لاپتا اسلامی جمہوریہ پاکستان

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو ظلم اور جو جبر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ’’انقلابی گفتگو‘‘ پر مائل کررہا ہے وہ ظلم اور وہ جبر عوام میں کیسے جذبات پیدا کررہا ہوگا؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جبر کا یہ عالم ہے کہ لاپتا افراد کے مسئلے پر ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی ’’انقلابیوں‘‘ کی طرح کلام کرنے لگے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب محسن اختر کیانی نے لاپتا شہری عمر عبداللہ کی عدم بازیابی پر ریمارکس دیتے ہوئے کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے۔ جسٹس صاحب نے کہا:
’’لوگ ہتھیار اٹھالیں گے۔ نظام کو آگ لگادیں گے۔ ہر ماہ چار سے پانچ شہری لاپتا ہوجاتے ہیں۔ عہدے انجوائے کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ کام نہیں کرسکتے تو گھر جائو۔ 7 دن کے اندر جواب نہ آیا تو ذمے داروں کو چھے ماہ کے لیے جیل بھیج دوں گا۔ لاپتا شہری کی فیملی کھڑی ہے، اسے کیا جواب دوں؟ ادارے ناکام ہوگئے، جبری گمشدگی کمیشن ایک مذاق ہے‘‘۔
(روزنامہ جسارت کراچی، 20 جنوری 2021ء)
اس ’’انقلابیت‘‘ کے سلسلے میں جسٹس محسن کیانی تنہا نہیں ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے بھی لاپتا افراد کا ایک مقدمہ سنتے ہوئے تقریباً جسٹس محسن کیانی کی طرح ’’انقلابیت‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا:۔
’’سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کیا کررہے ہیں؟ اب افسران کو جیلوں میں ڈالیں گے۔ کسی ایک کیس کو مثال بنانا ہوگا۔ ہمارے پاس غفلت برتنے والوں کو جیل بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لاپتا افراد واپس نہ آئے تو سیکریٹری دفاع و سیکریٹری داخلہ کو جیل بھیج دیں گے‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 21 جنوری 2021ء)
لاپتا افراد کا معاملہ ایک ہولناک مسئلہ ہے۔ سیکڑوں افراد برسوں سے لاپتا ہیں۔ وہ زندہ ہیں یا مر گئے کسی کو معلوم نہیں۔ انسان مر جاتا ہے تو لواحقین اور ورثا کو کچھ عرصے بعد صبر آجاتا ہے، لیکن انسان لاپتا ہو تو اُس کے متعلقین ہر لمحہ مرتے ہیں۔ لاپتا افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے، ان پر مقدمہ چلنا چاہیے، انہیں عدالتوں سے سزا ملنی چاہیے۔ لیکن ریاستی ادارے لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش نہیں کررہے، ان پر مقدمے نہیں چلوا رہے، انہیں سزائیں نہیں دلوا رہے۔ وہ لاپتا افراد کو صرف ’’لاپتا‘‘ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے، یہ جبر کی انتہا ہے، یہ ریاست کی جڑیں کھودنے کے مترادف ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے: معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو ظلم اور جو جبر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ’’انقلابی گفتگو‘‘ پر مائل کررہا ہے وہ ظلم اور وہ جبر عوام میں کیسے جذبات پیدا کررہا ہوگا؟ لیکن مسئلہ صرف ’’لاپتا افراد‘‘ کا تھوڑی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں درجنوں اہم چیزیں ’’لاپتا‘‘ ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں کسی ملک کے آدھے حصے کے اچانک ’’لاپتا‘‘ ہونے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ مگر 16 دسمبر 1971ء کی صبح پاکستانی قوم کی آنکھ کھلی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا آدھا ملک ’’لاپتا‘‘ ہوگیا ہے۔ پہلے اس کے جس آدھے ملک کا نام ’’مشرقی پاکستان‘‘ تھا وہ اچانک ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا ہے۔ لاپتا ہونے کے عمل میں ’’اچانک پن‘‘ پایا جاتا ہے۔ اچانک پن انسانوں کو حیران کردیتا ہے۔ چنانچہ 16 دسمبر 1971ء کو کروڑوں پاکستانی آدھے ملک کے لاپتا ہونے پر حیران رہ گئے۔ انہیں یاد تھا کہ جنرل نیازی نے ایک ماہ پہلے ہی کہا تھا کہ بھارتی فوجیں ان کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہوسکیں گی۔ دس پندرہ دن پہلے ہی جنرل یحییٰ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ قوم پریشان نہ ہو ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر آدھا پاکستان اچانک لاپتا ہوگیا اور جنرل نیازی کی لاش کا دور دور تک نام و نشان نہ ملتا تھا، بلکہ تاریخی شواہد کے مطابق وہ ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا کر ہنسا رہے تھے۔
