر فاروقؓ، (3) ارزل العمر، (4) روح اردو۔سید روح الامین، (5) مضامینِ فہم و دانش (حصہ اول)، (6) مضامینِ فہم و دانش (حصہ دوم)، (7) نوشتۂ دیوار۔1(کالموں کا مجموعہ)، (8) نوشتۂ دیوار۔2 (کالموں کا مجموعہ)، (9) انبیائے کرام کا مختصر تعارف اور امتِ وسط۔
چودھری رفاقت علی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’پاکستان کی آزادی کا بنیادی محرک اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنا تھا۔ اس دیرینہ خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اردو زبان نے نمایاں کردار ادا کیا۔ یہی وہ زبان تھی جس کے ذریعے عوام کے دلوں سے غلامی کے طوق کو اتارنے کی کوشش کی گئی اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا۔ بالآخر قائداعظم محمد علی جناح کی انتھک کوششوں کے باعث علامہ اقبال کا خواب دنیا کے نقشے پر تعبیر سے ہم کنار ہوا۔ ڈاکٹر نجیب جمال لکھتے ہیں:۔
’’اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ یہی زبان برصغیر میں دو قومی نظریے کی اساس بنی، جس نے برصغیر میں نہ صرف انگریزوں کے نوّے سالہ تسلط کو ختم کرنے، بلکہ ایک عظیم مسلم حکومت کے قیام میں اپنا ناگزیر کردار ادا کیا‘‘۔ (’’اردو ہے جس کا نام‘‘، مرتبہ: سید روح الامین، ص 106)
اور اب جب ایک علیحدہ وطن دنیا کے نقشے پر نمودار ہوچکا تھا تو اس وطن کے استحکام اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھا کہ اس ملک میں بسنے والے افراد میں باہمی محبت اور یگانگت قائم رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قومی زبان کا ہونا اشد ضروری تھا، اور یقیناً وہ زبان اردو ہی ہوسکتی تھی۔ لیکن افسوس! انگریزی اقتدار کے ختم ہونے کے باوجود بھی مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت نہ بدل سکی اور وہ آزاد ہوکر بھی ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام رہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی قومی زبان اردو کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے نفاذ کے لیے دن رات مصروفِ عمل ہیں، حالانکہ کسی بھی قوم کی اندھا دھند تقلید خودکشی کے مترادف ہوتی ہے۔ بقول اقبال:۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم پر مغربی تہذیب کی تقلید اس قدر غالب آچکی ہے کہ ہم انگریزی زبان کے ہر لفظ کو سند کا درجہ دیتے ہیں خواہ وہ کوئی عام سی بات ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم شدید قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوچکے ہیں اور مغربی تہذیب، مغربی تعلیم اور مغربی طور طریقے اپنانا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔
اس بات سے کوئی باشعور فرد انکار نہیں کرسکتا کہ کسی قوم اور ملک کے استحکام کے لیے زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ قومی زبان کو چھوڑ کر غیر ملکی زبان کو اولیت دینے والی قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں، لیکن پاکستانی عوام کے لیے یہ بات خوش آئندہ ہے کہ آج بھی یہاں بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جو اس بھیانک اور اٹل حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ اگر عملی طور پر اردو زبان کے نفاذ کی کوششیں نہ کی گئیں تو یہ زبان بھی قدیم زبانوں کی طرح ختم ہوجائے گی، اور مسلمان نہ صرف اپنی پہچان کھو بیٹھیں گے بلکہ اپنے مذہب کو بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھیں گے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ زبان ہی ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے، اور کسی بھی زبان کی پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان کے بولنے اور لکھنے والے اس کی ترویج و اشاعت کے لیے کوشاں رہیں۔ جہاں کہیں بھی زبان کا استعمال رک جاتا ہے وہاں اس زبان کی موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن اگر اس زبان کو قائم و دائم رکھنے والے محب موجود ہوں تو وہ اس کی محبت میں ہر وہ قدم اٹھانا ضروری سمجھتے ہیں جو اس کی بقا کا ضامن بن جاتا ہے۔ سید روح الامین بھی اردو زبان سے بے لوث محبت کرنے والی ایک شخصیت ہیں۔
سید صاحب کی اردو زبان کے لیے خدمات لازوال ہیں۔ میں نے سید صاحب کی تصنیفات و تالیفات کا بغور مطالعہ کرکے تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کرنے کی سعی کی ہے۔ سید صاحب کی مزید کامیابیوں کے لیے دعاگو ہوں کہ وہ یوں ہی علم و ادب کی خدمت سر انجام دیتے رہیں‘‘۔
کتاب کے مختلف ابواب کے عنوان درج ذیل ہیں:
’’رُوحِ اردو… سید روح الامین‘‘، ’’اردو لسانیات کے زاویے‘‘، ’’اردو کے لسانی مسائل‘‘، ’’اردو تاریخ و مسائل‘‘، ’’اردو کے دھنک رنگ‘‘، ’’سید روح الامین بحیثیت کالم نگار‘‘، ’’سید روح الامین کی دیگر کتب کا جائزہ‘‘، ’اقبال… شاعری اور فکر و مقام‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ رنگین سرورق سے مزین ہے۔ مجلّد ہے ، پروف احتیاط سے نہیں پڑھے گئے، علامہ اقبال کے اشعار میں بھی اغلاط ہیں۔