۔’’ظ ایک شخض تھا‘‘۔

ندیم صدیقی کی تازہ کتاب

ندیم صدیقی کا تازہ احوالِ دل ’’ظ۔ ایک شخص تھا‘‘ پڑھ رہا تھا کہ مولانا سید عبدالکریم جے پوری کا وہ جملہ ذہن میں گونجنے لگا جو آپ نے درگاہ نظام الدین اولیاؒ میں علما و مشائخ کی ایک مجلس میں امیر خسرو کے لیے کہا تھا کہ ’’جتنے نظامؒ اُتنے خسرو‘‘۔ اس جملے کی معنویت آج یوں آشکار ہوئی کہ دو سو صفحات پر محیط یہ احوالِ اتنا مربوط ہے کہ اول تا آخر ایک ہی اسلوب، ایک ہی رنگ، ایک ہی رس۔ ندیمؔ لفظوں کو تارِ عنکبوت میں پرونے کا ہنر جانتے ہیں۔ شاید کسی قبولیت کی گھڑی میں انہوں نے خسرو کا یہ مصرع پڑھا ہو:۔
’’موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ دے رنگیلے‘‘
اور ظُوے صاحب نے انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ مجھے تقویت ملی، جب میں نے پڑھا: ’’ڈاکٹر ظ۔ انصاری کے تعلق سے جو کچھ آپ کے سامنے ہے، (ظ۔ ایک شخص تھا) آپ کے ہاتھوں میں ہے، ہم اسے تصنیف یا تالیف کیا کہیں!! البتہ آپ چاہیں تو اسے نقل کہہ لیجیے۔ ہمارا مقصود ظ انصاری پر ایک فوکس تھا۔ پہاڑ جیسی ایک شخصیت کو کوزے میں سمیٹنا محال ہے۔ ہم نے ان کے علم کے تنوع اور افکار کی مختلف جہتوں اور ان کی شخصیت و کردار پر گاہ گاہ روشنی ڈالنے کی سعی کی ہے، گر پڑھنے والے کے ہاں ظ۔ انصاری کے تعلق سے کوئی تجسس بیدار ہوتا ہے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری محنت سوارت ہوئی‘‘۔
اور ندیم کی محنت سوارت ہوئی، کردار کے غازی پروفیسر علم الدین کا ذوقِ تجسس پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت کا سبب بنا۔
پروفیسر غازی علم الدین رقم طراز ہیں: ’’ایک بڑے ادیب پر بظاہر یہ چھوٹی سی کتاب ہے مگر اس میں ندیم صدیقی نے ڈاکٹر ظ۔ انصاری سے ہماری جس طرح ملاقات کرائی ہے وہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے۔
اس کتاب سے ہمیں پتا چلا کہ ڈاکٹر ظ۔ انصاری کسی کالج یا کسی یونیورسٹی کے طالب علم نہیں رہے، بلکہ ان کی تمام تر بنیادی تعلیم مدرسے کی دین تھی، مگر پھر وہی کہ علم کے تئیں ان کے تجسس اور طلب نے پاک و ہند ہی نہیں بلکہ روس جیسے ملک کی ایک جامعہ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے پر مجبور کیا۔ دیکھا جائے تو یہ امر اپنے آپ میں کسی اعزاز سے کم نہیں۔
ڈاکٹر ظ۔ انصاری نے انگریزی، فارسی اور روسی زبان کی کوئی اڑتیس شاہکار کتابوں، اور جدید روسی شاعری کا اردو میں ترجمہ کیا، جو گیارہ ہزار مصرعوں پر مشتمل ہے۔ پانچ جلدوں میں امیر خسرو کی پانچ مثنویاں مرتب کیں جو اٹھارہ ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔ اردو میں بیس کے لگ بھگ مستقل کتابیں تصنیف کیں۔ معیاری رسائل و جرائد میں 128 مقالے تحریر کیے، آٹھ مختلف شہروں میں 13 عدد اخبار، رسالے نکالے اور ان کی ادارت کی۔ انہوں نے تن تنہا جتنا کام کیا اتنا کام اتنے عرصے (65 برس کی عمر) میں ادارے بھی نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر ظ۔ انصاری کا انگریزی میں جو حال تھا (چند برس کی مدت میں نہ صرف انگریزی سیکھی بلکہ کچھ عرصے بعد برناڈشا پر ایک کتاب لکھ ڈالی جو شائع بھی ہوئی)، روسی زبان میں بھی ان کی وہی حالت تھی، مگر حیرت کی جا ہے کہ اس بندۂ خدا نے روسی بھی اس درجہ سیکھی کہ اردو روسی اور روسی اردو کی دو جلدوں میں لغت بھی مرتب کردی، پھر ایک وقت یہ آیا کہ وہ روسیوں کی (روسی) زبان کی اصلاح کرنے لگے۔ یہ کتاب یاد نگاری کا بہت خوب صورت مرقع ہے جس میں مصنف نے استاذِ محترم کے تعلق سے ایسے نفیس جذبات اور تاثرات قلم بند کیے ہیں جو کسی تجزیے کے محتاج نہیں، صرف دل کی گہرائی میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ (یہ کتاب ہمارے ملک میں شائع ہوچکی ہے)۔
