سکھر الیکٹرک سپلائی کاپوریشن

جائز ذرائع سے بجلی استعمال کرنے والوں پر مظالم

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے اپنے ظالمانہ اقدامات سے سچ مچ غریب اور متوسط طبقے کے افراد کی زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔ مجبور اور بے بس افراد کم آمدنی اور مہنگائی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب ذہنی بیماریوں میں بہ کثرت مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ اکثر حالاتِ موجودہ کے جبر سے تنگ، عاجز اور بے زار ہوجانے والے افراد کی جانب سے خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے کی افسوس ناک اطلاعات بھی بذریعہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سامنے آتی رہتی ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر لیے گئے قرضوں کی ادائی کی وجہ سے بھی عوام پر آئے روز پیٹرول اور بجلی بم گرائے جانے کا سلسلہ ’’تبدیلی سرکار‘‘ کی جانب سے تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ عوام کو بدنظمی، بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی کے تحائف دینے کے حوالے سے موجودہ حکومت سابقہ ادوارِ حکومت سے کسی طور پر بھی پیچھے نہیں ہے۔ حال ہی میں ’’مرے پر سو درّے‘‘ کے مصداق پہلے ہی سے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کرنے کے بعد جس انداز میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت میں ایک روپے پچانوے پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے اس کی وجہ سے جائز طریقے سے بجلی استعمال کرکے اس کی ماہانہ بل کی صورت میں ادائی کرنے والوں کو اور زیادہ اذیت اور تکلیف سے دوچار کرنے کی حکومت نے اپنی طرف سے پوری سعی کی ہے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی یہ راگ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ الاپا ہے کہ بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافے کے اثرات عام آدمی پر مرتب نہیں ہوں گے کیوں کہ جائز ذرائع سے بجلی استعمال کرنے والے تو پہلے ہی سے محکمہ واپڈا کے اہلکاروں کی جانب سے بلیک میلنگ پر مبنی بھاری ڈیڈیکشن بلوں کی وجہ سے نالاں اور پریشان تھے، بجلی کی قیمتوں میں حالیہ بے محابا اضافے نے انہیں اور زیادہ برہم اور برافروختہ کردیا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ’’تبدیلی پسند سرکار‘‘ بھی سابقہ مسلم لیگ نواز، پی پی اور دورِ آمریت کی طرح کی حکومتوں جیسی ہی ہے بلکہ کئی لحاظ سے اُن سے بھی بدترین واقع ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی کارکردگی پر دھیان دینے اور مہنگائی پر قابو پانے کے بجائے مسلسل ظالمانہ انداز میں عوام دشمن فیصلے کرنے میں مصروف ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں ہر سرکاری ادارے کی طرح محکمہ واپڈا بھی ناکام اور بے لگام ہوچکا ہے۔ محکمہ واپڈا کے ذمہ داران ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر بنانے اور لائن لاسز کو ختم کرنے کے بجائے اپنی نااہلی ، نالائقی اور بدعنوانی کا سارا بوجھ ہر تھوڑے عرصے کے بعد جائز طریقے سے بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر منتقل کردیتے ہیں۔ یوں تو سارے محکمے کا ہی برا حال ہے، لیکن ان میں سے اس کا ایک ذیلی ادارہ سکھر الیکٹرک سپلائی کارپوریشن المعروف سیپکو تو اپنے بدعنوان، نااہل اور رشوت خور اہلکاروں کی وجہ سے بدنام زمانہ حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ سیپکو کے اہلکاروں نے اب اپنا یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ جو صارفینِ بجلی مہنگی ترین بجلی کو جائز طریقے سے استعمال کررہے ہیں انہیں اووربلنگ پر مبنی ڈیڈیکشن بل بھیج کر صرف اس لیے ناجائز طریقے سے کنڈا کنکشن سے بجلی چوری کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے تا کہ وہ اس کے بدلے میں ماہانہ خود ہزار دو ہزار روپے ماہانہ وصول کرکے اپنے لیے نارِ جہنم خرید سکیں۔ حیسکو کے بدنام زمانہ افسران اور اہلکاروں کو اس بات کی قطعی پروا نہیں ہے کہ اس بدعنوانی اور ان کی حقیر مفادات کے حصول کے لیے اپنائی گئی پالیسی اور سوچ کے سبب ملکی خزانے کوبھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ جائز ذرائع سے بجلی استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی، کنڈا کنکشن لگا کر بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف مہم چلائی جاتی، لیکن اس کے بالکل برعکس بجلی چوری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور میٹر والے صارفین کی سیپکو کے بدعنوان افسران اور اہلکار بھاری رقومات پر مبنی ڈیڈیکشن بل دے کر حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ نمائندہ ’’فرائیڈے اسپیشل ‘‘کو سیپکو کے زیرانتظام ہر شہر اور علاقے سے صارفینِ بجلی کی اس نوع کی بہ کثرت شکایات ہر روز موصول ہورہی ہیں۔ گزشتہ روز دادو کی کنزیومر کورٹ میں ایک شہری ڈاکٹر قریشی نے 40 ہزار کا ڈیڈیکشن بل ارسال کرنے پر درخواست دائر کی تو معزز جج راشدی صاحب نے اس بلیک میلنگ کی بنا پر مقامی ایکسین اور متعلقہ ایس ڈی او کو بھری عدالت میںہتھکڑیاں لگوا دیں۔
جیکب آباد جو ایشیا کا گرم ترین شہر ہے یہاں پر سیپکو کے بدنام زمانہ رشوت اور بھتہ خور اہلکاروں ذاکر، عقیل اور معشوق سمیت دیگر نے جائز ذرائع سے بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی زندگی افسران سے ملی بھگت کرکے اجیرن کرڈالی ہے۔ یہ اہلکار جہاں اور جس علاقے میں بھی رہے ہیں انہوں نے کنڈا کنکشن کے ذریعے بجلی چوری کرنے والوں سے ماہانہ وصولیاں کی ہیں، اور حصہ بقدرِ جثہ کے مطابق اپنے افسران کو بھی فیض پہنچایا ہے، اور اب بھی وہ اس گھنائونے کام میں ملوث ہیں۔ ایک تو بجلی 24 گھنٹوں میں بہ مشکل چند گھنٹے ہی ہوتی ہے، اس پر بھی آئے روز علاقے کے ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں اور دوبارہ بجلی کی فراہمی میں اس وجہ سے کئی کئی ہفتے لگ جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود صارفینِ بجلی کو بلاجواز ہزاروں روپے پر مبنی ڈیڈیکشن بل ارسال کیے جارہے ہیں۔
نمائندہ فرائیڈے اسپیشل کو صحافی کالونی جیکب آباد کے رہائشی پروفیسر محمد طارق نے بتایا کہ سیپکو اہلکار یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی رہائش گاہ میں ایک عرصے سے بجلی استعمال نہیں کی جارہی ہے اور سیپکو اہلکاروں ہی نے ان کے نام پر نصب میٹر سے بدعنوانی کے لیے تار بھی نکال کر الگ کر رکھا ہے لیکن پھر بھی ہر ماہ دو ماہ بعد انہیں بلاجواز ہزاروں روپے پر مبنی ڈیڈیکشن بل بھیجے جارہے ہیں۔ جیکب آباد بھر میں جعلی میٹر عام ہیں اور سیپکو، واپڈا کے افسران اور بدعنوان دیدہ دانستہ محض اس لیے فیڈرز کو ایکسپریس ہونے نہیں دے رہے ہیں کہ اگر بجلی کی فراہمی کا عمل باقاعدہ اور شفاف بنایا گیا تو اس صورت میں بجلی چوری نہیں ہوسکے گی، اور ان کی رشوت خوری اور منتھلیوں کا سلسلہ رک جائے گا۔ جیکب آباد میں اسی وجہ سے من پسند لائن سپرنٹنڈنٹ کو ایک سے زائد فیڈرز کا چارج بھی دیا گیا ہے تاکہ رشوت خوری کا عمل بلاتعطل جاری رہے۔ سیپکو میں بجلی کے پولوں اور ٹرانسفارمرز پر بھی سرکاری اہلکاروں کے بجائے پرائیویٹ افراد معمولی معاوضے پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور آئے روز اس وجہ سے بجلی کا کرنٹ لگنے سے ان کی اموات کی افسوس ناک اطلاعات بھی سامنے آتی رہتی ہیں، جبکہ سیپکو کے اہلکار بجائے اپنے اصل فرائض کی انجام دہی کے، نجی امور نمٹانے اور بزنس وغیرہ کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں شہر میں جابجا ٹرانسفارمرز چار چار فٹ کے تھلوں پر رکھے گئے ہیں اور ساتھ واقع وہ پول جن پر ٹرانسفارمرز نصب ہیں وہ بھی حد درجہ خطرناک حد تک خستہ حالت میں عوام کے جان و مال کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں، کیونکہ اس کی بنا پر اکثر ان میں آگ بھی لگ جاتی ہے جو قریبی موجود گھروں اور ان کے رہائشیوں کی جانیں دائو پر لگانے کے والی بات ہے۔ جیکب آباد سمیت حیسکو کے زیرانتظام تمام شہروں اور قصبات میں بڑے بڑے ہوٹل، رائس ملز اور آئس فیکٹریاں اور کارخانے سیپکو اہلکاروں اور افسران کی ملی بھگت سے بجلی چوری کرنے میں مصروف ہیں۔ بجلی کا جائز طریقے سے استعمال اب غریب تو رہا ایک طرف، متوسط طبقے کے افراد کے لیے بھی ممکن نہیں رہا ہے، جس کی ساری ذمہ داری واپڈا حکام اور حیسکو کے افسران سمیت موجودہ حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔
(جاری ہے)