عمومی وقت سے قبل (پری میچور) ہونے والے بچے

اندیشے، خدشات، امید

”ڈاکٹر صاحب تین مہینے تک روئی میں لپیٹ کر گرمائش پہنچائی ہے، ڈراپر سے دودھ پلایا، دودھ پلا کر ڈکار دلانے میں گھنٹہ لگ جاتا تھا۔ بس ڈاکٹر صاحب! کلیجے سے لگا کر پالا ہے۔“ وہ بہت جوش سے بتارہی تھیں اور خوشی ان کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔
ہر ماں کی خواہش ایک صحت مند بچہ ہوتا ہے۔ مگر بچہ وقت سے پہلے پیدا ہوجائے تو خدشات، اندیشے، ایک اَن دیکھا خوف، کبھی کبھی ماں کو اندر سے ایک خلش کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی؟
وہ کیا وجوہات اور عوامل ہیں جو بچے کو وقت سے پہلے ہی دنیا میں لے آتے ہیں۔ کن بچوں کو قبل از وقت نوزائیدہ (Pre mature) کہا جاتا ہے، اور ان کے مسائل کیا ہیں۔ یہ آج کا موضوع ہے۔
37 ہفتے یا 259 دن سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کو قبل از وقت نوزائیدہ یا Premature کہتے ہیں۔
ایک کم وزن بچہ اپنے وقت پر اگر پیدا ہوا ہو تو اُس میں اور ایک وقت سے پہلے مگر وزن کے اعتبار سے بہتر بچے میں فرق ہوتا ہے، اور دنیا میں آنے کے بعد اور مستقبل میں دونوں کے مسائل اور رویّے مختلف ہوتے ہیں۔
جو بچہ وقت سے جتنا زیادہ پہلے پیدا ہوگا اتنے ہی اس کے مسائل زیادہ ہوں گے۔
موجودہ دنیا میں 24 ہفتے کا بچہ اگر پیدا ہوجائے تو اس کی نگہداشت اور بچانے کی کوشش درست مانی جاتی ہے۔
اس سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں پر ابھی تک کی ریسرچ کے مطابق کام کرنے یا وقت لگانے کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ 24 ہفتے اور اس کے بعد ہر ہفتے کی بڑھتی ہوئی عمر میں زندگی کی توقع بڑھتی جاتی ہے، ہر ہر دن کاؤنٹ کرتا ہے۔
بچہ جتنا پری میچور، اتنے ہی اس کے ساخت اور اعصابی نظام کے مسائل زیادہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔
24 سے 28 ہفتے کے بچوں کو Extremely Premature، 28 سے 32 ہفتے کے بچوں کو Very Premature، 32 سے 36 ہفتوں کے درمیان والے بچوں کو Premature، اور اس سے اوپر 37 ہفتے تک Late premature کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 12 سے 16 فیصد بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس کی وجوہات کو دیکھا جائے تو:
٭ماں کا انفیکشن، رحمِ مادر کا انفیکشن
٭ماں کی عمر 17 سال سے کم یا 35 سال سے زیادہ
٭زندگی کی مشکلات
٭حمل سے پہلے کم وزن اور حمل کے دوران وزن کا بہتر انداز میں نہ بڑھنا
٭ماں کی بیماریاں مثلاً بلڈ پریشر، شوگر کی بیماری، گردوں کی بیماری، تھائرائیڈ کی بیماری یا دیگر بیماریاں
٭ماں کو غذائی قلت اور دیگر کئی مسائل
بچے کی طرف سے مسائل:
٭بچے میں ساخت، جینیاتی (Genetic) مسائل یعنی Congenital Anomalies
٭بچے کا ماں کے پیٹ میں انفیکشن
جو بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں، وہ عام طور پر بچوں کی نرسری میں داخل کیے جاتے ہیں، تاکہ ان کا اچھی طرح معائنہ کرلیا جائے، اور ان کے درجہ حرارت اور غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاسکے، ساتھ ہی ساتھ اگر کوئی بیماری یا قبل از وقت پیدائش کی وجہ سے مسئلہ ہے تو اس کو بروقت علاج سے دور کیا جاسکے۔
