بچے اور مطالعے کا شوق

گھر میں مطالعے کا ماحول پروان چڑھانے کے لیے کتابوں کا خریدنا ضروری ہے

مطالعے کی اہمیت پر اقوال زرّیں جمع کرنے لگ جاؤ تو ہزاروں اقوال مل جائیں گے۔ مطالعے کی اہمیت پر مضامین تلاش کرو تو سیکڑوں اہلِ قلم حضرات کے مضامین دستیاب ہیں۔ وقتاً فوقتاً اجتماعات اور جلسوں میں مطالعے کی اہمیت پر تقریریں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ مطالعہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں بن پارہا ہے؟ اکثر یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ بچوں میں مطالعے کی کمی ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ٹی وی، موبائل اور انٹرنیٹ نے بچوں کو مشغول کردیا ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک جیسی سائٹس پر بچے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ اسکول کی مصروفیات، ٹیوشن اور ہوم ورک کے بعد بچوں کے پاس وقت ہی نہیں بچتا کہ دیگر کتابوں کا مطالعہ کریں۔
یہ ایک اہم سوال ہے کہ آخر مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ بہت سے والدین اس بات سے مطمئن ہیں کہ ان کا بچہ روزانہ اسکول جاتا ہے، ہوم ورک پورا کرتا ہے، امتحان کی تیاری کے لیے سوال جواب یاد کرتا ہے اور امتحان میں اچھے نمبر بھی لاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل مطالعہ نہیں ہے؟ دراصل یہ مطالعے کا حصہ ہے لیکن مکمل مطالعہ نہیں ہے۔ نصابی کتابوں کے علاوہ بھی علم کی ایک وسیع و عریض دنیا ہے۔ صرف زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے رجحان نے بچوں کو ٹیوشن، ٹیسٹ اور شارٹ نوٹس تک محدود کردیا۔ بچوں میں اپنی نصاب کی کتابوں کو پڑھنے کا رجحان بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ اسکولوں میں رائج میکانیکی تدریسی عمل نے بھی کتابوں کی دنیا سے بچوں کو دور کردیا ہے۔ دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں میں آج بھی مطالعے کا شوق باقی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی آنے کے باوجود بھی امریکہ میں 64 فیصد لوگ کاغذ پر چھپی کتابیں پڑھتے ہیں اور 28فیصد ڈیجیٹل کتابیں پڑھی جاتی ہیں۔ 2017ء میں امریکہ میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً 80 کتابیں پڑھنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جن کی عمریں 18تا 29 سال ہیں۔ امریکہ میں 30فیصد لوگ ایسے ہیں جو روزانہ پڑھتے ہیں اور 25 فیصد لوگ ایسے ہیں جو ہفتے میں ایک دن ضرور پڑھتے ہیں۔ بھارت میں 32فیصد بچے ایسے ہیں جو سالانہ 24 کتابیں پڑھتے ہیں۔ مسلمانوں میں بچوں اور بڑوں میں مطالعے کا رجحان کیا ہے؟ اس کے بارے میں اعداد و شمار دینا بہت مشکل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسے تحقیقی ادارے موجود نہیں ہیں جو اس طرح کے اعداد و شمار بتا سکیں۔ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ملتِ اسلامیہ کے زوال کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملت میں حصولِ علم کا شوق ختم ہوگیا ہے۔ شاندار مستقبل کے بارے میں جب ہم سوچنا شروع کریں گے تو اس کا آغاز حصولِ علم کی کوششوں سے ہوگا اور علم کا حصول عادتِ مطالعہ کا متقاضی ہے۔
جب بات مستقبل کی ہورہی ہے تو بات بچوں سے شروع ہوگی کہ بچوں میں کس طرح مطالعے کے شوق کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کے روشن مستقبل کے لیے گھر میں مطالعے کے ماحول کو فروغ دیں۔ بچے پر سب سے زیادہ اثر ماحول کا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر گھروں کا ماحول مطالعے کے لیے بالکل بھی سازگار نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو گھر میں مطالعے کے لیے کتابیں موجود ہونا ضروری ہیں۔ گھر میں سب سے نمایاں چیز ٹی وی ہوگئی ہے، اس لیے بچوں کی زیادہ توجہ ٹی وی پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا ٹی وی کے مقام کو کم کرنا ہوگا۔ کتابوں کو نمایاں کرتے ہوئے سلیقے سے سجانا ہوگا۔ مطالعے کی مخصوص جگہ متعین ہو تو بہتر ہے۔ ساتھ ہی مطالعے کا ایک مخصوص وقت متعین کیا جانا چاہیے۔ ”سب پڑھیں، سب بڑھیں“۔۔۔ تعلیمی بیداری کے لیے استعمال ہونے والے اس سلوگن کا استعمال مطالعے کے فروغ میں مدد دے سکتا ہے۔ گھر میں سب لوگ آم کھا رہے ہوں تو بچے لازماً آم کھائیں گے۔ گھر کے سب لوگ یا کچھ لوگ ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہوں تو لازماً بچے بھی ٹی وی دیکھیں گے۔ اگر گھر میں سب مل کر پڑھنے کا کلچر پروان چڑھائیں گے تو بچے بھی ضرور پڑھیں گے۔ گھر میں ایک متعینہ وقت میں ہر فرد پڑھنے بیٹھ جائے۔ ہر ایک اپنی پسند کے اعتبار سے پڑھ سکتا ہے۔ گھر میں کم پڑھے لکھے بزرگ نانی، دادی بھی اگر ہوں انھیں بھی ایک کتاب تھما دی جائے اور وہ محض اس کتاب کی ورق گردانی کرتے رہیں۔ بچوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگتا ہے کہ جس طرح دوسرے اہم کام گھر میں ہوتے ہیں جیسے کھانا پکانا، کھانا کھانا، صفائی کرنا، اس طرح مطالعہ کرنا بھی ہمارے خاندان کا ایک اہم کام ہے۔ گھر کے ذمہ دار کو اس سلسلے میں سنجیدہ کوشش کرنی پڑے گی۔ تھوڑی سی کوشش کے ذریعے یہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے نہ صرف بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا ہوگا بلکہ بڑوں میں بھی دلچسپی پیدا ہوگی۔ کسی کتاب پر ڈسکشن، کتاب کا زور سے پڑھنا، کتاب پڑھنے میں مقابلے کے ذریعے ”سب پڑھیں اور سب بڑھیں“ کے عمل کو مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
عام طور پر کتاب مشکل ہو اور پڑھنے میں دقت ہو تو بچے پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی مدد کرنا، کتاب کو سمجھانا، نئے الفاظ کا تعارف کروانا، ابتدا میں تصویری کتابوں کی مدد لینا، ڈکشنری اور لغت کا استعمال سکھانا، اور بلند آواز سے پڑھنا یا پڑھانا جیسی سرگرمیاں کی جاسکتی ہے۔ یہ تعاون صرف بچوں کے ساتھ نہیں بلکہ بڑوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ جب بچوں کی مشکلیں دور ہوں گی تو دھیرے دھیرے بچے روانی سے پڑھنے لگیں گے۔
گھر میں مطالعے کا ماحول پروان چڑھانے کے لیے کتابوں کا خریدنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہر ماہ ایک بجٹ متعین کیا جائے۔ بڑوں کے لیے اور بچوں کے لیے الگ الگ کتابیں خریدی جائیں۔ بچے کو کتاب کا مالک بنایا جائے، جس کی کتاب ہے اس پر اس کا نام لکھا جائے۔ ظاہر بات ہے یہ ایک معاشی بوجھ ہے اور ہمارے بہت سے خاندانوں کے لیے آسانی سے ممکن بھی نہیں ہے، لیکن اگر باریک بینی سے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو بہت ساری ایسی مدات ہیں جہاں کا خرچ ہم کم کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ٹی وی، کیبل پر خرچ کررہے ہیں تو روک دیجیے۔ اتنے بجٹ میں بچوں کے لیے دو تین کتابیں آسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں میں بھی یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ اپنی پاکٹ منی کی ایک رقم کتابوں کے لیے جمع کریں۔ یہ عادت مستقبل میں کتابوں کی خریداری کے مسائل کو حل کردے گی۔ اس میں ارادے اور کوشش کی ضرورت ہے۔
میں یہاں اہلِ ثروت سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ اپنے خاندان اور پڑوسیوں کو کتابوں کے تحائف دیا کریں۔ اس کے علاوہ سماجی اور مذہبی جماعتوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ غریب بستیوں کے قریب ریڈنگ رومز اور لائبریریاں قائم کریں۔
دنیا میں کوئی کام بھی بغیر ترغیب کے نہیں ہوتا، اور ترغیب میں تہنیت کا ایک اہم کردار ہے۔ لہٰذا مطالعہ کرنے والے بچوں کو چھوٹے چھوٹے انعامات سے نوازنا چاہیے۔ بچوں میں ٹارگٹ طے کرکے مقابلہ کروانا چاہیے، اور ٹارگٹ حاصل ہونے پر تحائف دیے جانے چاہئیں۔
کتابوں کی دنیا سے واقف کرانے کے لیے بچوں کو لائبریری کی سیر کروائی جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہر شہر یا قصبے میں لائبریریاں موجود نہیں ہیں۔ چھٹیوں میں دوسرے شہروں میں موجود لائبریریوں کی سیر کی جائے۔ کسی بڑے کالج اور یونیورسٹی کی لائبریری کی سیر بااجازت کی جاسکتی ہے۔
عام طور پر بڑے شہروں میں کتاب میلے کا چلن ہے، جس میں سیکڑوں پبلشر ہزاروں کتابوں کے ساتھ اپنا کاروبار کرتے ہیں، جن کا مقصد صرف کتاب بیچنا نہیں ہے بلکہ مطالعے کے شوق کو پروان چڑھانا بھی ہے۔ کچھ پبلشر اب بچوں کے لیے بھی خاص کتاب میلہ منعقد کررہے ہیں۔ کچھ اہلِ علم اور پبلشرز کے تعاون سے چھوٹے شہروں اور قصبات میں بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ اس طرح کے کتاب میلوں میں بچوں کے لیے ڈراموں، کتابوں اور مصنفین کے کرداروں کی نقل وغیرہ کے ذریعے دلچسپی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی عملی تجاویز ہوسکتی ہیں۔ اگر چاہ ہے تو راہ ہے۔