اس کتاب کے مصنف جناب ندیم صدیقی بھی کسی یونیورسٹی، کسی اسکول یا کسی کالج کے طالب علم نہیں رہے، مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ علم سے نابلد بھی نہیں۔ بے شک علم کسی کو محروم نہیں رکھتا، جو اس کی جانب صدقِ دل سے بڑھتا ہے اس پر بسا اوقات علم خود نچھاور ہوجاتا ہے‘‘۔
ہمارا یہاں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ندیم سے ہی سنتے ہیں: ’’ظ۔ انصاری کی کمیونسٹی ایک دنیا میں بدنام رہی، وہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’بد اچھا بدنام برا‘‘… تو یہ شخص کیسا کمیونسٹ رہا ہوگا کہ چھوٹی بہن طاہرہ، کراچی سے اپنے بیمار بھائی کی عیادت کرنے آئیں، ایک صبح وہ تلاوتِ قرآن مجید کررہی تھیں، سورۂ رحمٰن پڑھ رہی تھیں کہ ظ۔ انصاری بول پڑے کہ کچھ سمجھ میں بھی آرہا ہے یا بس رٹے جارہی ہو…؟ اور پھر بلند آواز سے انہوں نے سورۂ رحمنٰ کی تفسیر بیان کرنی شروع کردی۔ راوی لکھتا ہے کہ خود ظ۔ انصاری نے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ جب طاہرہ سورۂ رحمٰن پڑھ رہی تھی تو (ایسا لگا کہ) منہ اور دل میں برسوں کی جمع غلاظت دھل رہی ہو، اور جب بولتے بولتے تھک چکے تو رک رک کر جگر کا مصرع ان کی زبان پر تھا کہ
اللہ اگر توفیق نہ دے…!۔
1986ء (ستمبر) میں جنوبی ہند (کرناٹک) کے فتنہ انگیز واقعے پر ظ۔ انصاری نے روزنامہ ’انقلاب‘ کا اداریہ بعنوان ’’ایڈیٹ…‘‘ (The Idiot) لکھا، جس کے کچھ اقتباسات ہم یہاں نقل کرتے ہیں، جن سے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں ظ۔ انصاری کا اندرون صاف صاف نظر آرہا ہے:۔
(1) کیرالا کے ایک ملیالی رسالے میں ایک کہانی کبھی چھپی تھی، ہلکی پھلکی دلچسپ سی، لیکن اس کے ہیرو کا نام تھا محمد، جنوب (ہند) میں تو نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ (صاب) بھی لگانے کا رواج ہے۔ چور، جیب کترے، اسمگلر، بے ٹکٹ مجرم پکڑے جائیں تو اخبار میں یہ نام اور صاحب لکھا ہوگا… نام پڑھ کر ہمیں بھی شرم آتی ہے، دل دکھتا ہے کہ اگر اس نام کے ساتھ صاحب کا لفظ نہ ہوتا تو غنیمت تھا۔ وہی کہانی انگریزی میں ترجمہ ہوکر اتوار (7 دسمبر) کے ’’دکن کرانیکل‘‘ یا سنڈے ہیرالڈ (بنگلور) میں چھپ گئی، جس نے ترجمہ کیا اور سنڈے ایڈیشن میں جوڑ دیا اس کے دل میں شرارت ضرور ہوگی، اس ’’ایڈیٹ‘‘ نے کہانی کو ایسے لفظوں پر ختم کیا، جن لفظوں کے کہنے والے کو واقعی دن میں تارے دکھا دیئے جائیں تو کچھ اندھیرا نہ ہوگا (ہم وہ لفظ دہرا کر اشتعال انگیزی کے مرتب نہیں ہونا چاہتے)۔
(2) کہانی کے ڈبل صفحے کے درمیان تین اسکیچ ہیں، ایک عورت، سیتا نام، ایک ہیرو، ایک مسلم شریف زادہ… بدقسمتی سے مصنف نے (جسے کہانی کے ہیرو محمد سے ہمدردی بھی ہے) اس کا پورا نام محمد بن عبداللہ دے دیا، تب ہی کوئی ٹوک دیتا تو نام بدلا جاسکتا تھا، پر یہ کریکٹر خلوت پسند اور غور و فکر کا عادی ہوجاتا ہے، مراقبے کی کیفیت میں جاتا ہے۔ کہانی کے مصنف پی کے نمُودری نے یہ کردار ہمدردی سے تراشا لیکن بے احتیاطی برتی، باپ کا نام عبداللہ… اور ایک خاتون ہے آمنہ… تینوں ناموں کا یکجا ہونا کیا معنی!۔