ان بچوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ ان کا درجہ حرارت ٹھیک رہے جس کے لیے انکیوبیٹر یا ہیٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں، بہت زیادہ گرمی بخار میں مبتلا کردیتی ہے اور کم درجہ حرارت بھی انفیکشن اور گلوکوز کے میٹابولزم کو ڈسٹرب کرتا ہے۔ اس لیے متوازن درجہ حرارت وزن اور عمر کے حساب سے ہونا چاہیے۔ انکیوبیٹر میں درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے بعض اوقات بہت ہی پری میچور بچوں کے لیے خصوصی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ انکیوبیٹر کے اندر ایک دوسری دیوار /(Double Wall Incubator)، یا پھر پلاسٹک ریپ کی مدد سے ایک اضافی دیوار بنائی جاتی ہے۔ ان کے گلوکوز کو متوازن رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ اگر جسم میں شکر مستقل کم رہے تو جہاں جسمانی مسائل ہوتے ہیں وہاں دماغ کی نشوونما پر بھی شدید گہرے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اگر ایک مرتبہ کم شکر یعنی Hypoglycemia کی وجہ سے دماغ مستقل طور پر متاثر ہوجائے تو دماغی معذوری ہوجاتی ہے۔ اس لیے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو نرسری میں شوگر کنٹرول کے لیے ڈرپ لگائی جاتی ہے، اور بار بار شوگر چیک کرتے ہیں ایک متعین کردہ وقت پر کہ کہیں بہت کم یا بہت زیادہ تو نہیں، تاوقتیکہ وہ اتنا دودھ پینا شروع کردیں جو ان کے گلوکوز کو متوازن کرے اور ان کو اپنی غذائی ضروریات کے لیے ڈرپس کی ضرورت نہ رہے۔ نرسری میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان میں کسی قسم کی بیماری کے آثار نہ ہوں، یعنی بچے کی سانس ٹھیک ہے، اس کے دل میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کا اعصابی نظام درست کام کررہا ہے۔ اس کے لیے سینے کے ایکس رے، دماغ کے الٹراساؤنڈ اور دل کے خاص الٹراساؤنڈ یعنی ایکو کارڈیو، (Echo) بھی ضرورت اور کیس کی نوعیت کے مطابق کرتے ہیں۔
پری میچور بچوں میں عام طور پر چند مسائل زیادہ ہوتے ہیں اور نیوبورن اسپیشلسٹ آپ کو ان سے متعلق خصوصی ہدایات دیتے ہیں۔
مثلاً ان بچوں میں سانس کے مسائل، دل کے مسائل، ہڈیوں کی کمزوری کے مسائل، آنتوں کے مسائل جن کی وجہ سے بعض اوقات غذا کے ہضم ہونے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، بہت زیادہ پری میچور بچوں کو ان ہی پیٹ کے مسائل یا پری میچورٹی کی وجہ سے دودھ پلانے میں مشکل رہتی ہے، اچھا خاصا دودھ پیتے پیتے چھوڑ دیتے ہیں یا ہضم نہیں کرتے، پیٹ پھولنا شروع ہوجاتا ہے اور دودھ روکنا پڑ جاتا ہے۔
نیوبورن اسپیشلسٹ کے لیے تو یہ روزمرہ کے معمولات ہیں، مگر والدین کے لیے شدید پژمردگی اور تنائو کی وجہ بنتے ہیں۔
