فرانس میں واقع ’فرنچ پوائزن سینٹر‘ نے کہا ہے کہ یکم اپریل سے 24 اگست 2020ء کے دوران بچوں میں سینی ٹائزر سے آنکھوں کے متاثر ہونے کے واقعات سات گنا بڑھے ہیں۔ اس دوران 16 بچوں کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ دو بچوں کی آنکھوں میں کیمیکل جانے سے خوفناک صورت حال پیدا ہوگئی کہ ان کی آنکھوں کے قرنیہ میں بافتوں (ٹشوز) کی پیوندکاری کی گئی۔ ہسپتالوں کی انتظامیہ کے مطابق تمام بچوں کی عمریں چار سال سے کم تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سینی ٹائزر جہاں رکھے جاتے ہیں وہ ایک میٹر بلند ہوتے ہیں۔ یہ اونچائی بالغان کی کمر اور بچوں کے سر تک پہنچتی ہے جس سے وہ سینی ٹائزر کو چہرے یا آنکھوں پر بھی گرا لیتے ہیں۔ نیویارک میں آنکھوں کی ماہر ڈاکٹر کیتھرین کولبی کہتی ہیں کہ ہم سینی ٹائزر کو عوامی مقامات رکھتے ہوئے بچوں کو یکسر نظرانداز کررہے ہیں۔ 2019ء میں فرانس میں ہینڈ سینی ٹائزر سے بچوں کی آنکھوں کو نقصان پہنچنے کی شرح صرف 1.3 فیصد تھی۔ سال 2020ء میں یہ شرح تقریباً 10 فیصد ہوگئی اور عوامی مقامات پر 63 بچوں نے اپنی آنکھیں مجروح کرلیں۔ یاد رہے کہ ہینڈ سینی ٹائزر میں تیز ایتھانول ہوتی ہے جو آنکھوں میں جاتے ہی قرنیہ کے خلیات کو تباہ کرسکتی ہے۔ دو خوفناک واقعات بھارت سے بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ چار سال کے ایک بچے نے اپنی آنکھوں میں سینی ٹائزر ڈال لیا جس کے بعد وہ روشنی کو نہیں دیکھ سکتا، اور دوسرے پانچ سالہ بچے نے اپنی آنکھوں کا پپوٹا جلادیا تھا۔ سائنس دانوں نے اسکولوں اور دیگر مقامات پر ہینڈ سینی ٹائزر کو زیادہ محفوظ اور درست جگہ رکھنے کی تجویز دی ہے۔
گوگل سرچ انجن ڈیزائن میں بنیادی تبدیلیاں
گوگل نے فون پر اپنے سرچ انجن کو ایک نیا ڈیزائن دیا ہے جسے اس نے ’ببلیئر، باؤنسیئر اور گوگلیئر‘ کہا ہے۔ اس نئے انٹرفیس کو جلد ہی ریلیز کیا جائے گا،لیکن بعض صارفین کو اس کی جانچ کی سہولت دی گئی ہے۔ گوگل کے تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا نیا ڈیزائن دیکھنے میں بہت اچھا ہے۔گوگل نے فون سرچ انجن کا انداز پانچ سال بعد بدلا ہے، جس میں ہر سیکشن کے درمیان فاصلوں کو کم کیا گیا ہے اور نتائج بھی کم کیے گئے ہیں۔ اس طرح گوگل ڈیزائنر نے جگہ کی کمی بیشی کو کام میں لاتے ہوئے اسے نگاہوں کے لیے مزید قابلِ قبول بنایا ہے۔ کئی جگہوں پر فونٹ کو گوگل ہی کے ایک دوسرے فونٹ سے بدلا گیا ہے۔ پھر سرچ انجن کی ٹیب کو پڑھنے کےلیے آسان بنایا گیا ہے اور سرچ بار کا شیڈو بڑھایا گیا ہے۔ نالج پینل میں ٹیبس کو جدید انداز کے بٹنوں سے تبدیل کردیا گیا ہے، اور اس میں آؤٹ لائن اور ٹیکسٹ کو ایک کنٹراسٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ اسکرولنگ کی سمت بتانے کے لیے تصویر کے کنارے کو گول کیا گیا ہے۔ رزلٹ پیج کا ٹائٹل بڑھایا گیا ہے تاکہ دیکھنے میں نمایاں نظر آئے۔ جبکہ سجیسشن کو سادے ٹیکسٹ کے بجائے نیلگوں رنگ کے بٹنوں میں بیان کیا گیا ہے۔ گوگل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ فون سرچنگ کو ’گوگل زدہ‘ کرنا چاہتا ہے۔ اب بات ہوجائے بلبل اور باؤنس کی، تو سرچ بار میں گوگل کے الفاظ کو گول کیا گیا ہے جس سے دیکھنے میں بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اسے ڈیزائننگ کرنے والے ماہرین نے بھی سراہا ہے۔
موٹرسائیکل حادثات سے بچنے کے لیے ایئربیگ جینز تیار
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سویڈن کے ایک ڈیزائنر موسس شاہریور نے موٹر سائیکل سواروں کے لیے ایسی جینز تیار کی ہے جس میں ایئربیگ لگے ہوئے ہیں جو کسی بھی حادثے کی صورت میں موٹرسائیکل سوار کو ممکنہ نقصان سے بچانے میں مدد دیں گے۔ڈیزائنر کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی موٹر سائیکل سواروں کے لیے ایسی جیکٹ بنا چکا ہوں جس میں ایئربیگ لگا ہوا ہے، جو حادثے کی صورت میں سوار کی گردن، بازو، کمر، سینہ اور ریڑھ کی ہڈی کو محفوظ بناتا ہے، تاہم مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی بھی حادثے میں بائیکرز کی ٹانگیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں، اور اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایئربیگ والی جینز پر کام شروع کیا۔
موسس کے مطابق موٹر سائیکل چلانے والے کی ایک ڈوری موٹر سائیکل کے ساتھ باندھی جاتی ہے اور حادثے کی صورت میں جب ڈوری کھنچتی ہے تو فوری طور پر سوار کی ٹانگوں کے اوپر ایئربیگز میں ہوا بھر جاتی ہے اور وہ چوٹ سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ ڈیزائنر نے بتایا کہ جینز سے قبل ایئربیگ جیکٹ پوری دنیا میں استعمال کی جارہی ہے اور لوگ اس سے استفادہ کررہے ہیں، تاہم ایئربیگ والی جینز فوری طور پر سویڈن میں ہی دستیاب ہے، لیکن امید ہے کہ 2022ء تک یہ جینز پوری دنیا میں میسر ہوگی، اس حوالے سے یورپی یونین کے ہیلتھ اینڈ سیفٹی اسٹینڈرڈز کے مطابق بنانے پر کام کررہے ہیں۔