بگٹی ہاؤس کا نواب

جب روس افغانستان پر حملہ آور ہوا

۔27 دسمبر کی یخ بستہ رات تھی۔ میں نوائے وقت کے سینئر صحافی عزیز بھٹی سے کوئٹہ پریس کلب میں خبریںسن رہا تھا۔ ٹی وی پر خبریں آنا شروع ہوئیں تو پہلی خبر تھی کہ سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئی ہیں اور بگرام ائیرپورٹ پر بھی اتر رہی ہیں۔ یہ خبر میرے لیے دھماکے سے کم نہ تھی۔ ذہن الجھ گیا۔ خطرات، خدشات ذہن میں بڑی تیزی سے گھوم رہے تھے۔ کچھ دیر بعد گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔ مسجد روڈ سے گزر رہا تھا کہ عشا کی اذان بلند ہوگئی۔ اس وقت دعا کی: یااللہ پاکستان کی حفاظت فرما، ملک آزاد رہے اور اللہ کا کلمہ آزاد فضائوں میں بلند ہوتا رہے۔ اذان کے کلمہ نے ایک احساس پیدا کیا اور آزاد ملک کی حیثیت کا اندازہ ہوگیا۔ ذہن میں خیالات کا ایک ہجوم تھا جو آرہا تھا اور جارہا تھا۔ دسمبر کی سرد رات کا احساس بھی نہیں ہوا۔ اپنے گھر کے قریب پہنچا تھا کہ کسی نے پیچھے سے آواز دی ’’شادیزئی صاحب‘‘۔ میں رک گیا، مڑ کر دیکھا تو محمد خان مری (مرحوم) آرہے تھے۔ یہ ایوب خان کے دورِ مارشل لا میں جمعیت کے رفیق تھے، بعد میں جب ریٹائر ہوگئے تو انہیں جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت دی، اور وہ رکن بن گئے۔ مرحوم انتہائی ذہین شخص تھے اور بلوچستان کی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی۔ نواب خیر بخش مری سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔ جب میں رک گیا تو وہ تیزی سے میرے قریب آئے اور پوچھا ’’آپ کو خبر ہے؟‘‘ میرا جواب تھا ’’ہاں‘‘، تو انہوں نے پوچھا ’’آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ میراجواب تھا ’’سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوگی‘‘۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھ رہے تھے، پھر کہا’’ آپ کیا کہہ رہے ہیں!‘‘ میرا جواب تھا کہ ’’سوویت یونین کو شکست ہوگی، آپ انتظار کریں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’شادیزئی صاحب آپ ذہین انسان ہیں، سیاست پر گہری نظر ہے، لیکن آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے اس پر یقین نہیں آرہا ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر روانہ ہو گئے اور میں اپنے گھر کی طرف۔
۔29 دسمبر کو بعد نماز مغرب نواب اکبر خان بگٹی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ میں ان کی رائے سے آگاہ ہونا چاہتا تھا۔ وہ ایک بلوچ قوم پرست نواب اور سیاست دان تھے۔ وہ اس طرح کے قوم پرست بلوچ نہیں تھے جس طرح دیگر بلوچ رہنما یا نواب تھے۔ وہ کمیونزم اور سوشلزم کے حامی نہیں تھے جس طرح خیر بخش خان مری اور غوث بخش بزنجو تھے۔
بگٹی ہائوس پہنچا۔ نواب کے پیغامبر نے نواب کو بتایا کہ شادیزئی آیا ہے، تو میرے لیے نواب کے مہمان خانے کا دروازہ کھول دیا گیا۔ نواب صاحب بعض دفعہ اس چھوٹے سے مہمان خانے میں بھی مہمانوں سے ملتے تھے۔ اس میں 5۔6 لوگ آسکتے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوئے۔ سفید کھدر کے لباس میں ملبوس تھے۔ چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ نمایاں تھی۔ مجھ سے کہا ’’ملاّ مبارک ہو، آپ کے دوست افغانستان میں آگئے ہیں‘‘۔ ان سے کہا ’’جی معلوم ہے‘‘۔ نواب صاحب نے کہا ’’پھر تم تیاری کرو‘‘۔ ان سے کہا کہ ’’میں تو فٹ پاتھ کا آدمی ہوں، سوویت یونین کو مجھے ڈھونڈنے میں وقت لگے گا، اور پھر میں مقابلہ کروں گا، زندہ ان کے ہاتھ نہیں آئوں گا۔‘‘ یہ ساری گفتگو کھڑے کھڑے ہورہی تھی۔ ان سے بے تکلفی تھی، میں نے کہا ’’آپ بلوچ نواب ہیں، سردار ہیں، سوویت یونین مجھے مارنے سے پہلے آپ کو مارے گا، آپ مجھ سے پہلے مارے جائیں گے۔ آپ جب پکڑے جائیں تو اُن سے کہیے گا کہ میں نواب ہوں، گردن ذرا اونچی جگہ سے کاٹنا‘‘۔ وہ ہنس پڑے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں ان سے کیا کہنے والا ہوں۔ وہ بیٹھ گئے تو میں بھی ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ اب کھانا لگنے کا مرحلہ شروع ہوگیا تھا۔ جب نواب صاحب کچھ پُرسکون ہوگئے تو میں نے کہا ’’نواب صاحب! یہ افغانستان ہے۔ یہ نہ چیکوسلواکیہ ہے اور نہ پولینڈ۔ ان دونوں ملکوں کو سوویت یونین نے صرف ایک ہفتے کی مزاحمت کے بعد فتح کرلیا تھا۔‘‘ اس کا نواب صاحب کو علم تھا۔ اس کے بعد میں نے جو کچھ کہا وہ نواب کے لیے ایک بم دھماکے سے کم نہ تھا، ان سے کہا ’’سوویت یونین کی سرخ فوج کو افغانستان میں شکست ہوگی‘‘۔ یہ سنتے ہی ان کے چہرے پر سخت کھچائو پیدا ہوگیا، آنکھیں شعلہ بار ہوگئیں، چہرہ غصہ زدہ ہوگیا، انہوں نے میری طرف غصے سے دیکھا اور ایک ہی سانس میں کہا ’’تم پاگل ہو، مذہبی آدمی ہو، جنونی شخص ہو، تم جماعت اسلامی کے فرد ہو، تم ہوش میں نہیں ہو۔ روس کو کون شکست دے سکتا ہے؟‘‘ لیکن میرا جواب وہی تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوگی، یہ کوئی پولینڈ یا چیکوسلواکیہ نہیں ہے‘‘۔ وہ پھر بپھر گئے اور سخت لہجے میں کہا ’’خاموش ہوجائو۔ تم پاگل اور جنونی شخص ہو۔ زیادہ مت بولو‘‘۔ کھانا لگ چکا تھا، انہوں نے کہا کھانا کھائو۔
نواب ذرا پُرسکون ہوئے تو انہیں احساس ہوا کہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں نے موضوع بدل دیا۔
وقت گزر رہا تھا اور نواب صاحب اپنے مؤقف پر قائم تھے، لیکن اب ان کے خیالات ماضی جیسے نہیں رہے تھے۔ اس عرصے میں بین الاقوامی قوتیں بلوچستان میں پہنچ رہی تھیں اور کوئٹہ کے آغا خان ہوٹل میں تمام کمرے بک ہوچکے تھے۔ امریکن سی آئی اے کے کارندوں نے صحافیوں اور دانشوروں کے بھیس میں کوئٹہ کو مرکز بنا لیا تھا۔ ہوٹل کی چھت پر کیمرے اور وائرلیس سسٹم لگ چکا تھا۔ لمحے لمحے کی خبریں مل رہی تھیں اور نشر ہورہی تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے کارندے جمع ہوگئے تھے اور اُن صحافیوں کے وارے نیارے ہوگئے جو پشتو، فارسی اور انگریزی جانتے تھے۔ بعض سرکاری افسروں نے بھی ڈالر کی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ انگلش سینٹر کے طالب علم ان کے بڑے کام آئے۔
نواب بگٹی سے ملنے تمام غیر ملکی صحافی اور دیگر حضرات بگٹی ہائوس آتے تھے۔ میرا روز کا معمول تھا کہ نواب صاحب کے پاس جاتا اور مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرتا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوتا کہ ایک بلوچ نواب ان پہلوئوں پر کیسے سوچتا ہے اور مستقبل میں پاکستان، افغانستان اور بلوچستان کو کیسے دیکھتا ہے اور کہاں دیکھتا ہے۔
ایک شام نواب صاحب کے پاس پہنچا تو ایک سرخ و سفید رنگ کا شخص پہلے سے موجود تھا۔ میں سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اب روسی جارحیت کو چار سال ہوگئے تھے۔ افغانستان مزاحمت کررہا تھا۔ جب بیٹھ گیا تو نواب نے کہا کہ تمہارا دوست آگیا ہے، یہ روسی صحافی ہے۔ اور اُس کو بتایا کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ یہ سنتے ہی اُس شخص نے میری طرف نفرت اور غصے سے دیکھا اور مجھ پر لفظوں کی بھرمار کردی۔میں ذہنی طور پر فیصلہ کرچکا تھا کہ جواب جارحانہ دوں گا، کوئی وضاحت نہیں کروں گا، نہ کوئی صفائی پیش کروں گا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ شخص کے جی بی کارندہ ہے۔