قبل از وقت پیدا ہونے کی وجہ سے دماغ بھی کمزور ہوتا ہے، اور اکثر نرسری میں وقت سے پہلے پیدائش کے سبب ہونے والے زندگی کے اتار چڑھاؤ سے دماغ کے حصے بھی متاثر ہوتے ہیں، کبھی ان میں خون جم جاتا ہے، کبھی خون بہہ جاتا ہے، اور اس کی وجہ سے دماغ کی شریان پھٹ جاتی ہے جس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے اُس وقت بھی اور مستقبل میں بھی۔ قبل از وقت پیدائش سے بینائی کے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔
ان بچوں کو نرسری سے گھر بھیجتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، مثلآً جسم کا درجہ حرارت کس طرح ٹھیک رکھا جائے گا، یعنی موسم کی مناسبت سے لباس کا انتخاب، کمرے کا درجہ حرارت، بہت زیادہ لپیٹنے کے نقصانات، یا سردی کے دنوں میں کم لباس اور کم لپیٹ کر رکھنے کے مسائل۔ گھر سے باہر اگر مجبوری میں نکلنا پڑے تو کیا کریں وغیرہ وغیرہ، غذا کس طرح دی جائے گی۔ بعض اوقات بچوں کو نلکی کے ذریعے غذا یعنی دودھ پلایا جاتا ہے، نلکی کے علاوہ کیا طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔۔۔ فنگر فیڈنگ، اسپون فیڈنگ، کپ فیڈنگ، یعنی پری میچور کو دودھ پلانے کا کون سا طریقہ بہتر ہے؟ ایک لاٹھی سے سب کو نہیں ہانک سکتے، یہ محاورہ یہاں سمجھ میں آتا ہے۔ عام طور پر مخصوص حالات کےسوا بوتل سے دودھ پلانا بالکل ٹھیک نہیں، جہاں مجبوری میں پلانا پڑے تو وہاں ماں کا دودھ نکال کر ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق پلائیں۔ ماں کا دودھ ہر بچے کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کہ ہر ماں کا دودھ اُس کے بچے کے لیے مخصوص خصوصیات کا حامل ہے۔
ماں کے دودھ کو محفوظ بھی رکھا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نلکی کے ذریعے یا مجبوراً بوتل کے ذریعے پلا رہے ہیں تو نکال کر 24 گھنٹے کے لیے فریج کے نچلے حصے میں، اور مہینوں کے لیے اوپر والے حصے یعنی فریزر میں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یعنی اگر ماں محنت کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ بچے کو ڈبے کے دودھ کی ضرورت پڑے۔
بچے کو دودھ پلانے کے بعد ڈکار دلوانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دودھ پلانا۔
پری میچور بچے عام طور پر دودھ نکالتے رہتے ہیں منہ سے، اور اس کو GERD / Gastroesophageal Reflux یا عام طور پر ریفلکس بھی کہتے ہیں اور یہ بہت کامن ہے۔ اسی لیے ان بچوں کو لازمی ڈکار دلوائیں، ورنہ یہ دودھ ناک میں چڑھ جاتا ہے اور بچے مسلسل بے چین رہتے ہیں، اور اس طرح وہ بار بار نمونیا اور کھانسی میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔
عام طور پر 34-35 ہفتے کا بچہ یہ سیکھ لیتا ہے کہ کیسے دودھ چوسنا ہے اور کیسے اس کو نگلنا ہے۔ اس سے پہلے یہ عمل اس کے لیے مشکل ہے۔
اسی طرح جو بچے 32 ہفتے سے پہلے پیدا ہوتے ہیں یا لمبے عرصے وینٹی لیٹر یا آکسیجن پر اپنی بیماری اور ضرورت کے مطابق رہتے ہیں، ان کی آنکھوں کا چیک اپ لازمی ہے 3۔4 ہفتے کی عمر میں۔ اور اس کو ROP اسکریننگ کہتے ہیں، تاکہ اگر بچے کی آنکھوں کو پری میچورٹی کی وجہ سے کوئی مسئلہ ہے تو بچوں کی آنکھوں کے ڈاکٹر اس کو بروقت ٹھیک کرنے کی کوشش کریں، ورنہ ہماری لاپروائی سے بچہ بینائی سے محروم ہوسکتا ہے۔
