صحابہ کرام حضرت عمرو بن عاصؓ کی سرکردگی میں مصر کے مشہور شہر اسکندریہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، اسی دوران حضرت عبادہ بن صامتؓ کسی ضرورت سے پڑائو سے کچھ فاصلے پر چلے گئے اور ایک جگہ گھوڑے سے اتر کر نماز کی نیت باندھ لی، اتنے میں کچھ رومی کافر گھومتے ہوئے ادھر آنکلے، انہوں نے حضرت عبادہؓ کو تنہا نماز پڑھتے دیکھا تو سوچا یہ انہیں قتل کرنے کا اچھا موقع ہے، چنانچہ وہ یہ بری نیت لے کر حضرت عبادہؓ کی طرف بڑھے، حضرت عبادہؓ نماز میں مشغول رہے، لیکن جب رومی ان کے بالکل ہی قریب پہنچ گئے تو انہوں نے جلدی سے سلام پھیرا۔ انتہائی پھرتی کے ساتھ چھلانگ لگا کر گھوڑے پر سوار ہوگئے اور رومیوں پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو ایک عابد درویش سے ایسی شجاعت کی توقع نہ تھی۔ جب اللہ کا یہ شیر ان کی طرف بڑھا تو وہ باگیں موڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن حضرت عبادہؓ نے ان کا تعاقب نہ چھوڑا۔ وہ سب آگے آگے، اور یہ تنہا پیچھے پیچھے۔ جب جان بچتی نظر نہ آئی تو انہوں نے اپنا کچھ قیمتی سامان کمر کی پیٹیاں کھول کھول کر زمین پر پھینکنا شروع کردیا۔ خیال تھا کہ عرب کا یہ صحرا نشین یہ قیمتی سامان دیکھے گا تو اس کے لالچ میں ہمارا پیچھا چھوڑ کر سامان بٹورنے میں لگ جائے گا، لیکن عبادہؓ سردارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی تھے۔ انہوں نے سامان کی طرف نظر بھر کر بھی نہ دیکھا اور تعاقب جاری رکھا، یہاں تک کہ رومی بمشکل تمام قلعہ کے قریب پہنچے اور اندر گھس کر دروازہ بند کرلیا۔ حضرت عبادہؓ تھوڑی دیر قلعہ کے اوپر سے پتھر برساتے رہے اور اس کے بعد لوٹ آئے۔
واپسی میں ان رومیوں کا سامان زمین پر بکھرا تھا، مگر یہ درویش خدا مست اسے اٹھانے میں اپنا وقت کہاں برباد کرتے؟ واپس اسی جگہ پہنچے اور پھر نماز شروع کردی۔ رومیوں نے سامان جوں کا توں پڑا دیکھا تو باہر آکر اسے اٹھا لے گئے۔
(”تراشے“…مفتی محمد تقی عثمانی)
دل کے اندھے
ایک دیہاتی کو اپنی پالتو گائے سے بہت محبت تھی۔ دن رات اس کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا اور ہر دم اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا۔ ایک دن وہ گائے کو باڑے میں باندھ کر اچانک ضروری کام سے چلا گیا۔ اتفاق سے اُس دن دیہاتی باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔ جنگل کا شیر کئی دن سے گائے کی تاک میں تھا۔ اس دن اسے موقع مل گیا۔ شیر رات کی تاریکی میں دبے پائوں آیا، باڑے کے اندر گھسا اور گائے کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کرگیا۔ شیر گائے کو کھانے کے بعد وہیں باڑے میں بیٹھ گیا۔ دیہاتی رات گئے گھر واپس آیا اور گائے کو دیکھنے کے لیے پہلے سیدھا باڑے میں گیا۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ شیر گائے کو کھا کر مست بیٹھا ہوا تھا۔ دیہاتی نے شیر کو اپنی گائے سمجھ کر پیار سے پکارا، پھر اس کے پاس بیٹھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ دیہاتی احمق کو اگر پتا چل جاتا کہ وہ جسے اپنی گائے سمجھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا ہے وہ آگے بیٹھا ہوا جنگل کا بادشاہ شیر ہے تو مارے دہشت کے اس کا جگر پھٹ جاتا اور دل خون ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کا نام ہم نے صرف پڑھا اور سنا ہے، اور لفظ اللہ صرف زبان سے ہی پکارتے رہتے ہیں۔ اگر اس پاک ذات کی ذرا سی حقیقت بھی ہم پر واضح ہوجائے، تو جو ہمارا حال ہوگا ہم اسے نہیں جان سکتے۔ کوہِ طور پر تجلی پڑنے سے جو موسیٰ علیہ السلام کا حال ہوا اس کی سب کو خبر ہے۔ اس پر مزید قلم کشائی میری بساط سے باہر ہے۔
درسِ حیات: تیرا نفس اس خونخوار شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہے جسے تُو اندھے پن میں فریب خوردہ ہوکر اور گائے سمجھ کر پال رہا ہے۔ اس کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔ ابھی وقت ہے اپنی اصلاح کرلے۔
(”حکایاتِ رومی“…مولانا جلال الدین رومیؒ )
مقامِ علما
بصرہ کے مشہور عالم عروض خلیل بن احمد (791ء) سے کسی نے پوچھا کہ علم و سلطنت میں بہتر چیز کون سی ہے؟ کہا: علم، جس کے بغیر کوئی سلطنت زندہ نہیں رہ سکتی۔ پوچھا: تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اہلِ علم تو شاہوں کے ہاں جاتے ہیں لیکن بادشاہ علما کے ہاں نہیں آتے؟ فرمایا: وجہ یہ کہ علما تو شاہوں کے مقام سے آگاہ ہیں لیکن بادشاہ مقامِ علما سے واقف نہیں۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ اکتوبر 2018ء)