16 دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ کے ’’مضبوط ہاتھوں‘‘ کا دیدار بھی ممکن نہ تھا۔ 16 دسمبر 1971ء نے بتایا کہ دراصل ان کے ہاتھ ہی نہ تھے۔ آدھا ملک لاپتا ہوگیا اور آج تک اس کی ایف آئی آر ہی نہیں کاٹی گئی۔ کسی عدالت میں ’’لاپتا مشرقی پاکستان‘‘ کا مقدمہ زیر غور نہ آسکا۔ ملک کو لاپتا کرنے والے کسی مجرم کو آج تک سزا نہیں ہوسکی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم ابھی تک لاپتا پاکستان کے ذمے داروں کا تعین ہی نہیں کرسکے۔ معلوم نہیں عالمِ بالا میں مصورِ پاکستان علامہ اقبال اور بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو یہ بات بتائی گئی ہوگی یا نہیں کہ آپ کا آدھا ملک لاپتا ہوگیا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف مشرقی پاکستان کے لاپتا ہوجانے کا تھوڑی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تو نظریہ بھی لاپتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظریہ مذہب تھا۔ اسلام تھا۔ خدا اور اس کے رسولؐ سے تعلق تھا۔ ذرا دیکھیے تو مصورِ پاکستان نے اسلام اور رسولؐ کے ساتھ تعلق کے حوالے سے کیا کہہ رکھا ہے۔ اقبال نے کہا ہے:۔

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
……٭٭٭……
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی ملت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
……٭٭٭……
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظِ حرم کا اک ثمر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اُڑ گیا دنیا سے تُو مانندِ خاکِ رہ گزر
……٭٭٭……
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
……٭٭٭……
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدرِؓ کرار بھی ہے
……٭٭٭……
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
……٭٭٭……
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یہ اقبال ہیں، بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ 26 نومبر 1945ء کو انہوں نے پشاور میں فرمایا:۔
’’آپ نے سپاس نامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان کا قانون (آئین) کیا ہوگا؟ یہ ایک بے معنی سوال ہے۔ مسلمان ایک خدا، ایک نبیؐ اور ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے فقط یہی قانون ہے۔ اسلام ہی پاکستان کا بنیادی قانون ہوگا، اور اسلام کے خلاف کوئی قانون پاکستان میں نافذ نہیں کیا جائے گا‘‘۔
(Pakistan Journal of History and Culture Vol, XXIII/1 2002 Page-54
قائداعظم نے کراچی میں مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دسمبر 1943ء کو فرمایا:۔
’’اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ وہاں قرآنی نظامِ حکومت قائم ہو۔ یہ ایک انقلاب ہوگا، یہ ایک نشاۃ ثانیہ ہوگی، یہ ایک حیاتِ نو ہوگی جس میں خوابیدہ اسلامی تصورات ایک مرتبہ پھر جاگیں گے، اور حیاتِ اسلامی ایک مرتبہ پھر کروٹ لے گی۔ پلاننگ کمیٹی آپ کے لیے جو دستوری اور سیاسی نظام مرتب کرے گی اس کی بنیادیں اگر کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ پر نہیں ہیں تو وہ شیطانی سیاست ہے اور ہم ایسی سیاست سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں‘‘۔
اسی طرح قائداعظم نے 24 نومبر 1945ء کو پشاور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور ایک نبیؐ کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگ انہیں ایک پلیٹ فارم پر اسلامی پرچم تلے منظم کرنے کی جدوجہد کررہی ہے‘‘۔
(Jamaluddin Ahmed Speeches and writing of Mr Jinnah-vol-2- Page 239)
19 مارچ 1945ء کو مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:۔
’’میں کمیونسٹ پارٹی کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں سے دور رہے۔ وہ لیگی پرچم کے سوا کسی پرچم کے خواہاں نہیں رہے۔ اسلام ہی ان کا رہبر اور مکمل نظامِ حیات ہے۔ وہ کوئی ازم نہیں چاہتے‘‘۔
(Jamaluddin Ahmed Speeches and writing of Mr Jinnah-vol-2- Page 24)
