امتیازی احتساب کے باعث ہر وہ شخص جو قابلِ احتساب نظر آتا تھا اب مظلوم نظر آرہا ہے
ملک کے اپوزیشن کیمپ کی جانب سے مسلسل یہ بات کہی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت لائی گئی ہے۔ ان حلقوں کے جذبات میں ذرا سخت الفاظ استعمال کیے جائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ منصوبہ بندی کے ذریعے اسے مسلط کیا گیا ہے۔ وفاق میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے، اپوزیشن مسلسل وزیراعظم کے خلاف اپنا مؤقف اور بیانیہ آگے بڑھا رہی ہے، تاہم مسلم لیگ(عوامی) کے شیخ رشید احمد کے سوا حکومت کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا جارہا۔ سندھ کے حالیہ ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کی کامیابی پر وفاق میں تحریک انصاف کے اتحادی سیاسی الائنس کے رہنما ارباب غلام رحیم جو تحریک انصاف اور اتحادیوں کے مشترکہ امیدوار تھے وہ پیپلزپارٹی کے ہاتھوں اپنی شکست کے بعد پھٹ پڑے ہیں، اور تحریک انصاف کی قیادت سے تقاضا کیا ہے کہ وہ ہوش میں آئے۔ تحریک انصاف کی قیادت پر ارباب غلام رحیم کا عدم اعتماد اور ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کی کامیابی سندھ کے سیاسی مستقبل کے نقشے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ملک میں حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، یہ حکومت ووٹ سے آئی ہو یا لائی گئی ہو، عوام چاہتے ہیں کہ حکومت ان کے بنیادی مسائل حل کرے، عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکومت منتخب ہوئی ہے یا لائی گئی ہے۔ ماضی کی تمام اپوزیشن تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو مشترکہ رائے یہی ہوگی کہ ملک میں جرائم کی شرح اور مہنگائی بڑھتی رہے تو عوام اپوزیشن کے بیانیے کے ساتھ جاکھڑے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ہر شعبے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ امن و امان کا عالم یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں موٹر سائیکلیں چھینے جانے، راہزنی، اسٹریٹ کرائمز کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ جرائم صوبوں کے ہر بڑے شہر میں مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ جرائم اور مہنگائی میں اضافہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ تلخ سچ یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے، کاروباری طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ وہ اپنا خسارہ صارف سے پورا کرلیتے ہیں۔ امن و امان کی خراب صورت حال، مہنگائی، گراں فروشی، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کا بڑھتا اور پھیلتا ہوا دائرہ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا کام آسان کررہا ہے۔ پی ڈی ایم سمیت ملک کی دیگر اپوزیشن جماعتیں ابھی تک حکومت کے خلاف اپنی تحریک پُرامن بنائے ہوئے ہیں، خوف اس بات کا ہے کہ جرائم اور مہنگائی کے ستائے عوام کہیں خود ہی تحریک نہ بن جائیں، کیونکہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ پیٹرول کے بعد بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے ان پر کیا گزرے گی، اس بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت نے بجلی ایک روپیہ 95 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کرنے کی وجہ سابق حکومت کو قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بجلی کے مہنگے کارخانے لگا کر وہ ہمارے لیے 227 ارب روپے کی بارودی سرنگیں بچھا گئی، کیپیسٹی پے منٹ کی ادائیگی کی رقم میں 218 ارب روپے یعنی 2 روپے 18پیسے کا بجلی کی قیمت میں اضافہ ہونا تھا، مجبوراً ایک روپے 95 پیسے تک اضافہ کیا گیاہے، 2019ء میں 227 ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا تو بجلی کی قیمت میں 2 روپے 61 پیسے کا اضافہ ہونا تھا، لیکن حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ عوام پر یہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔
حکومت کا مؤقف اپنی جگہ، جس طرح حکومت کام کررہی ہے اسے دس سال بھی دے دیے جائیں تب بھی قصور ماضی کی حکومتوں کا ہی شمار ہوگا۔ سابق سیکرٹری وقار مسعود ڈیڑھ سال قبل ایک تقریب میں یہ بات کرچکے ہیں کہ مہنگائی، بیرونی قرض ہر حکومت کا مسئلہ رہا ہے لیکن تحریک انصاف نے کچھ زیادہ ہی شور مچایا ہے۔ وہ آج کل حکومت کے مشیر ہیں، ان کی صلاحیتوں سے کس قدر استفادہ کیا جارہا ہے، اس بارے میں وہ خود ہی سامنے آکر بتائیں تو بہتر ہوگا۔ بجلی کے نرخوں پر مسلم لیگ(ن) پر ملبہ ڈالنا حکومت کے لیے بہت آسان ہے، تاہم حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کو پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کا حجم بہت کم ملا تھا، اب اس میں 14سو ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ماضی میں لائن لاسز 21 فیصد سے 18 فیصد کی سطح پر لائے گئے تھے، جو اب بڑھ کر ساڑھے 19فیصد پر پہنچ چکے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سارا بوجھ صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ماضی میں حکومتوں نے عجلت میں ہزاروں میگا واٹ کے جو منصوبے بنائے اُن کا 54 فیصد دارومدار انتہائی مہنگے ذرائع پر ہے، جس میں فرنس آئل 16فیصد، قدرتی گیس 12 فیصد، ایل این جی سے 26فیصد بجلی پیدا ہورہی ہے، جبکہ ہائیڈل پاور 27فیصد، ہوا اور شمسی توانائی سے 5 فیصد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ اب سابق معاہدے ختم کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی پانی، ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبے فوری طور پر تیار ہوسکتے ہیں۔ عالمی بینک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں مشورہ دیا ہے کہ پاکستان ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا کی جانے والی بجلی کی استعداد بڑھا کر آئندہ 20 سال کے دوران پانچ ارب ڈالر بچا سکتا ہے۔ حکومت کا مؤقف تسلیم کرلیا جائے تو بھی اب ڈھائی سال کے بعد غلط اقتصادی، مالیاتی اور توانائی سے متعلق خرابی کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈالنے کی پالیسی سے صارفین مطمئن نہیں ہوسکتے۔ عوام نے تو غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل سے خلاصی اور اپنے اچھے مستقبل کے لیے عمران خان سے توقعات وابستہ کی تھیں۔ ریلیف نہ ملنے سے عوام راندۂ درگاہ ہوکر عملاً زندہ درگور ہورہے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور ادویہ کے نرخوں میں آئے روز ہونے والے اضافے کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر مطمئن ہونے سے کام نہیں چلے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے عوام کو نوید سنائی تھی کہ بتدریج عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ مگر یہ سارے دعوے نقش برآب ثابت ہوئے، اور کم و بیش ہر ماہ فیول چارجز کے نام پر عوام پر بجلی کے بم گرائے جارہے ہیں۔ بجلی کے نرخ دو روپے تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے عوام کے جذبات کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے کہ اگر نواز لیگ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھا جاتا تو ہمیں بجلی کے نرخ 8 سے 9 روپے فی یونٹ بڑھانا پڑتے۔ حد تو یہ ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی آئے روز اشیائے خوردنی کے نرخوں میں اضافہ مہنگائی کا ایک نیا کوہِ گراں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے یوٹیلٹی اسٹورز کو جو اربوں روپے ریلیف پیکیجز کی مد میں فراہم کیے جن کی بنیاد پر عوام کو مہنگائی میں ریلیف کا مژدہ سنایا جاتا رہا ہے، اس خطیر رقم کا کیا مصرف ہوا؟ تحریک انصاف کا بنیادی بیانیہ یہی تھا کہ وہ بے رحم احتساب کرے گی، مگر وہ اپنے بیانیے میں ناکام نظر آئی ہے، بلکہ امتیازی احتساب کے باعث ہر وہ شخص جو قابلِ احتساب نظر آتا تھا اب مظلوم نظر آرہا ہے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ براڈ شیٹ کے کھولے ہوئے پنڈورا باکس سے نئی نئی بلائیں باہر نکل رہی ہیں۔ براڈ شیٹ کے حق میں لندن کے ثالث سر انتھونی ایونز نے جو ایوارڈ دیا، اور پھر لندن ہائی کورٹ کے حکم پر جتنی سرعت سے28 ملین ڈالر کی ادائیگی کی گئی اس کی پھرتیاں بتاتی ہیں کہ کچھ لوگوں کو شاید یہ امید بھی تھی کہ اُنہیں اس رقم میں سے کمیشن ملے گا۔ کاوہ موسوی کا انٹرویو ریکارڈ پر ہے کہ
’’جب ہم حکومتِ پاکستان سے بات کررہے تھے ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے رشوت مانگی تو میں حیران رہ گیا اور فوری ردعمل کے طور پر مَیں نے ہوٹل کے ویٹر کو بلایا اور اس سے کہا کہ مَیں نے اس شخص کو جو کافی پلائی ہے اس کا بِل اسی سے وصول کرو۔ نیب نے فراڈ ڈھونڈنے والوں کے ساتھ فراڈ کیا، انسدادِ بدعنوانی کی تاریخ میں کسی عدالت کو یہ کہتے نہیں سنا کہ حکومت نے ایک ایسی کمپنی سے پیسے چرانے کی کوشش کی جس کی خدمات اس نے خود پیسے نکلوانے کے لیے حاصل کی تھیں۔ ہر حکومت میں بے وقوف لوگ ہوتے ہیں، میرا عمران خان کو مشورہ ہے کہ اس بے وقوف آدمی کو وزیر کے عہدے سے ہٹا دیں۔‘‘
ثالث کے ایوارڈ کے بعد حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے انداز میں پوائنٹ اسکورنگ میں لگی ہیں، حالانکہ اس ایوارڈ نے سب کے چہرے پر ہی کالک نہیں مَلی، خزانے کو بھی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ نہ جانے کس طرح ایک شخص جیری جیمز پہلے ہی حکومت سے پندرہ لاکھ ڈالر لے چکا تھا اور اب موسوی نے28 ملین ڈالر کھرے کرلیے ہیں اور ابھی اس کے مطالبات ختم نہیں ہوئے، وہ باقی ماندہ رقم مع سود وصول کرنا چاہتا ہے۔ اب تک مجموعی طور پر حکومت ِ پاکستان 5 ارب روپے کے لگ بھگ ادا کرچکی، اور اگر مزید ادائیگی کرنا پڑ گئی تو شاید یہ رقم8 ارب روپے سے بھی تجاوز کرجائے۔ نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ 2000ء میں کیا تھا، اب اس معاہدے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اور خاص طور پر اس کی جو شق نمبر 4 ہے اس کی عبارت پڑھنے کے لائق ہے۔ اس ناقص تحریر کا تمام تر فائدہ براڈ شیٹ نے اٹھایا اور سارے کا سارا نقصان پاکستان کو ہوا۔ یہ شق معاہدے کو ناقابل ِ تنسیخ بناتی ہے۔ معاہدے کی شق نمبر4 میں کہا گیا تھا کہ جن رقوم اور جائدادوں کا سراغ لگایا جائے گا وہ بیرونِ ملک ہوں یا اندرونِ ملک، خواہ وہ نیب کی اپنی کوششوں سے سامنے آئیں اور ملزموںسے اس کی ڈیل ہو، اس کا20 فیصد کمپنی کو ملے گا۔ اس شق کی جو وضاحت نیب کرتا رہا کہ اندرونِ ملک جائدادوں سے کمپنی کو کچھ نہیں ملنا تھا وہ مؤقف ثالث نے قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شق میں اس حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے یا تو نااہلی کا نتیجہ ہے یا پھر کسی نے جان بوجھ کر یہ کمزوری چھوڑ دی تھی کہ اس کی بنیاد پر کسی وقت فائدہ اٹھایا جاسکے۔ موسوی نے ہوٹل میں کافی کا جو واقعہ بیان کیا ہے وہ بھی اس پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ جب نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا اُس وقت اس کمپنی کو قائم ہوئے محض22 دن ہوئے تھے، حقیقت یہ ہے کہ کمپنی کے پاس غیر قانونی جائدادوں اور اکاؤنٹس کا سراغ لگانے کے لیے کوئی مہارت سرے سے تھی ہی نہیں، ثالث کے روبرو نوازشریف کی مختلف جائدادوں کی مالیت820 ملین ڈالر بتائی گئی، اس کی بنیاد وہ اعداد و شمار ہیں جو جے آئی ٹی کی اس رپورٹ میں دیئے گئے ہیں جو نوازشریف کے خلاف مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش کی گئی، انہی اعداد و شمار کے ذریعے بیس فیصد کی اس رقم کا تعین ہونا تھا جو اثاثوں کے سراغ کی خدمت انجام دینے پر براڈ شیٹ کو ادا ہونا تھی۔ مگر ثالث نے اس جائداد کی قیمت 100ملین ڈالر لگائی اور پھر اس میں سے5ملین ڈالر منہا کرکے اس کی خالص قیمت 95ملین ڈالر کردی جس کا 20 فیصد براڈ شیٹ کو ملنا تھا، جو19 ملین ڈالر بنتا ہے۔ ثالث کے ایوارڈ میں یہ ساری تفصیلات موجود ہیں لیکن تین وفاقی وزراء نے820 ملین ڈالر کے ہندسے ہی پر اصرار کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی ہورہا ہے سیاسی مقاصد کے تحت ہورہا ہے۔ لندن میں ثالث کے سامنے نیب اور حکومت ِ پاکستان کے نمائندے نے820 ملین ڈالر کے ہندسے کو جھٹلایا، کہ اس میں بڑی غلطیاں تھیں۔
جرائم کی شرح میں اضافہ
گزشتہ دو سال کے عرصے میں ملک میں موٹرویز پر جرائم کی شرح میں 120 فیصد اضافہ ہوا ہے، چار ماہ کے وقفے کے بعد قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میںپیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق سال 2017ء اور 2018ء میں موٹرویز کے مختلف حصوں پر جرائم کے 10 واقعات رپورٹ ہوئے تھے، لیکن 2019ء اور 2020ء میں یہ تعداد بڑھ کر 22 تک پہنچ گئی۔ ملک میں موٹرویز پر جرائم کا معاملہ اُس وقت زیر بحث آیا جب 9 ستمبر2020ء کو دو بچوں کی ماں کو لاہور- سیالکوٹ موٹروے پر اس کے بچوں کی موجودگی میں ریپ کیا گیا۔ اس واقعے پر حکومت کو اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وفاقی وزیر نے موٹرویز کو مسافروں کے لیے محفوظ بنانے کے لیے حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ رات کے اندھیرے میں گشت کرنے والی گاڑیوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے، رات کے اوقات میں زیادہ جرائم والے علاقوں میں اینٹی کرائم اسکواڈ کو اسلحہ و گولہ بارود سمیت سڑکوں کے کنارے، انڈر پاسز اور فلائی اوورز کو چیک کرنے کے ضروری آلات کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے، مسافروں کو رات گئے موٹرویز پر رکنے کے مقامات کے علاوہ نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز پولیس کی گاڑیوں کے قریب رکنے کے سوا کہیں بھی غیر ضروری طور پر نہ رکنے اور ضرورت کی صورت میں فوری طور پر موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ خصوصاً رات کے اوقات میں مشتبہ گاڑیوں کی اسنیپ چیکنگ بھی کی جاتی ہے، جرائم سے بچنے کے لیے عوامی گاڑیوں کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی یقینی بنائی جارہی ہے، اور تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے)، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او)، مقامی پولیس اور ریسکیو سروسز آن بورڈ ہیں، این ایچ اے اور ایف ڈبلیو او سے درخواست کی گئی ہے کہ متعلقہ حلقوں کو سڑکوں کے کناروں سے جھاڑیاں اور گھاس پھوس صاف کرنے کی ہدایت کی جائے۔ سال2020ء میں مئی سے دسمبر تک بلوچستان میں ٹریفک حادثات میں ایک ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بنے۔ بلوچستان میں سال 2020ء کے دوران قومی شاہراہوں پر 8 ہزار 605 ٹریفک حادثات میں ایک ہزار 2 لوگ لقمہ اجل بنے، جبکہ 12 ہزار 360 لوگ زخمی ہوئے۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی (بی وائی سی ایس) کی جانب سے مرتب کردہ سال2020ء کے 8 ماہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2020ء کے ماہِ مئی میں 879 حادثات میں 152افراد جاں بحق جبکہ 1514زخمی، جون میں 949 حادثات میں 109جاں بحق جبکہ 1433 زخمی، جولائی میں 1099حادثات میں 123جاں بحق جبکہ 1462 زخمی، اگست میں 944 حادثات میں 143افراد جاں بحق جبکہ 1470زخمی، ستمبر میں 1207حادثات میں 128جاں بحق 1730زخمی، اکتوبر میں 1025حادثات میں 127افراد جاں بحق جبکہ 1388زخمی، ماہ نومبر میں 1311حادثات میں 104افراد جاں بحق جبکہ 1750 افراد زخمی،اور ماہ دسمبر میں مختلف شاہراہوں پر1191حادثات میں 116 افراد جاں بحق جبکہ 1613 افراد زخمی ہوئے۔
دوحا معاہدے پر نئی امریکی حکومت کا پہلا وار
امریکہ کی نئی حکومت ملک کا نظم و نسق سنبھال چکی ہے، اور اپنی ترجیحات بھی سامنے لارہی ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ نے پہلا وار افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر کیا ہے اور اس پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے واضح کردیا ہے کہ امریکہ اِس امر کا جائزہ لے گا کہ افغانستان میں تشدد کم ہوا ہے یا نہیں؟ اور دوحہ معاہدے پر کس حد تک عمل ہوا؟ جیک سلیوان کے نزدیک امن کا معیار یہ ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہورہا ہے یا نہیں؟ امریکی انتخابات اور اس کے نتائج پر ہمارے دفتر خارجہ میں کیا سوچا جارہا تھا اس بارے میں حکومت نے پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں بھی منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینا گوارا نہیں کیا، البتہ وزیراعظم کی عسکری قیادت سے مسلسل ملاقات ہوئی ہے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اسلام آباد نے واشنگٹن کی چمنی سے اٹھتا ہوا دھواں محسوس کرلیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ زلمے خلیل زاد سے کام لے رہی تھی، مستقبل میں ان کا کردار کیا ہوگا یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ بائیڈن نے اپنی سولہ رکنی ٹیم کا اعلان کیا ہے جس میں سب انتہا پسندی یہودی ہیں۔ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ وہ افغان مسئلہ اپنی ترجیحات کے مطابق حل کریں گے اور ضرورت پڑی تو طاقت کا استعمال بھی کیا جائے گا، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیاکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے ٹکرا کر اپنا سر تو پھوڑا جا سکتا ہے، افغانوں کو طاقت کے سامنے سجدہ ریز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ طالبان کے ساتھ روابط کا ڈول ڈالا گیا اور بالآخر دوحہ میں معاہدہ طے پا گیا۔
امریکہ میں نئی حکومت ٹرمپ کی بعض ناپسندیدہ پالیسیوں کو بدلنا چاہتی ہے اور ان کے کچھ احکامات ختم بھی کردیئے گئے ہیں۔ افغان حکومت نے نئی حکومت کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ طالبان امن کے سلسلے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہے۔ جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ہر حالت میں معاہدے کے حامی ہیں، اگر امریکہ نے اس سے انحراف کیا تو پھر وہ بھی نئے حالات میں اپنی حکمت ِ عملی پر نظرثانی پر محبور ہوں گے۔ امریکہ اور طالبان دونوں ایک دوسرے پر اپنی ترجیح واضح کرچکے ہیں، اور اسلام آباد نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ اس کی حکمت عملی اور ترجیح لازماً پارلیمنٹ میں پیش ہونی چاہیے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ اگر امن معاہدہ ختم ہوگیا تو تشدد کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا، جو ختم ہوتے ہوتے نامعلوم مزید کتنا وقت لے جائے۔