ویڈیو اسٹریمنگ :ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ

عالمی کووڈ 19 کی وبا کے دوران تدریس، ملاقات، میٹنگ اور دیگر امور آن لائن ہونے کی وجہ سے ویڈیو اسٹریمنگ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن اگر آپ ماحول کا احساس رکھتے ہیں تو اس دوران لیپ ٹاپ کا کیمرہ بند رکھیں جس کی وجہ آگے بیان کی جارہی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے بھی ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی صرف ایک گھنٹے کی ویڈیو اسٹریمنگ سے 150 سے 1000 گرام تک کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے، لیکن میٹنگ کے دوران کیمرہ بند رکھنے سے ان کاربن فٹ پرنٹس (ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے آثار) کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح نیٹ فلیکس پر بلند معیار کے بجائے درمیانے معیار کی ویڈیو دیکھنے سے بھی ماحول پر اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اس تحقیق میں پاکستان سے بھی ڈیٹا لیا گیا ہے۔ یہ تحقیق پوردا اور ییل یونیورسٹی اور میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے کی ہے جس میں پہلی مرتبہ انٹرنیٹ کے استعمال پر کاربن فٹ پرنٹس اور پانی کے زیاں پر غور کیا گیا ہے۔ اس کی تحقیقات جرنل ریسورسز، کنزرویشن اینڈ ری سائیکلنگ میں شائع ہوئی ہیں۔ اس تحقیق میں جن ممالک نے حصہ لیا ان میں پاکستان، چین، فرانس، ایران، جاپان، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ شامل ہیں۔ انٹرنیٹ کو چلانے کے لیے توانائی، سرورز کو ٹھنڈا کرنے کا نظام اور ڈیٹا ٹرانسمیشن میں ایئرکنڈیشنڈ نظاموں سمیت کئی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ اس طرح انٹرنیٹ کو چلانے کے لیے جو حرارت خارج ہوگی اسے سرد کرنے کے لیے 300000 اولمپک سائز سوئمنگ پول کی ضرورت ہوگی۔
اسی طرح اگر آپ یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک، ٹویٹر اور دیگر 12 پلیٹ فارمز پر ایک گیگا بائٹ ڈیٹا استعمال کرتے ہیں تو اس کا ماحولیاتی اثر بھی غیرمعمولی ہوگا جس کا اندازہ بھی لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈیٹا پروسیسنگ کے لیے بہت ساری توانائی درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈاؤن لوڈنگ میں بھی ماحولیاتی نقصانات پیدا ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے ہم نے کاغذوں کے استعمال میں کمی تو کی ہے لیکن کیمرے اور ویڈیو نے سارا حساب برابر کردیا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر ہر سرگرمی کی کوئی نہ کوئی ماحولیاتی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے جو ہم کربھی رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہرسال دنیا بھر میں جتنی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہورہا ہے اس میں انٹرنیٹ کا حصہ تقریباً 3.7 فیصد ہوتا ہے جس میں ہر نئے دن اضافہ ہورہا ہے۔

شام سے پہلے کچھ دیر کا قیلولہ دماغ کےلیے مفید

چینی ماہرین نے دو ہزار سے زائد عمر رسیدہ افراد پر تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ سہ پہر میں کچھ دیر قیلولہ کرنے سے دماغی صحت بہتر رہتی ہے اور مختلف ذہنی امراض کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ آزمائشوں کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ سہ پہر میں آدھا گھنٹہ یا اس سے کچھ کم وقت کے لیے سوئے تھے، ان کی مجموعی دماغی صحت، نیند نہ لینے والے افراد کے مقابلے میں واضح طور پر بہتر تھی۔ بہتر دماغی صحت کی ظاہری علامات میں فعال یادداشت (ورکنگ میموری)، بول چال میں روانی اور اپنے مقام سے آگاہی (لوکیشن اویرنیس) جیسے پہلوؤں کو شامل کیا گیا۔ اس تحقیق میں ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جو افراد سہ پہر میں تقریباً روزانہ 30 منٹ یا اس سے کچھ کم وقت کے لیے قیلولہ کررہے تھے، ان میں ’الزائیمرز‘ نامی دماغی بیماری کا خطرہ بھی اس وقفے میں قیلولہ نہ کرنے والے بزرگوں کے مقابلے میں 84 فیصد تک کم تھا۔ واضح رہے کہ ’الزائیمر کی بیماری‘ (الزائیمرز ڈِزیز) ایک ایسا دماغی مرض ہے جس میں یادداشت اور سوچنے کی صلاحیتیں بتدریج ختم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ عموماً 60 سے 65 سال کی عمر میں لاحق ہونے والی یہ بیماری ناقابلِ علاج ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ نتیجتاً ’الزائیمرز‘ سے متاثرہ شخص مزید کئی خطرناک دماغی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے جن میں ’ڈیمنشیا‘ جیسا خطرناک اور جان لیوا مرض بھی شامل ہے۔ البتہ سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ جو لوگ سہ پہر میں دو گھنٹے یا اس سے زیادہ دیر تک قیلولہ کرتے ہیں، انہیں دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ فی الحال یہ کہنا بھی قبل از وقت ہے کہ سہ پہر میں مختصر قیلولے کے یہی اثرات ادھیڑ عمر اور جوان افراد پر بھی مرتب ہوتے ہیں یا نہیں۔ طبی ماہرین کا اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ اگر دن کے اوقات میں متوازن طور پر قیلولہ کرلیا جائے تو اس سے دماغی صحت بہتر رہتی ہے۔

اینٹی بایوٹکس کے استعمال سے نومولود لڑکوں کی افرائش متاثر ہوسکتی ہے

ایک تحقیقی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر نومولود لڑکوں کو ان کی پیدائش کے ابتدائی دو ہفتوں میں اینٹی بایوٹکس دی جائیں تو ان کی جسمانی نشوونما اور بڑھوتری متاثر ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس مطالعے میں لڑکیوں پر اس کے کوئی مضر اثرات سامنے نہیں آئے۔ تاہم اینٹی بایوٹکس لینے والے لڑکوں کا وزن اور قد اوسط سے کم دیکھا گیا ہے۔ یہ تحقیق جامعہ ہیلسنکی کے سائنس دانوں نے کی ہے جس میں نومولود بچوں پر اینٹی بایوٹکس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا سروے بھی ہے۔
اگرچہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، لیکن سائنس دانوں کا ابتدائی خیال ہے کہ شاید پیدائش کے فوری بعد اینٹی بایوٹکس دینے سے بچوں کی آنتوں اور معدے میں بیکٹیریا کی ترکیب بدل جاتی ہے جو آگے چل کر ان کی نشوونما کو شدید متاثر کرتی ہے۔ چونکہ یہ تبدیلی بہت عرصے کے لیے رہتی ہے اس لیے خیال ہے کہ غذا جسم کا حصہ نہیں بن پاتی اور بچوں کا قد اور وزن متاثر ہوسکتا ہے۔ لیکن معدے اور آنتوں میں طرح طرح کے بیکٹیریا دیگر ضروری کام بھی کرتے ہیں۔ ان میں غذائی ہاضمے، امنیاتی نظام کی مضبوطی اور خود بیماریوں سے بچاؤ وغیرہ بھی شامل ہیں۔