ایک اور فصل پک چکی

رحمتہُ للعالمینﷺ کو اپنی امّت کی جتنی فکر تھی، اتنی کسی بھی اور چیز کی نہ تھی۔ دائم اس کے لیے دعائیں کرتے اور دائم اس کے لیے پروردگار سے رعایت مانگتے۔ بایں ہمہ، واضح کردیا کہ اقوام کے عروج و زوال کا پیمانہ کیا ہے۔ فرمایا: ”تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں“۔ فرمایا: ”برائی سے جب روکا نہ جائے گا، بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کردیے جائیں گے اور وہ تمہیں سخت ترین ایذا دیں گے۔ تب تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی“۔ نکتہ آشکار ہے کہ فروغ و فلاح فقط زندہ معاشرے کے لیے ہے، ظلم کی جو مزاحمت کرسکے۔ ایک نئے جہان کی بشارت دیتے ہوئے اقبالؔ نے یہ کہا تھا: ۔

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

اسد اللہ خاں غالبؔ ایک مرگ آشنا تہذیب کے نوحہ گر تھے، چنانچہ تصویر یوں کھینچی: ۔

پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

سرکارﷺ نے قانون کا پرچم سرفراز کیا۔ فرمایا: ”وہ اقوام برباد ہوئیں، جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقت وروں کو معاف کردیا کرتی تھیں“۔ تین چار آدمی ہیں اور بائیس کروڑ انسانوں کو ریوڑ کی طرح ہانک رہے ہیں۔ ارشاد یہ تھا: ”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ابن خطابؓ ہوتے“۔ مسندِ اقتدار پر براجمان، مسجدِ نبوی کے منبر پر کھڑے فاروقِ اعظم ؓنے ایک فرمان جاری کیا تو ایک بڑھیا نے کہا: ”آپ کا فرمان قرآنِ کریم کے مطابق نہیں“۔ امیرالمومنینؓ نے سر جھکا دیا، غلطی کا اعتراف کیا اور یہ کہا: ”بڑھیا نے عمر کو ہلاک ہونے سے بچا لیا“۔ صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کے انتخابات ہونا تھے۔ قاعدہ یہ تھا کہ پڑوس کے صوبے کا صدر نگرانی کرے گا۔ نواب افتخار احمد ممدوٹ پنجاب مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ پیر صاحب مانکی شریف کی قیادت میں سرحد لیگ کا ایک وفد قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ کہا: ہمارے ہاں شورش بہت ہے۔ نواب ممدوٹ بہت ہی شریف آدمی ہیں، یہ کام ان کے بس کا نہیں۔ فرمایا: مسلم لیگ کے منشور میں کیا لکھا ہے؟ پھر ارشاد کیا: کوشش کیجیے گا کہ اگلی بار کوئی غنڈہ پنجاب لیگ کا صدر ہوجائے۔ “I was Quaid’s A.D.C کے مصنف عطا ربانی نے لکھا ہے: حکم یہ تھا کہ کھانے کی میز پر جتنے مہمان ہوں، اتنے ہی سیب رکھے جائیں۔ ایک بار چار کے بجائے پانچ تھے۔ جواب طلبی کا خوف عملے پر طاری رہا۔ عمر بھر بہترین لباس پہنا۔ سرکاری رقم سے شب خوابی کا لباس سلوانے کا مرحلہ آیا تو فرمایا: کھدّر۔ قائداعظم کا تو ذکر ہی کیا، صدر غلام اسحٰق خان کو یاد کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ اکلوتے بیٹے کو اجازت نہ تھی کہ سرکاری دفتر سے استفادہ کرے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ریگ زاروں میں، آئل رِگ چلانے کی سخت ترین مشقت کرتا رہا۔ اتنی سخت کہ ہر پندرہ دن کے بعد دو ہفتے کی رخصت دی جاتی۔ سادگی ایسی کہ جب اس ایوان میں داخل ہوئے تو مہمان نوازی کے اخراجات ایک لاکھ روپے روزانہ تھے۔ فائل منگوائی اور اس پر لکھا “Not more then one thousand rupees a day”کتنے اعلیٰ مناصب پہ فائز رہے، اسلام آباد میں ایک پلاٹ تک نہ تھا۔ ناچیز نے پوچھا: پشاورکا گھر آپ نے کب بنایا تھا؟ 1946ء میں پلاٹ کی خریداری سے لے کر حاشیے پر بنی دکانوں تک، پوری تفصیل بیان کی۔ مخالفین کی کردارکُشی پر تلے رہنے والے شریف خاندان کے بارے میں بارہا پوچھا۔ فقط یہ کہا: ان کی اہلیت بھی لوگوں نے دیکھ لی اور دیانت بھی۔ کوئی ایٹمی سائنس دان ایسا نہ تھا جس سے ملاقات ہوئی اور اس نے معلومات میں کچھ نہ کچھ اضافہ نہ کیا ہو۔ کتنی ہی بار مرحوم سے سوال کیا مگر ایک مسلسل خاموشی۔ بہت اصرار کیا تو لہجے میں گداز اتر آیا اور یہ کہا: کبھی ہم اس کے امین تھے، آج کچھ اور لوگ اس کے امین ہیں۔ ایٹمی پروگرام کے خدمت گزار کو داد وصول کرنے کی ذرا سی آرزو بھی نہ تھی۔ میاں محمد نوازشریف سمیت، ہر ایک تحسین کے لیے فریادی رہا، مگر وہ خاموش۔ بندوں سے نہیں، وہ اللہ سے اجر کے امیدوار تھے۔
(ہارون رشید۔ روزنامہ 92۔26جنوری2021ء)

