حضرت عمرو بن مرہّ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے معاملات سونپے اور وہ ان کی ضروریات اور فقرو احتیاج کی خبر گیری کے بجائے ان سے چھپ کر بیٹھ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرورتوں اور فقر و احتیاج کی خبر گیری کے بجائے اس سے چھپ جاتا ہے‘‘۔ یہ سن کر حضرت معاویہؓ نے لوگوں کی ضروریات کی خبرگیری کے لیے ایک آدمی مقرر کردیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ ص 324، باب ماعلی الولاۃ من التیسیر بحوالہ ابودائودؒ، ترمذی)
غالباً اسی واقعے کی تفصیل امام بغویؒ نے ابوقیسؒ کے حوالے سے نقل کی ہے کہ حضرت معاویہؓ نے ہر قبیلے میں ایک آدمی مقرر کردیا تھا۔ چنانچہ ہمارے قبیلے میں ابو یحییٰ نامی ایک شخص ہر روز صبح کے وقت تمام مقامات پر گھومتا اور منادی کرتا کہ ’’کیا آج رات تمہارے یہاں کوئی پیدا ہوا ہے؟ کیا آج رات کوئی حادثہ پیش آیا ہے؟ کیا کوئی نیا شخص قبیلے میں داخل ہوا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں لوگ آآکر بتاتے کہ فلاں شخص یمن سے بیوی بچوں سمیت آگیا ہے۔ جب یہ شخص پورے قبیلے سے فارغ ہوجاتا تو دیوانِ بیت المال میں جاتا اور ان تمام نئے لوگوں کے نام دیوان میں درج کرادیتا۔ (ابن تیمیہؒ ،منہاج السنہ، ص 185، ج 3 بولاق مصر 1322ھ)
(”تراشے“۔ مفتی محمد تقی عثمانی)
برائی کی جڑ
ایک آدمی دن رات مخلوقِ خدا کو اذیت دینے کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا۔ ایک دن اسے شرارت سوجھی، اس نے اپنے گھر کے سامنے راستے میں لمبے لمبے کانٹوں والی ایک جھاڑی لگادی۔ چند دنوں کے اندر اندر یہ جھاڑی خاصی بڑھ گئی۔ ہرچند لوگ اس سے بچ بچا کر نکلتے، لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی کانٹا پائوں کو زخمی کردیتا اور کسی کا دامن تار تار کردیتا۔ لوگوں نے اس کو بہت ملامت کی کہ تُو نے اپنے گھر کے سامنے یہ جھاڑی کیوں اگنے دی؟ اب تو تکلیف کی انتہا ہوچکی ہے، اسے اکھیڑ دے۔ اس نے مسکرا کر بڑی نرمی کے ساتھ جواب دیا: ٹھیک ہے اکھیڑ دوں گا۔ چند دن پھر اسی طرح گزر گئے، یہاں تک کہ اب جھاڑی نے آدھا راستہ گھیر لیا۔ لوگوں نے مجبور ہوکر حاکمِ وقت کو اس کی شکایت کی۔ اس نے فوراً اس شخص کو بلایا، اسے برا بھلا کہا، پھر سختی سے حکم دیا کہ ابھی جاکر جھاڑی کو اکھاڑ دے۔
اس نے عرض کیا: ابھی حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ وہ حاکمِ وقت سے وعدہ کرکے چلا آیا لیکن جھاڑی پھر بھی نہ اکھیڑی۔ اگر کوئی اسے اس طرف توجہ دلاتا تو کہہ دیتا کہ آج فرصت نہیں کل یہ کام کردوں گا۔ اسی کل کل پر ٹالنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن جھاڑی اتنی بڑھ گئی کہ اب اس کا ہٹانا آسان نہ رہا۔ یہ درخت مضبوط ہوگیا اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہوگئیں کہ پھر وہ ظالم اس کو اکھیڑنے سے عاجز ہوگیا۔ درخت جوان ہوگیا اور اس کو اکھاڑنے والا کمزور ہوتا گیا۔
درسِ حیات: اسی طرح ہماری بری عادتیں اور گناہ کے کام ہیں۔ ان کی اصلاح میں جس قدر دیر کی جائے گی، ان کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جائیں گی۔ برائی کو دور کرنے میں سستی سے کام مت لے۔ ہر بری عادت کو خاردار جھاڑی سمجھ۔
اے! بے حس، کاہل اٹھ اور اپنی پرانی بری عادتوں کی اصلاح کے لیے تلوار اٹھا اور مردانہ وار حملہ کر، اور مثل حضرت علیؓ کے اس دروازۂ خیبر کو اکھاڑ دے۔
(”حکایات رومی“۔۔۔مولانا جلال الدین رومیؒ)
احترامِ استاد
خلیفہ واثق عباسی (842۔ 847ء) کا یہ دستور تھا کہ جب بھی اس کا اتالیق محمدبن زیاد دربار میں آتا تو اسے اپنی مسند پر بٹھاتا اور خود اس کے قدموں میں بیٹھ جاتا۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہاکہ یہ وہ پہلا انسان ہے جس نے میری زبان کو اللہ کے ذکر اور مجھے اللہ کی رحمت سے آشنا کیا تھا۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ اکتوبر 2018ء)