ہمارے ہاں اردو کا غلط تلفظ عام کرنے میں سلطنتِ روما کے ماہرینِ لسانیات کا بڑا ہاتھ ہے۔ نہ وہ رومن حروف ایجاد کرتے نہ ہماری اُردو خراب ہوتی۔ اس خرابی سے ہمارا ہر شہر خرابہ بن رہا ہے۔ کسی بھی شہر میں کسی طرف نکل جائیے، بڑے بڑے اشتہاری تختوں پر آپ کی انگریزی خوانی کا امتحان لیا جارہا ہوگا کہ دیکھیں تو سہی کہ آپ Khanaکو ’کھانا‘ پڑھتے ہیں یا ’خانہ‘؟ دُکانوں کے نام ہوں، دُکان داروں کے دیے ہوئے تھیلے ہوں یا پرچۂ اشتہار، سب پر رومن حروف میں لکھی ہوئی اردو آپ کو زبان چڑا رہی ہوگی۔
چڑ کر گھر میں آبیٹھیں تو اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ خود آپ کے گھر میں گھس کر اُسی زبان کا حلیہ بگاڑنے پر تُلے نظر آئیں گے جس زبان کو انھوں نے خود ہی اپنے ذریعۂ ابلاغ کے طور پر منتخب کیا ہے۔ نشریاتی اداروں سے اردو میں نشر کیے جانے والے پروگراموں کے نام ہوں، ڈراموں کے عنوان ہوں یا ان کے مصنفین اور اداکاروں کے نام، سب کے سب رومن رسم الخط میں دکھائے جارہے ہوں گے۔ نہ جانے کس نے اُنھیں یہ پٹّی پڑھا دی ہے کہ تمھاری طرح تمھارے ناظرین بھی جاہل ہیں، اُردو حروف پڑھ نہیں پائیں گے۔ ہمارے مغرب پرست ماہرین ابلاغیات کی یہ مجبوری تو ہے ہی کہ وہ کسی زبان کے ماہر نہیں۔ اچھی طرح انگریزی آتی ہے نہ بُری بھلی اُردو۔ مگر اس سے بھی بڑی مجبوری یہ ہے کہ ناظرین کی شرح میں اضافے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے، اُس میں آگے بڑھنا اُردو زبان کو ذریعۂ ابلاغ بنائے بغیر ممکن ہی نہیں۔ کیوں کہ اس ملک کی قومی زبان اُردو ہے، عوامی زبان اُردو ہے اور ملک کی مختلف زبانیں بولنے والوں کے مابین رابطے کی زبان بھی اُردو ہی ہے۔ مگر یہ جو ناک میں انگریزی بولنے والا نکٹا ولایتی بھوت سر پر سوار ہوگیا ہے، وہ اُن سے اردو بھی انگریزی حروف میں لکھواتا ہے۔ بدیسی تجارتی اداروں کے اشتہارات نے تو اس دیس کی زبان بگاڑنے کو اپنا ہدف یا نصب العین ہی بنا لیا ہے۔ اگر وہ رومن حروف میں ’’پیو اور جیو‘‘ نہیں لکھیں گے تو شاید پی پی کر جینے والوں کو اُن کے مشروبات کی تیزابیت محسوس نہیں ہوگی۔
آج کل لوگ سمجھتے ہیں کہ رومن حروف میں اردو لکھنے کی وبا جدید ابلاغی آلات کی عطا ہے۔ یہ ابلاغی آلات بھی دیکھتے ہی دیکھتے ہماری زندگیوں میں بالکل اُسی طرح دخیل ہوگئے، جیسے کڑکتی سردی میں کسی بَدُّو کے خیمے میں اُس کا اونٹ پہلے صرف گردن ڈالنے کی اجازت چاہتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اونٹ اندر اور بَدُّو باہر۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہم بین الاقوامی رابطے کے نظام یعنی International Network سے روشناس کرائے گئے، جس کا مخففInter. Net. ہے۔ اس عالمی ربط پر برساتی کُھمبیوں کی طرح بہت سے سماجی ذرائع ابلاغ اُگ آئے۔ ابتدا میں ان جدید آلات پر تحریر کرنے کے لیے اردو کی تختی میسر نہ تھی، اس وجہ سے لوگوں نے مجبوراً رومن حروف میں اردو لکھنے سے ان ذرائع کو استعمال کرنے کا آغاز کیا۔ مگر بہت جلد اُردو اپنا رسم الخط لے کر تمام سماجی ذرائع ابلاغ تک پہنچ گئی۔ لہٰذا اب اردو پیغام رسانی کی راہ میں کوئی مجبوری حائل نہیں رہی، معذوری البتہ حائل ہوسکتی ہے۔
پاکستان کے اندر رومن حروف میں اردو تحریر کرنے کا فتنہ سب سے پہلے ایوب خان کے ’’دورِ انقلاب‘‘ میں اُٹھا۔ تہذیبِ حاضر کی چمک دمک سے خیرہ نظری کا شکار ہوجانے والے دیگر اذہان کے مثل، ایوب خان کا بھی خیال تھا کہ مصطفی کمال پاشا کی طرح رومن رسم الخط اختیار کرلینے سے ہم بھی ترقی کی راہ پر دوڑنے لگیں گے۔ مگر آج کی طرح اُس زمانے میں بھی اردو نے اپنی بقا کی جنگ پوری قوت سے لڑی اور اپنے آپ کو توانا زبان ثابت کرکے اپنا رسم الخط بچا لیا۔ برصغیر میں رومن رسم الخط پہلی بار کب استعمال ہوا؟ اس ضمن میں مولانا عبدالقدوس ہاشمی کی ایک تحریر، جو ایوب خان کی تجویز کے جواب میں اُردو کالج کراچی کے مجلے ’’برگِ گُل‘‘ کے ’’ایوب نمبر‘‘ میں 1960ء میں شائع ہوئی، ہمیں بتاتی ہے:۔
