مولانا فضلِ ربی ندوی مرحوم
اردو زبان میں نشرواشاعتِ کتب کی تاریخ دو سو سال کے عرصے پر محیط ہے۔ ناشرینِ کتب میں دینی کتب کے ناشرین بھی شامل ہیں، علمی وادبی کتب کے بھی، اور تاریخی و تحقیقی کتب کے بھی۔ افسوس ہے اب تک اردو ناشرینِ کتب پر معیاری تحقیقی کام نہ ہوسکا، اور نہ ہی اس موضوع پر تحقیق ہوسکی کہ ان کی شائع کردہ کتب نے قارئین کی ذہن سازی میں کیا اہم کردار ادا کیا۔ اگر پاکستان کے دینی اور علمی کتب کے ناشرین پر سنجیدہ تحقیق کی جائے تو اس میں مجلسِ نشریات اسلام اور اس کے بانی و ناظم مولانا فضل ربی ندوی کا نام ضرور شامل ہوگا، جنہوں نے تقریباً نصف صدی تک دینی و علمی کتب کی اشاعت کی، اور یوں قارئین کی کئی نسلوں کی ذہن سازی کا فریضہ انجام دیا۔ یوں تو ان سے قبل بھی دینی اور علمی کتب کے متعدد ناشرین کتب پاکستان میں موجود تھے، لیکن مجلس ِ نشریات ِ اسلام کی کتب ایک خاص نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتی ہیں جس کی تفصیل آگے پیش کی جائے گی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مولانا فضل ربی ندوی کو نشرواشاعت کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا بلکہ اس کام کا جذبۂ محرکہ اپنے استادِ محترم مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی و دیگر ندوی علما سے محبت و عقیدت اور ندوی فضلاء کی کتب پاکستانی قارئین تک پہنچانا اور ان کتب کو پاکستان میں پھیلانا بنا۔
مجلس نشریات اسلام کے آغاز اور ترقی کے بارے میں جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ سے تعلق پر روشنی ڈالی جائے۔ اردو زبان کے قارئین اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ایک معلّم، داعی اور مصلح ہونے کے باوصف اردو اور عربی زبانوں کے عالمی شہرت یافتہ مصنف بھی تھے اور جن کی تصنیفات کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔ مولانا نے متعدد کتب کے علاوہ کاروانِ زندگی کے عنوان سے آپ بیتی بھی لکھی، جس میں مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام لکھنؤ کے آغاز کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہیں۔ اس کتاب کی جلد اوّل میں مولانا تحریر فرماتے ہیں کہ اپنے دوست ڈاکٹر سعید رمضان کی خواہش پر 1950ء میں انہوںنے رسالہ ’’المسلمون‘‘ کا اداریہ بعنوان ردّ جدیدہ (جدید ارتداد) لکھا تھا جس میں یہ بیان کیا کہ عالمِ اسلام اس وقت نئے قسم کے ارتداد کا شکار ہوچکا ہے جو یورپ کے سیاسی و تہذیبی حملے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ یہ ارتداد عہدِ رسالت سے آج تک کی اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم ارتداد ہے۔ اس ارتداد کا شکار کسی کلیسا یا مندر میں نہیں جاتا، اور نہ ہی تبدیلیِ مذہب کا اعلان کرتا ہے، بلکہ وہ خود کو مسلمان ہی ظاہر کرتا ہے لیکن افکار و خیالات میں دینِ اسلام پر پختہ یقین کے بجائے لادینیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ مولانا نے اس مضمون میں اس ارتداد کا علاج یہ تجویز کیا کہ عالمِ اسلام میں طاقتور دعوتِ ایمان اور نئے ذہن کو سامنے رکھ کر طاقتور لٹریچر تیار کیا جائے جو وسیع پیمانے پر اس نئے ارتداد کے شکار افراد کی ذہن سازی کرے۔ اس عربی مضمون کا ترجمہ ’’نیا طوفان اور اس کا مقابلہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ مولانا لکھتے ہیں کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد شدت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس اعتقادی اور تہذیبی ارتداد کے مقابلے اور اس کے علاج کی خاطر ایک مستقل نشریاتی ادارہ یا اکیڈمی قائم کی جائے۔ چنانچہ مئی 1959ء میں ایک نیک دل صاحب خیرکی محض ایک ہزار کی رقم سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام قائم کی گئی، جس نے اس تھوڑے سرمائے اورمختصر عملہ کے ساتھ اعلیٰ پائے کی سینکڑوں اردو، انگریزی، عربی اور ہندی کتب شائع کیں، جنہوں نے کئی نسلوں کی ذہن سازی کی۔ یہ ادارہ آج بھی نشر و اشاعت کی خدمات انجام دے رہا ہے۔