اسی طرح لازمی طور پر تمام پری میچور بچوں کی سماعت بھی چیک ہونی چاہیے، کیونکہ عام طور پر پری میچور بچوں کو جب نرسری میں رکھا جاتا ہے اور انفیکشن کو کنٹرول کرنے، ختم کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹک ادویہ کا استعمال کرتے ہیں تو عام طور پر جو دوائیں استعمال ہوتی ہیں ان سے قوتِ سماعت کے متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔
جو پری میچور بچے لمبا عرصہ نرسری میں گزارتے ہیں، سانس کے مسائل یا بہت زیادہ پری میچور ہونے کی وجہ سے آکسیجن یا وینٹی لیٹر سپورٹ پر رہے ہوتے ہیں وہ گھر جانے کے بعد اور زیادہ احتیاط کے متقاضی ہوتے ہیں، کیونکہ نرسری میں تو سارا کنٹرول نرسری کی ٹیم کے پاس ہوتا ہے، مگر گھر میں لاپروائی سارا کام بگاڑ سکتی ہے۔ ایسے بچوں کے سامنے کمرے میں جھاڑو نہیں لگانی چاہیے، اس کے بجائے گیلے کپڑے کا پوچا زیادہ بہتر ہے۔ کسی بھی نومولود کو پاؤڈر بالکل نہیں لگانا چاہیے، اسی طرح ان بچوں کے آس پاس کھانسنے اور چھینکنے والوں کا گزر بالکل ممنوع ہے۔ تیز آواز میں گفتگو بھی نہیں کرنی چاہیے۔ ماں کو بھی اگر نزلہ ہے تو لازمی طور پر ماسک لگا کر بچے کی دیکھ بھال کرے۔
ویسے تو بچوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو ہاتھوں کی صفائی کا خیال لازمی طور پر رکھنا چاہیے، مگرقبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے معاملے میں یہ اور بھی ضروری ہے۔
اس کی غذا کا خیال رکھیں، یعنی ہر دو گھنٹے بعد دودھ پلائیں۔ بچہ اگر دیر تک سو رہا ہے تو شاید اس کی شکر کا لیول کم ہورہا ہے، کیونکہ جتنا چھوٹا اور کم وزن، اتنے اس کے شکر کے اسٹور۔ اس لیے اس کو جلدی بھوک لگنی چاہیے، دیر سے بھوک لگنا یا بالکل ہی بھوک نہ لگنا الارمنگ اور چھوٹے بچوں میں بیماری کی اولین علامت ہے۔ اسی طرح کم پیشاب کرنا بھی دودھ کی کمی کی پہلی نشانی ہے۔ پری میچور بچے کبھی کبھی دو تین دن تک بھی پوٹی نہیں کرتے، لیکن اگر دودھ صحیح طرح سے پی رہے ہوں تو پیشاب بار بار کرتے ہیں اور ہوا خارج کرتے رہتے ہیں۔
اگر پوٹی نہیں کی مگر پیٹ بھی پھولا ہوا نہیں، اور الٹی بھی نہیں کی۔۔۔ دودھ پی کر پُرسکون ہے تو اگر وہ دو تین دن بھی پوٹی نہ کرے تو پریشانی کی کوئی وجہ نہیں۔
بچوں کو دودھ پلا کر ڈکار دلواکر تھوڑا سا اونچا لٹانا چاہیے، اور بہتر طریقے سے دودھ ہضم کرانے کے لیے ماں اپنی گود میں تھوڑی دیر کے لیے الٹا یعنی پیٹ کے بل بھی لٹا سکتی ہے، مگر جب بھی جھولے میں یا بستر پر لٹائیں تو لازمی طور پر پیٹھ کے بل لٹائیں۔ اس طرح ہم بچوں کوSudden Infant Death Syndrome (SIDS)سے محفوظ رکھتے ہیں اور پیٹھ کے بل یا Back to Sleep، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
پری میچور بچوں کی ہڈیاں بھی وقت پر پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت کمزور ہوتی ہیں، اس لیے ان کو وٹامن ڈی اور کیلشیم کی ضرورت عام بچوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