اقبال اور قائداعظم کے خیالات سے ثابت ہے کہ اسلام کے بغیر پاکستان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے حکومتی اور ریاستی زندگی سے مذہب کو ’’لاپتا‘‘ کیا ہوا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے، اور ہمارا حکمران طبقہ سود کے بغیر پاکستان کی معاشی اور مالیاتی زندگی کا تصور نہیں کرسکتا۔ ہماری سیاست میں مذہب آٹے میں نمک کے برابر بھی موجود نہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام مذہب سے عاری ہے۔ ہماری عدالتیں قرآن و سنت کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں۔ غرضیکہ اسلام ہماری ریاستی زندگی میں کہیں موجود نہیں۔ وہ لاپتا ہے اور اس کی گمشدگی کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر کہیں درج نہیں۔ مذہب کی گمشدگی کا مقدمہ کسی عدالت میں موجود نہیں۔ کوئی جج ناراض ہوکر یہ نہیں کہتا کہ ہم مذہب کو لاپتا کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پورا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی ’’لاپتا‘‘ ہے۔
اقبال کو ہم مصورِ پاکستان کہتے ہیں۔ انہیں شاعرِ مشرق قرار دیتے ہیں۔ انہیں حکیم الامت باور کرایا جاتا ہے۔ اقبال ہمارے نصاب کا حصہ ہیں، اقبال ہمارے اخبارات میں ہیں، اقبال ہمارے ریڈیو پر ہیں، اقبال ٹیلی وژن پر ہیں، مگر ہماری اجتماعی اور ریاستی زندگی پر اقبال کے ایک شعر کیا ایک مصرعے کا بھی کوئی اثر نہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی جنرل، اقبال کا شاہین نہیں۔ وطنِ عزیز میں کسی بڑے سیاست دان کو اقبال کا مردِ مومن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملک کا کوئی بڑا لکھنے والا اقبال کی طرح امت کے غم میں ڈوبا ہوا نہیں ہے۔ اس طرح اقبال ہر جگہ ہیں اور اقبال کہیں نہیں ہیں۔ اقبال ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی سے ’’لاپتا‘‘ ہیں۔ ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر بھی کہیں درج نہیں۔ ان کے لاپتا ہونے کا معاملہ کسی عدالت میں زیر بحث نہیں۔
قائداعظم بانیِ پاکستان ہیں۔ ان کی جدوجہد نے عہدِ حاضر میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت خلق کی۔ ہم ہر سال ان کا یومِ پیدائش اور یومِ وفات تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں۔ ہم انہیں بابائے قوم کہتے ہیں۔ مگر قائداعظم کا وژن پاکستان کی اجتماعی اور ریاستی زندگی میں کہیں موجود نہیں۔ ان کا وژن عرصے سے لاپتا ہے۔ اس وژن کی گمشدگی کی بھی کہیں ایف آئی آر درج نہیں۔ کسی عدالت میں اس وژن کا مقدمہ زیر غور نہیں۔ کوئی جج یہ نہیں کہتا کہ ہم قائداعظم کے وژن کو لاپتا کرنے والوں کو دیکھ لیں گے۔ انہیں جیل میں ڈال دیں گے۔
آئین قوم کی اجتماعی آرزوئوں کا مظہر ہوتا ہے۔ آئین قوم کے نصب العین کا بیان ہوتا ہے۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے آج تک اسلام کو آئین سے نکل کر مؤثر نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے آئین کو اسلام کا میوزیم بناکر رکھ دیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک آئین کی کوئی اوقات ہی نہیں۔ فوجی حکمران تواتر کے ساتھ آئین کو معطل اور منسوخ کرتے رہے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں آئین کو اپنے بوٹوں سے کچل دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین چند صفحات کی ایک دستاویز کے سوا کیا ہے؟ سول حکمران بھی آئین کی خلاف ورزیاں کرکے اس پر تھوکتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری سیاسی اور ریاستی زندگی میں آئین بھی کہیں موجود نہیں۔ وہ بھی مدتوں سے ’’لاپتا‘‘ ہے۔ آئین کی گمشدگی کے سلسلے میں بھی آج تک کوئی ایف آئی آر نہیں کٹی۔ اس کی گمشدگی بھی کسی عدالت میں مقدمہ بن کر زیر بحث نہیں آئی۔
ہمارے عہد کو جمہوریت کا عہد کہا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں جمہوریت کی ’’پوجا‘‘ عام ہے۔ پاکستان میں ساری جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ہمارے سیاسی نظام کا ’’لاپتا بچہ‘‘ ہے۔ پیپلزپارٹی جمہوریت جمہوریت کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی خود جمہوری نہیں، وہ صرف بھٹو خاندان کی ”باندی “ہے۔ نواز لیگ جمہوریت جمہوریت کرتی رہتی ہے مگر نواز لیگ خود جمہوری نہیں، وہ صرف شریف خاندان کی ’’لونڈی‘‘ ہے۔ تحریک انصاف بھی جمہوریت کے ترانے گاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف صرف عمران خان کی ’’مِلک‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے جمہوریت کی گمشدگی کے سلسلے میں بھی کہیں کوئی ایف آئی آر درج نہیں، اور جمہوریت کی بازیافت کا مقدمہ کسی عدالت میں زیر غور نہیں۔