درج بالا تفصیل سے ایک اہم نکتے کی وضاحت ہوتی ہے اور وہ یہ کو مولانا کے نزدیک وقت کی اہم ضرورت طاقتور لٹریچر تیار کرنا اور اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت تھی، جو ارتداد کے شکار افراد کی ذہن سازی کرسکے اور ان کا دینِ اسلام سے دوبارہ رشتہ جوڑ سکے۔ اُس وقت تک بہت سے علمائے کرام کی دینی کتب شائع ہوچکی تھیں اور ہورہی تھیں، لیکن مولانا کی نظر میں وہ اس پائے کی ذہن سازی نہیں کررہی تھیں جیسا مولانا چاہتے تھے، انھی وجوہ سے مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام کا قیام عمل میں آیا تھا۔
مجلس نشریات اسلام کراچی کا قیام دراصل مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ ہی کے تسلسل کے طور پر عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کے قیام اور مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی سے تعلق کے حوالے سے فضل ربی ندوی مرحوم نے اپنے نام مولانا ابوالحسن علی ندوی کے خطوط پر مشتمل کتاب کے دیباچہ میں لکھا تھا:۔
’’ہمارا تعلق پنجابی سوداگران دہلی سے ہے۔ ہماری برادری کاروباری ہونے کے ساتھ خاصا مذہبی رجحان رکھتی ہے۔ یہ 1957ء کی بات ہے کہ میں کلکتہ میں ایک انگلش اسکول میں زیر تعلیم تھا، اُس وقت میری عمر کوئی پندرہ سال ہوگی۔ والد ِ محترم حاجی محمد عارفین رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا علی میاں ندوی قدس سرہ اور ندوۃ العلماء سے تعلق کی وجہ سے مجھے اسکول سے نکال کر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل کردیا۔ یہ اللہ کا عظیم احسان اور میری سعادت اور خوش قسمتی کی بات تھی۔ اس طرح میں ندوہ کے قیام کے دوران حضرت نوّر اللہ مرقدہ کے زیر نگرانی و سرپرستی 1964ء تک رہا۔ ان سات برسوں میں حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ کو قریب سے دیکھا، آپ کی مجلسوں میں بیٹھا، تکیہ رائے بریلی میں بھی خدمت میں رہا…1972ء کے موسم حج میں حضرت مرشدیؒ کے چہیتے بھتیجے محترم محمد میاں ؒ(مولانا محمدالحسنی ندوی، مدیر البعث الاسلامی) سے خوب ملاقاتیں رہیں۔ اکثر ہم دونوں مسجد نبویؐ کے سامنے بخاری آئس کریم والے کی دکان پر عالمِ اسلام، دنیائے اسلام کی ضرورتوں اور زمانے کے تقاضوں کی باتیں کرتے۔ اثنائے گفتگو یہ مسئلہ آیا کہ مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی مدظلہ العالی ،مجلس ِ تحقیقات و نشریات اسلام اور ندوۃ العلماء کی کتابیں پاکستان کے اہلِ علم اور اہلِ ذوق کونہیں ملتیں اور ہندوستان سے کتابیں پاکستان بھیجنا نہایت مشکل کا م ہے ۔محترم محمد میاں مدظلہ نے اس عاجز کا ایک طرح سے ذہن بنایا کہ اشاعتِ کتب کا یہ کام تم اہتمام اور منظم طریقے پر کرو۔اس طرح مجلس نشریات اسلام کراچی کی بنیاد میں محترم مولانا محمد میاںؒ کا خلوص،حضرت مرشدی نور اللہ مرقدہ کی د عائیں، توجہ اور فکر اور مدینہ منورہ کی برکات شامل ہیں۔آج جب میں سوچتا ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ نا اہل سے اتنا بڑا کام کیسے ہوگیا ،جبکہ طباعتِ کتب کے کام کا پہلے مجھے بالکل تجربہ نہیں تھااور اتفاق سے پورے خاندان میں کوئی بھی فرد ایسا نہیںتھا جو اشاعتِ کتب کا تجربہ رکھتا ہواور مجھے مشورہ دے سکے۔یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اس عاجز پر کرم اور فضل اور حضرت مرشدی ؒ کی دعائیں تھیں کہ آج مجلس نشریات اسلا م پاکستان کا ایک بڑا دینی اشاعتی ادارہ بن گیا ہے۔‘‘