اس نے پہلا حملہ یہ کیا کہ ’’جماعت اسلامی والے افغانستان میں اسلحہ بھیج رہے ہیں۔ آپ اس اسلحہ سے افغانستان میں عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے ہیں‘‘۔ میرا جواب تھا کہ ’’ہاں یہ درست ہے، جو بھی تمہارا حامی ہوگا ہم اس کو ماریں گے خواہ وہ عورتیں ہوں یا بچے۔‘‘ (میرا مقصد اس کو مشتعل کرنا تھا) اس لیے ایسا جواب دیا۔ میرے جواب سے اس کا چہرہ کھنچ گیا تھا اور آنکھوں میں نفرت نمایاں ہوگئی تھی۔ اس نے کہا کہ ’’آپ لوگ دراصل اپنی قسمت سے لڑ رہے ہیں‘‘۔ میرا جواب تھا کہ’’ اگر قسمت ہماری دشمن ہوگئی ہے تو ہم اپنی قسمت سے بھی لڑیں گے‘‘۔ میرے اس جارحانہ رویّے سے وہ کچھ کچھ بوکھلا گیا تھا۔ ’’ہم نے افغانستان میں سڑکیں بنائی ہیں‘‘۔ میرا جواب تھا کہ ’’سڑکیں آپ نے ٹینکوں کو لانے کے لیے بنائی تھیں، افغانستان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا۔تم لوگوں نے افغانستان کو پسماندہ رکھا۔ کارخانے کیوں نہیں لگائے؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’سوویت یونین نے کراچی میں اسٹیل کا کارخانہ بنایا‘‘۔ میرا جواب تھا کہ ’’میں پاکستان کی بات نہیں کر رہا ہوں، افغانستان میں کیا لگایا؟ اس کا جواب دو‘‘۔ اس کے پاس اب کوئی جواب نہ تھا۔ اب اس پر ایک اور جارحانہ حملہ کیا، اس سے کہا کہ ’’سوویت یونین کا فلسفہ تو Progressiveتھا، آپ کی حکومت نے کس طرح ایک بورژوا اور بوسیدہ بادشاہی نظام کو استحکام بخشا؟‘‘اس کے پاس میرے جارحانہ سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس روسی کو دیکھا تو ذہن میں خیال آیا کہ اس کو مار دیناچاہیے، پھر اس خیال کو جھٹک دیا۔نواب صاحب اس گفتگو اور گرماگرم بحث سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس طرح نواب بگٹی کے بگٹی ہائوس میں ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے ہے‘‘ والی بات ہو رہی تھی۔
ایک دن گیا تو نواب کا ایک اور مہمان موجود تھا۔ یہ بھی ایک برطانوی صحافی تھا جو قندھار سے ہوتا ہوا آرہا تھا۔ نواب نے اس سے پوچھا کہ قندھار کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا بالکل خاموشی ہے، وہاں کوئی مزاحمت نہیں ہے، امن و امان ہے۔ نواب نے مجھ سے کہا: وہاں کچھ بھی نہیں ہے، صرف امریکہ کا پروپیگنڈہ ہے۔ لوگ آرام سے رہ رہے ہیں۔ میں نے اس برٹش صحافی سے کہا کہ تم انتظار کرو، قندھار بھی ایک دن جاگ جائے گا، یہ ماحول ابتدائی دور کا ہے۔ اس کو تاریخ کا حوالہ دیا تو وہ بہت سٹپٹایا۔ اس سے کہا کہ تمہیں یاد ہوگا کہ افغانستان میں تمہاری فوج کے 17 ہزار فوجی قندھار سے واپسی پر تہہ تیغ کردیے گئے اور صرف ایک ڈاکٹرزندہ بچ کرگیا تھا، بلکہ اس کو افغانوں نے زندہ رکھا تاکہ وہ اپنی کہانی سنا سکے۔ وہ صحافی کچھ کچھ شرمندہ ہوگیا، اس نے کہا کہ 17 ہزار نہیں 10 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ میں نے کہا کہ 10 ہزار کو مانتے ہو؟ کہا: ہاں۔ میں نے کہا: تمہارے لیے یہ کافی تھا۔ اور ایک دن آئے گا جب سوویت یونین شکست کھائے گا اور واپس چلا جائے گا۔
نواب بگٹی نے کہا: تم نے سن لیا، قندھار خاموش ہے۔ میں نے ان سے کہا: ایک دن قندھار بھی اٹھ جائے گا اور مزاحمت ہوگی۔ جب آپ گورنر بلوچستان تھے تو کوئٹہ تو بڑا پُرامن تھا لیکن بلوچ علاقوں میں مسلح جدوجہد ہورہی تھی۔ اس پر نواب صاحب خاموش ہوگئے۔
ہندوستان کے ممتاز صحافی نے پاکستان کے ممتاز سیاست دانوں اور حکومتی حلقے کی اہم شخصیات نواب بگٹی، جنرل ضیا الحق، وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب خان، غوث بخش بزنجو،ولی خان، شیر پائو، جنرل نصیر اللہ بابر، محمود علی قصوری، جنرل ٹکا خان، سردار شیر باز مزاری، پروفیسر غفور احمد، سردار شوکت حیات، فاروق لغاری، میاں ممتاز دولتانہ، ایس ایم ظفر و دیگر سے انٹرویو لیا۔ یہ کتاب انگریزی میں شائع ہوئی۔ انٹرویو میں نواب بگٹی، غوث بخش بزنجو اور ولی خان نے کیا کہا، اس میں سے جستہ جستہ اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔
(جاری ہے)