سائنس…اسلام سے پہلے

ترجمہ: ناصرفاروق
اسلامی دور میں سائنس کی اہمیت سمجھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ قبل از اسلام سائنس کی حالت کا جائزہ لیا جائے، تب ہی ہم اُس اسلامی سائنس کی وسعت اور اثرپذیری سمجھ پائیں گے، جو عربی زبان میں لکھی گئی۔ اسلامی سائنس کا رجحان اور وہ مسائل جن سے وہ گزری، واضح ہوجائیں گے۔ اس طرح وہ سائنسی پس منظر اور وہ ذرائع بھی مطالعے میں آجائیں گے جو اسلامی سائنس تک چلے آتے ہیں، اور وہ اسلوبِ تحصیل بھی سامنے آجائے گا، جو ان ذرائع علم کے لیے اسلامی تہذیب نے اختیار کیا۔
وہ جغرافیائی خطہ جو بعد میں اسلامی تہذیب کا گہوارہ بنا، ساتویں صدی تک ماضی کی دو عظیم سلطنتوں کا مرکز تھا۔ مشرق میں ساسانی سلطنت وادی میسوپوٹیمیا سے وسطی ایشیا کے لق و دق میدانوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ مغرب میں بازنطینی حکومت عراق میں ساسانی سلطنت کی سرحدوں سے بحر روم کے جنوبی اور شمالی کناروں تک چلی گئی تھی، یہ مغرب میں جزیرہ آئبریریا کے جنوب تک قائم تھی۔ جزیرہ نما عرب خود بھی دو حصوں میں منقسم تھا، ایک جانب جنوبی یمن کے قبائل تھے، اور شمال میں یہ یمنی قبائل دو سلسلوں میں موجود تھے۔ شمال کے قبائل کا مغربی حصہ غسانی تھا، ان لوگوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور یہ بازنطینی سلطنت کے حریف تھے۔ جب کہ مشرق والے بنو لخم تھے، جو ساسانیوں کے زیراثر تھے۔
پرانے وقتوں کے تجارتی راستے شمال کی سلطنتوں کو جنوبی یمن کے گرم پانیوں تک پہنچاتے تھے۔ ان میں سب سے اہم وہ تھا جو مکہ سے ہوکرگزرتا تھا، یہ جزیرہ نما عرب کا مغربی حصہ تھا، شمال میں یہ دمشق کی طرف جانکلتا تھا جومقامی بازنطینی تجارتی رستوں سے منسلک تھا۔ عرب کا مشرقی تجارتی رستہ مکہ سے ہٹ کر مشرق کی جانب خلیج فارس کے شمال تک چلا جاتا تھا، جو جدید شہر بصرہ سے نزدیک ہے۔
مسلم فتوحات کی تین مرکزی لہروں میں سے پہلی لہر میں جزیرہ نما عرب کے مشرقی حصے کی قبائلی زمینوں پر اسلام کی حکومت مستحکم ہوئی، جب کہ باقی عرب فتح کی دوسری لہرنے زیر کیا۔ تیسری لہر کے ساتھ شام، مصر، عراقی اور ساسانی سلطنت اسلامی عمل داری میں آگئے۔ یوں ساتویں صدی کے وسط تک اسلامی تہذیب ساسانیوں اور بازنطینیوں کی جگہ لے چکی تھی، اور تجارتی رستوں پر رواں دواں تھی۔ مسلمان فاتحین وسطی ایشیا سے چین تک شاہراہِ ریشم پر براجمان تھے، اورجنوب میں عرب سے براستہ سمندر ہندوستان اور چین سے رابطے میں تھے۔
اسلام سے پہلے سائنس کس مرحلے پر تھی؟ یہی ہمارا موضوع ہے۔ لہٰذا ہمیں ساسانی اور بازنطینی سلطنتوں کا رخ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مقامی عرب قبائل کا جائزہ لینا ہوگا۔ قدیم عراقی تمدن میں مقامی سائنس کو سلوکس سلطنت کے تحت اعلیٰ درجے میں فروغ ملا، یونانی سائنس کی درآمد کا یہ ایک اہم ذریعہ ثابت ہوئی۔ اس یونانی سائنس کے کچھ پہلو مقامی لوگوں نے popular scienceکے طورپر لے لیے، جسے بعد میں ترقی کرتی ہوئی اسلامی سائنس میں بھی معاون بنا لیا۔ آج ان میں سے کسی بھی سائنس کا الگ جائزہ لینا جوئے شیر لانا ہے، ان میں سے کوئی بھی تنہا آگے نہیں بڑھی۔ اسلامی تہذیب میں یہ سائنسز جس شکل وصورت میں پہنچیں، ان کا ایک دوسرے پراثر بھی خاصا پیچیدہ ہے، اورجو مشترکہ اثرات انھوں نے اسلامی سائنس پر مرتب کیے، وہ بھی آسان فہم نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر ساسانی سائنس پر بات کرنا یونانی سائنس پر بات کرنے جیسا ہے، بالکل اسی طرح بھارتی اور چینی سائنسز کے اثرات بھی یہاں یکساں طور پر مدغم نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عرب کے علوم بھی یکساں طورپر ان مذکورہ ذرائع سے مستفید ہوئے۔ یہ سارے ذرائع جنوبی عرب سے ہندوستان اور چین تک تجارتی شاہراہوں پر محوِ سفر رہے ہیں۔
قبل از اسلام کی اُن سائنسز پر تحقیق، کہ جن کا اسلامی سائنس پرگہر اثر پڑا، دستیاب ذرائع سے خاصی پیچیدہ ہے۔ یہ وہ ذرائع ہیں جوصدیوں بعد سامنے آئے۔ ساسانی سائنس کے بارے میں جوکچھ ہم جانتے ہیں، نویں صدی کے بعد عربی ذرائع سے ہی سامنے آتا ہے، کہ جب اسلام کی آمد کو دو صدیاں گزرچکی تھیں۔
قدیم فارس کے علوم پر ہماری معلومات بہت کم ہے۔ علم الادویہ کو لے لیجیے، H. Sigeristاس نتیجے پر پہنچا کہ قدیم فارسی دواؤں کا علم صرف مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ سے دستیاب ہے ، جوظاہر ہے بہت کم ہے۔ جبکہ دیگر معاملات میں ہماری معلومات بہتر ہے، جس کے لیے عرب ذرائع کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ مثال کے طورپر زراعت، آب پاشی، مشینوں اور انجینئرنگ سے متعلق فارسی تکنیکی اصطلاحات بہت بڑی تعداد میں ملتی ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ساسانی سائنسز کا اسلامی سائنس پر اثر ثابت ہے، مگر یہ جاننے کا واحد ذریعہ عربی ذرائع تحقیق ہی ہیں۔ یہی صورتِ حال ساسانی علم فلکیات کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے۔ ہم عربی ذرائع سے یہ جان سکے ہیں کہ ساسانی علم کونیات کے متون اسلامی فلکیات میں کہیں کہیں جھلکتے ہیں، خاص طور پر ابتدائی دور کی اسلامی فلکیات پراس کا اثر واضح ہے۔ یہاں بھی ساسانی معلومات کا واحد ذریعہ عربی زبان ہے۔ عرب قبائل میں موجود علوم تک رسائی کا ذریعہ بھی یہی نویں صدی کے عربی ذرائع ہیں۔
تاہم اسلامی سائنس پر بازنطینی اور شامی سائنسز کے اثرات کا کسی قدر یقین سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایک بہت بڑا ذخیرہ یونانی اور شامی متون کا ملتا ہے، کہ جن کی شناخت اُن کے اپنے ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔
(جاری ہے)