درج بالا عبارت فضل ربی ندوی مرحوم نے کتاب ’’مفکرِ اسلام مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کے خطوط بنام فضل ربی‘‘ کے لیے لکھی تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مجلس نشریات اسلام کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کی کتب پاکستانی قارئین تک بآسانی پہنچ سکیں۔ مولانا فضل ربی ندوی نے مسلسل محنت، دانش مندی اور کاروباری سوجھ بوجھ کا استعمال کر کے مسلسل 47 برس تک مجلس نشریات اسلام کی نظامت کی اور جب ان کا انتقال مورخہ 23 دسمبر 2020ء کو ہوا تو ادارے کی کتابوں کی تعداد سات سوسے زائد پہنچ چکی تھی۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نزدیک کتاب لکھنا اور اس کی اشاعت کوئی معمولی کام نہیں تھا، بلکہ کتاب ان کے نزدیک ایک پیغام کا درجہ رکھتی تھی، اور جس طرح مولانا اپنی خطابت کے ذریعے زندگی بھر دین کا پیغام پہنچاتے رہے، اسی طرح کتابوں کے ذریعے بھی چاہتے تھے کہ یہ دعوت دور دور تک پہنچے اور اس پیغام کے پہنچانے کے لیے خوب سے خوب تر اسلوب میں کتاب اس طرح لکھی جائے کہ وہ نہ صرف قدیم بلکہ جدید ذہن کے قارئین کو بھی مطمئن کرسکے اور دین سے تعلق کو مضبوط کرسکے۔ جو لوگ کتابیں لکھنے اور انھیں شائع کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے انھیں مولانا کے یہ الفاظ بغور پڑھنے چاہئیں جو انھوں نے اپنے عزیز شاگرد مولانا فضل ربی ندوی کے نام ایک خط میں تحریر فرمائے تھے:۔
’’اللہ تعالیٰ تم سے کتابوںکی نشر واشاعت کا جو کام لے رہا ہے، وہ بہت اہم ہے اور تمھیں اس پر بہت شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ تمہاری بہت بڑی عبادت اور جہاد ہے، تم کبھی اس کی افادیت میں شک نہ کرنا‘‘ (مکتوب مورخہ: 5فروری1979ء)۔ اسی موضوع پر ایک دوسرے خط میں مولانا نے فضل ربی ندوی کو لکھا تھا: ’’تم نے دعوت و تبلیغ کا اہم محاذ سنبھال رکھا ہے اور اس ملک (پاکستان) میں تم دین کی ایک ایسی سنجیدہ اور مؤثر خدمت کررہے ہو جس کی وہاں کے دینی طبقے کو سخت ضرورت ہے۔ اس لیے تمہارا کام سراسر عبادت و تبلیغ ہے۔ اللہ پر بھروسا رکھو اور نیت کی تجدید کرتے رہو، اور نتائج سے بد دل نہ ہو۔‘‘ (مکتوب مورخہ:22ستمبر1980ء)
خود ان کے استادِ محترم مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتابوں کی پاکستان میں وسیع پیمانے پر اشاعت پر مسرت کا اظہار کرتے تھے۔ اس حوالے سے انہوںنے ’’کاروان زندگی‘‘ کی جلد دوم میں تحریر فرمایا تھا:۔
’’ پاکستان کے اس سفر میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مولوی فضل ربی ندوی کی کوشش و توجہ سے جنھوں نے ہماری تصنیفات کی اشاعت کے لیے پاکستان میں ’مجلس نشریات ِاسلام‘ کے نام سے ناظم آباد کراچی میں مستقل ادارہ اور مکتبہ قائم کیا تھا، میری تصنیفات پاکستان میں خوب پھیل گئی ہیں اور اہل ِذوق نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ اکثر جلسوں میں حاضرین خاص طور پر نوجوانان کوئی نہ کوئی کتاب لیے کھڑے ہوتے تھے اور اس پر دستخط کرنے کی فرمائش کرتے تھے، اور مجھے فطری طور پر یہ دیکھ کر خوشی اور اطمینان ہوا کہ کتابوں کی اشاعت اس ملک میں اتنے وسیع پیمانے پر ہوئی جتنی شاید ہندوستان میں بھی نہیں ہوئی۔‘‘