دیارِ مجدد سے داتا نگر تک

قیام پاکستان کے بعد مختلف شعبہ ہائے حیات کی اہم شخصیات نے اپنی مجموعی زندگی خصوصاً پیشے اور مخصوص معاشرتی مقام کے حوالے سے دلچسپ اور بہت مفید سوانح عمریاں تحریر کرکے نئی مملکت کے قومی ادب میں قابل قدر اضافہ کیا۔ ابلاغیات کے طالب علم کی حیثیت سے میرا نوٹس ہے کہ مسلم صحافت نے قیام پاکستان کی تحریک میں جو تاریخ ساز کردار ادا کیا، پھر جس طرح حصولِ مملکت کے بعد ہماری صحافت دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کے مقابل مسلسل سیاسی عدم استحکام اور آمرانہ ادوار کے باوجود اپنے زورِ قلم اور مسلسل جدوجہد سے ملک میں فروغ اور آزادیِ صحافت کے مشکل اہداف حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی، اس کی تاریخ مرتب کرنے کا کوئی رسمی اہتمام ہوا، نہ خود صحافیوں نے اس پر زیادہ توجہ دی۔ جو تحقیقی کام یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے ابلاغیات میں ہوا، وہ ایک تو اس موضوع پر محدود بھی ہے، اور جو ہوا وہ فقط حوالہ جاتی تحقیق کے لیے لائبریریوں میں تو موجود ہے لیکن پاپولر ہوکر صحیح معنوں میں صحافتی تاریخ نہ بنا۔ جناب جمیل اطہر قاضی کا شمار پاکستان کے بہت کہنہ مشق، پیشے سے بھرپور لگن رکھنے والے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے عہدوں پر رہے، دونوں قومی فورمز سے انہوں نے وقت کی میڈیا انڈسٹری اور پیشہ صحافت کی آزادی خصوصاً علاقائی صحافت کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ جمیل صاحب نے ایک بڑی ضرورت یہ پوری کی اور کررہے ہیں کہ انہوں نے مختلف حوالوں سے ایک نہیں تین خود نوشت سوانح عمریاں مرتب کی ہیں جو ہر صاحب علم و ادب خصوصاً کارکن صحافیوں، صحافت کے طالب علموں اور علاقائی اخبارات کے مالکان اور اداروں کے لیے بہت مفید اور سبق آموز ہیں۔
(ڈاکٹر مجاہد منصوری- جنگ-26جنوری2021ء)