پاکستان اسٹیل مل کے مزدوروں کا احتجاج

بے روزگار ملازمین کے ساتھ سراج الحق کا اظہار یکجہتی

پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ اس احتجاج میں جماعت اسلامی اُن کے ساتھ کھڑی ہے۔ اور جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم میں اس مسئلے کو کلیدی مقام حاصل ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی کراچی کے دورے میں احتجاجی ملازمین سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا، اور انہوں نے دھرنا دینے والی خواتین سے گفتگو میں یقین دہانی کرائی کہ جماعت اسلامی متاثر ہونے والے ہزاروں خاندانوں اور ایک اہم اور حساس نوعیت کے قومی ادارے کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
اسٹیل ٹاؤن پہنچنے پر سراج الحق کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، اور ایک جلوس کی شکل میں دھرنے کے مقام چیئرمین ہاؤس تک لایا گیا۔ سینیٹر سراج الحق سمیت جماعت اسلامی کے دیگر قائدین نے اسٹیج پر موجود ایمپلائز ایکشن کمیٹی اور پاسلو سمیت دیگر مزدور رہنماؤں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور شرکاء کے نعروں کا ہاتھ اٹھا کر جواب دیا۔ اسٹیل ٹاؤن میں چیئرمین ہاؤس کے سامنے 14دن سے دھرنا دیئے ہوئے ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وزیراعظم نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے لاکھوں افراد کو بے روزگار کردیا۔ حکومت اداروں کی نج کاری کے ذریعے کس مافیا کو نوازنا چاہتی ہے؟ سبز پاسپورٹ کو عزت دلوانے کا دعویٰ کرنے والے اس بات کا جواب دیں کہ اقوام متحدہ نے اپنے اسٹاف کو پاکستان کی ایئرلائن پر سفر کرنے سے کیوں روکا؟ وزیراعظم کو اپنے دعوے یاد ہیں تو پاکستان اسٹیل مل کے احتجاجی ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کے دھرنے میں خود آکر ان سے مذاکرات کریں، سانحہ کوئٹہ کی طرح پہنچنے میں تاخیر نہ کریں، برطرف کیے گئے چار ہزار سے زائد ملازمین کو بحال کیا جائے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حافظ نعیم الرحمٰن اور ان کی ٹیم کی قیادت میں شہر قائد کے گمبھیر مسائل کے حل اور اہلِ کراچی کے جائز اور قانونی حقوق کے حصول کے لیے ایک زبردست تحریک اور مہم جاری ہے، اور شہر کے دیرینہ مسائل کو اٹھایا گیا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ پاکستان اسٹیل مل ایک باوقار اور منافع بخش ادارہ رہا ہے، قومی معیشت کی بہتری، بے روزگاری کم کرنے اور ملکی ترقی کے لیے بنیادی سامان مہیا کرنے والا ادارہ رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے 2008ء سے اسے نظرِ بدلگ گئی اور نااہل اور کرپٹ حکومتوں اور انتظامیہ کی کرپشن، لوٹ مار، اقرباپروری، شدید بدانتظامی اور سیاسی مداخلت نے اس منافع بخش ادارے کو تباہ و برباد کردیا۔ وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر حکومت میں آنے سے قبل وعدہ کرتے تھے کہ وہ ملازمین اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریں گے اور ادارے کو بحال کرکے چلا کر دکھائیں گے، مگر اپنے دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وہ بھول گئے۔ انہوں نے بحالی کے اقدامات کرنے کے بجائے ادارے ہی کو بند کردیا اور چار ہزار ملازمین کو برطرف کردیا۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والوں نے برسرِروزگار لوگوں کو بے روزگار کردیا، کہتے ہیں کہ خسارہ بہت بڑھ گیا ہے، جب خسارہ ہے تو ادارے کے CEOکو 17لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کس طرح دی جارہی ہے؟ یہ ظلم اور جبر کا نظام ہے، یہاں کمزور طبقے پر ظلم ڈھایا جاتا ہے، ہم مزدوروں کو بے روزگار کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مزدوروں کو ظلم اور جبر کے اس نظام کے خلاف اٹھنا ہوگا۔ گورنر سندھ کہتے ہیں کہ نکالے جانے والے مزدوروں کو 25لاکھ روپے دیئے جائیں گے، لیکن اب تک کسی کو یہ رقم نہیں دی گئی، ایک ملازم کی رسید خود میں نے دیکھی ہے جسے 5 لاکھ روپے دیئے گئے ہیں۔ ہم گورنر سندھ سے کہتے ہیں کہ وہ 50لاکھ لے لیں اور عوام کی جان چھوڑ دیں۔ سینیٹر سراج الحق نے اپنے پُرجوش خطاب میں یہ بھی کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمران نااہل اور نالائق ہی نہیں، بے حس بھی ہیں، ان کو غریبوں کے دکھ درد اور مشکلات کا کوئی احساس نہیں ہے۔ آج یہاں دھرنا دینے والے ملازمین کے ساتھ ان کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی شامل ہیں، لیکن کسی حکومتی عہدیدار کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کے پاس آکر مسئلہ حل کرائے، ہم وزیراعظم سے کہتے ہیں کہ یہاں آنے میں اب تاخیر نہ کریں اور ان مظلوم خواتین کی دادرسی کریں۔ عاصم بھٹی نے کہا کہ حکمران جھوٹے وعدے کرتے رہے اور آج بھی دھوکہ دے رہے ہیں، اور ہزاروں خاندانوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کررہے ہیں۔ مل ملازمین اس مزدور دشمن فیصلے کو قبول نہیں کریں گے، حکمرانوں اور اسٹیل مافیا نے گٹھ جوڑ کرلیا ہے، اور ان کا یہ گٹھ جوڑ ہی ہے جو اس قومی ادارے کو چلنے نہیں دے رہا۔
عاصم بھٹی اور جماعت اسلامی ضلع ملیر کے امیر محمد اسلام نے سینیٹر سراج الحق سمیت دیگر قائدین کی دھرنے میں آمد پر اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جماعت اسلامی کی قیادت پہلے دن سے ملازمین کے ساتھ میدان میں تھی اور آج بھی موجود ہے۔ اس موقع پر ملازمین نے پُرجوش نعرے بھی لگائے، جن میں یہ نعرے شامل تھے: ”مصلحت“یا جدوجہد… جدوجہد، تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو… جب تک لیبر تنگ رہے گی، جنگ رہے گی، جنگ رہے گی۔
اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی، امیر ضلع ملیر محمد اسلام، سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری، پاسلو کے جنرل سیکریٹری علی حیدر گبول اور دیگر بھی موجود تھے۔
اسٹیل مل کے ملازمین اس وقت سخت پریشان ہیں،  ان کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، ایسے میں وہ احتجاج کرتے ہیں تو ان پر ریاست ظلم کرتی ہے، ایف آئی آر کاٹتی ہے۔ آخر وہ جائیں تو کہاں جائیں؟ کس در کو کھٹکھٹائیں؟ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر واپس لے، اس کے ساتھ حکومت نے مزید 9اداروں کی نج کاری کا جو اعلان کیا ہے اسے بھی واپس لیا جائے، کیونکہ قومی اداروں کی نج کاری اور ٹھیکیداری نظام رائج کرنے سے قومی معیشت اور مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قومی اداروں کو تباہ و برباد کرنے والوں… بدعنوانی، بدانتظامی، اقرباپروری اور نااہلی و غبن کا ارتکاب کرنے والوں کو پکڑا جائے اور ان کی جائدادیں فروخت کرکے رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ غریبوں اور مزدوروں کو بے روزگار کرکے خسارہ پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت اسٹیل مل کے ملازمین کے مسائل کے ساتھ کراچی کو ایک بڑی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جس کو جماعت اسلامی نے شروع کررکھا ہے۔ لیکن کراچی کے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ بحیثیت مجموعی کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے منظم ہوکر جماعت اسلامی کی تحریک کو آگے بڑھائیں، اور شہر کی رونقیں بحال کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن بنائیں۔