مولانا ابوالحسن علی ندوی کے مولانا فضل ربی ندوی کے نام خطوط میں ہمیں اور بھی بہت سی مفید معلومات ملتی ہیں، مثلاً مولانا کس طرح اپنے عزیز شاگرد کی قدم قدم پر رہنمائی فرماتے تھے، کس طرح ان کو اوہام و وساوس کے علاج بتاتے تھے، کتابوں کی اشاعت کے بعد کن کن اصحاب ِتعلق کو اعزازی نسخے بھجواتے تھے،کن کن رسائل و اخبارات میں کتابوں پر تبصرے کرانے کے لیے لکھتے، اور ان تبصروں کی اشاعت کے بعد ان کو کس اشتیاق سے منگاتے تاکہ آئندہ ایڈیشن میں ان سے استفادہ کیا جائے۔ اس کے لیے مولانا یہ بھی رہنمائی فرماتے کہ کون کون سی کتابیں پہلے شائع کی جائیں، ان کے لیے کس کس طرح انتظامات کیے جائیں۔
مولانا نے بچوں کے لیے بھی کئی کتابیں لکھیں جو معروف ہیں، ان کتب میں القرأۃ الراشدہ بھی شامل ہے۔ ایک خط میں مولانا نے اس کتاب میں اعراب کے اہتمام کے حوالے سے بڑی اہم بات لکھی :’’القرأۃ الراشدہ‘‘ الجز الاوّل یہاں اچھے اور جلی ٹائپ میں کمپوز ہوئی ہے، نئی تصویریں بھی بنائی گئی ہیں، امید ہے رمضان المبارک میں چھپ جائے گی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تم اس کو دیکھ لو۔ اگر وہ تمہارے معیار کے مطابق ہو تو اس کا آفسٹ لے لینا، اس لیے کہ اعراب کا مسئلہ درسی کتاب میں بڑا نازک ہے، ذرا سی غلطی ہوجائے تو طالب علم کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے اور پھر نہیں نکلتی۔‘‘ (مکتوب مورخہ:2جولائی 1980ء)
مولانا فضل ربی ندوی 1943ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدِ محترم کا تعلق کاروباری طبقے سے تھا اور ان کا قیام کلکتہ میں تھا۔ ان کی خواہش پر مولانا فضل ربی کا داخلہ 1957ء میں برصغیر کے معروف تعلیمی ادارے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ہوا، جہاں آپ 1964ء تک زیر تعلیم رہے۔ اسی سال مولانا کے والدِ محترم حاجی محمد عارفین مرحوم مع اہل و عیال کلکتہ سے کراچی منتقل ہوگئے۔ مولانا فضل ربی نے کراچی منتقل ہونے کے بعد جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون سے دورہ حدیث مکمل کیا، جہاں ان کے اساتذہ میں مولانا محمد یوسف بنوری بھی شامل تھے۔ مولانا فضل ربی ندوی کا روحانی و اصلاحی تعلق مولانا ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹر عبدالحئی، سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب اور مولانا سعید احمد جلالپوری سے رہا۔
مولانا فضل ربی ندوی نے تن تنہا مجلس نشریات اسلام کے قیام اور اس کی ترقی کے لیے جو کاوشیں کیں وہ نہ صرف قابلِ رشک ہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی۔کتابوں کی ظاہری خوبصورتی پر بھی ان کی خاص نظر رہتی۔ ان کی بیشتر کتب کے خوبصورت ٹائٹل معروف خطاط عبدالمجید دہلوی مرحوم نے تیار کیے تھے۔ کتابوں کے یہ ٹائٹل خوبصورت خطاطی، تزئین اور عمدہ رنگوں کی وجہ سے اس قدر خوبصورت ہوتے کہ انہیں دیکھ کر اعلیٰ ذوق قارئین کی بار بار دیکھنے سے بھی سیری نہیں ہوتی۔ انھوں نے کتابوں کی اشاعت کی خاطر ایک جدّت کا مظاہرہ یوں بھی کیا تھا کہ اسٹیل کی پلیٹوں پر عبدالمجید دہلوی مرحوم کی خطاطی سے مختصر اشتہار طبع کرایا تھا جو کتب فروشوں کی دکانوں کے بیرونی جانب نصب شدہ نظر آتا تھا۔ اس پلیٹ کی خطاطی اور رنگ آمیری بھی بہت خوبصورت اور جاذبِ نظرتھی۔ ایک ملاقات کے دوران فضل ربی مرحوم نے اس قسم کی ایک پلیٹ راقم الحروف کو بھی عطا کی تھی جو اَب تک راقم کے پاس محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ عبدالمجید دہلوی مرحوم کے خط میں کتابوں کا اشتہار بھی معروف اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔ ایک ملاقات کے دوران عبدالمجید دہلوی مرحوم نے راقم سے بیان کیا تھا کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی جب کراچی نشریف لائے تو فضل ربی ندوی مرحوم کے ہمراہ ان کے گھر بھی آئے تھے اور کتابوں کے ٹائٹلوں پر پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ عبدالمجید دہلوی مرحوم کے علاوہ فضل ربی ندوی مرحوم نے متعدد کتب کے ٹائٹلوں کی خطاطی نامور خطاط اور شیخ طریقت سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب سے بھی کرائی تھی۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود فضل ربی مرحوم کتابوں کی قیمتیں کم سے کم رکھتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک کتب بآسانی پہنچ سکیں۔ ان کا معاملہ ان ناشرینِ کتب سا نہیں تھا جو کتابوں کی قیمتیں اتنی زیادہ رکھتے ہیں کہ یوں لگتا ہے وہ کتابیں فروخت کرنے کے بجائے قارئین کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہوں۔
مولانا فضل ربی ندوی نے مجلس نشریات اسلام کے زیراہتمام صرف مولانا ابوالحسن علی ندوی ہی کی نہیں بلکہ کئی مصنفین کی اعلیٰ پائے کی کتب شائع کیں اور یوں پاکستانی قارئین تک ان کتب کی رسائی آسان کی۔ ان مصنفین میں مولانا سیّد سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا محمد منظور نعمانی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا سیّد رابع حسنی ندوی، مولانا شہاب الدین ندوی، ڈاکٹر سیّد رضوان علی ندوی، مولانا عبدالکریم پاریکھ، مولانا سیّد سلیمان حسینی ندوی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، مولانا شرافت حسین رحیم آبادی، مولانا قاری صدیق احمد باندوی، ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی، علامہ خلیل عرب، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا شمس الحق ندوی و دیگر حضرات شامل ہیں۔
ان سطور کے عاجز راقم سے مولانا فضل ربی ندوی کے گزشتہ تیس برس سے تعلقات تھے۔ وہ متعدد مرتبہ غریب خانے پر تشریف لائے اور راقم کی اُن کے دفتر اور گھر میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہمیشہ ان کی مہمان نوازی، اپنائیت اور بے تکلفی کا تاثر قائم ہوا۔بعض کتب کے حوالے سے مشورے بھی کیے اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کے انتقا ل کے بعد ان کی یاد میں مجموعۂ مضامین ’’نذرانۂ عقیدت ‘‘ اور ’’خطوط مفکرِ اسلام مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی بنام فضل ربی ندوی‘‘ کی طباعت سے قبل کے مختلف کام بھی کرائے، اور یوں اس سعادت میں راقم کو بھی شریک کیا۔ ان کا تعلق دینی گھرانے سے تھا، اسی وجہ سے انہوںنے نہ صرف دین سے عملی تعلق رکھا،عمر بھر دینی اداروں کی معاونت کی بلکہ اپنے چاروں صاحب زادوں کو حفظِ قرآن بھی کرایا اور دینی تعلیم بھی دلائی۔امید ہے ان کے صاحب زادے مجلس نشریات اسلام کے تحت معیاری دینی اور علمی کتب کی اشاعت جاری رکھیں گے اور یوں مولانا فضل ربی ندوی نے تقریباً پچاس برس قبل جو چراغ جلایا تھا،ان کے صاحب زادے اس کی روشنی کو مزید پھیلائیں گے۔
دعا ہے اللہ مولانا فضل ربی ندوی کی کامل مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند مقام عطا کرے۔ آمین