آپ کا ڈاکٹر آپ کو دھوپ لگانے کے مشورے سے لے کر بعض اوقات بالکل ابتدا ہی سے وٹامنز اور کیلشیم کے استعمال کا مشورہ دے گا، یہ مشورہ ہر بچے کے لیے اُس کی ضروریات کے حساب سے مختلف ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس سلسلے میں صرف اپنے ڈاکٹر ہی کی بات مانیں۔
پری میچور بچے عام طور پر 20-25 گرام روزانہ کے حساب سے وزن بڑھاتے ہیں اگر ان کو صحیح طرح سے دودھ پلایا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہورہا تو اس کا مطلب ہے دودھ کی کمی یا پھر بچے میں بیماری جس کو سوکھا پن (Failure to Thrive) کہتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال سے بچنے کا طریقہ ہے بچے کا مستقل، متواتر مخصوص وقفے سے چیک اپ۔
ایک خاص بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ بچہ جتنا وقت سے پہلے پیدا ہوا ہے اتنا ہی اس کی نشوونما اور بڑھوتری میں تاخیر ہوگی، اور اس سے عموماً توقع رکھنی چاہیے کہ وہ اتنے ہفتے دیر سے ہی تمام کام کرے گا جو اس عمر کو پہنچنے والے بچے کرتے ہیں۔ یعنی اعصابی نظام اس کا اتنے ہفتے پیچھے چلے گا۔
اگر ایک بچہ 24 ہفتے پر پیدا ہوا ہے تو وہ تقریباً 13 ہفتے پہلے دنیا میں آگیا ہے، اگر بہترین نگہداشت کے بعد اب وہ اپنے گھر پر ہے تو اس کی سالگرہ تو یقیناً اسی تاریخ کو منائی جائے گی جس دن وہ پیدا ہوا، مگر اس سے کاموں کی توقع 13 ہفتے کم کی رکھی جائے گی، اور اس کو درستی عمر (Corrected age) کہا جاتا ہے۔ جتنے ہفتے پہلے پیدا ہوا ہے اتنے ہفتے تفریق کرکے اس کے مائل اسٹون (Mile Stone) چیک کرنے چاہئیں، یعنی 24 ہفتے والے بچے سے اس کی سالگرہ پر 9 مہینے والے کاموں کی توقع رکھنی چاہیے۔ اس طرح ماں ڈپریشن میں مبتلا نہیں ہوگی کہ ہائے میرا بچہ فلاں فلاں بچے سے بہت پیچھے رہ گیا، کیا ہوگا اس کا! وغیرہ وغیرہ۔
یہ Corrected age والا سلسلہ 2 سال کی عمر تک ٹھیک ہے۔ اس کے بعد اسی دن پیدا ہوئے نارمل بچے اور پری میچور میں فرق نہیں رہنا چاہیے اگر پری میچور بچے کی دیکھ بھال درست طریقے سے کی گئی ہے۔
ایک اور بہت ہی خاص بات۔۔۔ پری میچور بچے جتنے زیادہ پری میچور اور بیمار ہوتے ہیں اور ان کو لمبا عرصہ مشینوں، آکسیجن اور ادویہ پر رہنا پڑتا ہے اتنا ہی ان کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق زیادہ پری میچور بچوں میں سے تقریباً 30 فیصد میں کسی نہ کسی اعصابی نظام میں خلل (Neurological Deficit) کے امکانات ہوتے ہیں، مثلاً آنکھوں میں خرابی، سماعت میں خرابی، دماغ میں ابتدائی دنوں میں خون جم جانے کی وجہ سے ذہنی معذوری، وغیرہ وغیرہ۔
پری میچور بچوں کو ویکسین جوں ہی وہ اس قابل ہوں عام روٹین کے حساب سے ہی لگنی چاہیے۔ وزن کی کمی یا بلاوجہ پری میچور ہونے کی وجہ سے نہ لگوانا درست رویہ نہیں۔
یہ چند اہم باتیں Premature newborn کے بارے میں تھیں۔
آئندہ ان شاء اللہ نومولود بچوں کے مزید مسائل پر بات کریں گے۔