’’اس تجویز کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یورپی تاجروں نے اپنے کارندے، جو وہ یورپ سے لاتے تھے، ان کو یہاں کے مقامی الفاظ، خصوصاً افراد اور مقامات کے نام یاد کرانے کی یہ ترکیب نکالی تھی اور اس کام کے لیے یہ ترکیب تھی صحیح، کیونکہ فارسی حروف انہیں سکھانا مشکل تھا‘‘۔
(بحوالہ ’’معارف فیچر‘‘ شمارہ 16مارچ 2014ء۔ شائع کردہ: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی)
اُسی زمانے کی ایک دلچسپ تقریر ہمیں سابق مغربی پاکستان کے چیف جسٹس محمد رستم کیانی کے مجموعہ تقاریر ’’افکارِ پریشاں‘‘ میں ملتی ہے۔ جسٹس کیانی نے مدیر ’’چراغِ راہ‘‘ پروفیسر خورشید احمد کے ایک سوال کے جواب میں جو کچھ کہا، اُس سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ سوال یہ تھا: ’’کیا اردو زبان کا موجودہ رسم الخط کسی تبدیلی کا متقاضی ہے؟‘‘
جسٹس ایم آر کیانی نے جواب دیا:’’اردو رسم الخط نے خود تو کوئی تقاضا نہیں کیا کہ مجھے بدلا جائے۔ مگر آپ کی یہی رضا ہے تو پھر اُردو کی قضا ہے۔ البتہ انسان کی فطرت اس بات کی مقتضی ہوتی ہے کہ چیزیں ہمیشہ بدلتی رہیں۔ کوئی اس کو جدّت کہتا ہے، کوئی بدعت، اور کوئی تو انقلاب کے درجے تک پہنچا دیتا ہے۔ اب چوں کہ آپ کو اور کوئی تبدیلی نہیں سوجھتی اور شادیاں بھی چار سے یک لخت ایک ہونے پر آپ’’ کُل جدید لذیذ‘‘ کی لذت سے محروم ہوگئے ہیں اس لیے عروسِ اردو کو شریکِ حیات سمجھ کر اپنے جنسی میلانوںکی تسکین کے لیے اُس کو رومن اردوکا فراک پہناتے ہیں۔ میرے خیال میں محترم پروفیسر خورشید احمد کو متقاضی کے بجائے متحمل کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ کیا اردو رسم الخط بھی اتنی تبدیلی برداشت کر سکتا ہے کہ اسے رومن کا جامہ پہنایا جائے؟ مگر جامے کی تشبیہ یہاں غلط ہے۔ اُس کا توچہرہ ہی بدل جائے گا۔ یہ محض لباس کا بدلنا نہیں ہے۔ رسم الخط کو تو زبان سے وہ تعلق ہے جو تن کو جان سے ہے۔میں نے فراک کا ذکر اس لیے کیا تھا کہ یہ اہلِ مغرب کا مخصوص لباس ہے اور غالباً اردو کو رومن بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے مغرب کے لیے دلپذیر بنایا جائے۔ مگر آپ بھول رہے ہیں کہ کسی زبان کی اہمیت اُس کی اپنی خوب صورتی سے نہیں بڑھتی، بلکہ اُس کے بولنے والوں کی خوب صورتی سے بڑھتی ہے۔ جب آپ اخلاقی طور پر صحت مند ہوجائیں گے توآپ کی قومیت کا اعتبار قائم ہوجائے گا اور دنیا آپ کی اُردو بھی سیکھے گی اور اس کے رسم الخط کے نخرے بھی اُٹھائے گی۔ کافِ کابل اور قافِ قندھار کے باریک فرق کو دیکھ کر لوگ کہیں گے کہ سبحان اللہ! محض حروف کے امتیاز میں یہ لوگ کتنی دُور چلے گئے ہیں‘‘۔
(اقتباس از:’’افکارِ پریشاں‘‘ مجموعہ تقاریر جسٹس ایم آر کیانی مرحوم)
ہمارا رسم الخط بھی ہماری قومی یکجہتی اور ہماری لسانی ہم آہنگی کا آئینہ دار ہے۔ سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو سمیت تقریباً تمام پاکستانی زبانیں دائیں سے بائیں کو لکھی جاتی ہیں اور خطِ نسخ یا خطِ نستعلیق میں رقم کی جاتی ہیں۔ ان کے اکثر و بیشتر حروفِ تہجی بھی مشترک ہیں۔ جب کہ رومن حروفِ تہجی بائیں سے دائیں کو لکھے جاتے ہیں اور یہ حروف بھی ہمارے خطے کی زبانوں کے لیے اجنبی ہیں۔ رومن حروف میں اردو تحریر کرنے کو رواج دینے سے اردو بھی اجنبی ہوجائے گی اور اپنی ہمشیر زبانوں سے اس کا ناتا ٹوٹ جائے گا۔ یوں ہماری قومی زبان پوری قوم سے بیگانہ ہوجائے گی۔
ہمارے رسم الخط کا ہماری قوم کے عقائد، تہذیب، تمدن اور ثقافت سے کیا رشتہ ہے؟ اس موضوع پر ان شاء اللہ اگلی نشست میں بات ہوگی۔