آدمی خدا کے بارے میں بے احتیاطی برتے تو خدا اس سے خود سمجھ لے گا، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مٹنے والے ابھی مر نہ چکے ہیں… ’’با محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوشیار‘‘، ہم نے دو واقعے اوپر لکھے ہیں، ایک سورۂ رحمٰن اور دوسرا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق… ان دونوں واقعات کے نفس میں اتر کر ظ۔ انصاری کی فکری اور ذہنی صورت حال تک پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں…‘‘
سہارن پور کے محلہ انصاریان کے سید محمد حسن زیدی کا فرزندِ دل بند (ظ۔ انصاری) جس نے دنیائے آب و گل میں 6 فروری 1925ء کو آنکھیں کھولی تھیں، وہ سہارن پور، میرٹھ، دہلی، الٰہ آباد ہوتا ہوا ممبئی پہنچا، بلکہ یوں کہا جائے کہ ممبئی اس کا مقدر بن گئی، جہاں اس نے کمیونسٹوں کے سرخیل سجاد ظہیر کے ساتھ ’’نیا زمانہ‘‘ اور ’’قومی جنگ‘‘ میں کام کیا۔ اُس وقت سبط حسن، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی وغیرہ نہ صرف ممبئی میں تھے بلکہ یہ سب کسی نہ کسی طرح کمیونسٹ پارٹی کے ان اخبارات سے بھی وابستہ تھے۔
بیسویں صدی عمومی سطح پر غربت اور عسرت کا زمانہ رہا، بلکہ اس کی شدت روزبروز بڑھتی رہی ہے۔ روپے کی قدر بہت تھی مگر روپے کے پانچ نوٹ کمانا مشکل تھا، کل جن کے دن روشن تھے ان پر بھی اندھیرے لپکنے لگے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اندھے سائے ایسے بڑھے کہ ان کی صبح کا سورج بھی سیاہ بن گیا۔ ڈاکٹر ظ۔ انصاری نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں وہ اسی تیرگی میں ڈوبا ہوا تھا، اسی عسرت و غربت کی ایک جھلک خود ظ۔ انصاری کے قلم سے:۔
’’اماں نے آواز دی: پانی گرم ہوگیا ہے، چلو میں نہلا دوں۔ میں نے چڑ کر جواب دیا: اماں میں بڑا ہوگیا ہوں، خود نہالوں گا، آپ بس کمر مَل دیجیے گا۔
وہ سنی ان سنی کرکے غسل خانے میں بارہ برس کے بڑے بیٹے کو نہلانے آئیں۔ نہلا چکیں تو سفید پاجامہ دیا پہننے کو، میں نے پہننا چاہا، اس میں شل پڑے ہوئے تھے، دھلائی بھی کچھ اچھی نہیں تھی، میں نے دونوں ہاتھوں سے پاجامہ چیر ڈالا اور کیچڑ میں پھینک کر چھپ چھپ کردیا، اگر یہی پہننا ہے تو نہانے نہلانے کی ضرورت کیا! جائو ہم ننگے پھریں گے۔ اماں نے میری پیٹھ پر دو ہتڑ رسید کیے اور ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئیں، آٹھ آٹھ آنسو روتی رہیں۔ اُن دنوں وہ بہت رونے لگی تھیں، روتیں اور بین کرتی جاتیں:۔
ہائے میرا اٹھاری جوڑی کواڑ کا مکان
ہائے میرے ہاتھی دانت سے جڑائو صندوق…‘‘
مندرجہ بالا سطروں میں ظ۔ انصاری کے گھر کی غربت اور پریشان حالی واضح ہے… عسرت اور غربت کے اس دور میں دس بارہ برس کے بچے کے ذہن میں بھی ذریعہ معاش کی حقیقت نہ سہی مگر خواب کی کرنیں تو جھلکنے لگی ہوں گی!
جمعہ کا دن تھا، ظ۔ انصاری کے مدرسے کی چھٹی تھی، پڑوس قریب کی ایک معمر عورت نے دروازے سے اندر جھانک کر سلام کیا، والدہ محترمہ نے سلام کا جواب دیا اور انہیں پاس بلاکر بٹھایا اور فرزندِ دل بند سے کہاکہ یہ دوات اور قلم لو اور جائو ان کا خط لکھ آئو۔ پتا ٹھیک ٹھیک لکھنا۔
ظ۔ انصاری کی تحریر کا جو غلغلہ ہم نے کیا، ایک دنیا نے دیکھا ہے، اس کی بنیاد میں یہی مکتوب نگاری ہے۔ ظ۔ انصاری کو خط لکھائی کے دو پیسے نے ایک راہ دکھائی، جو بعد میں ان کی اوّلین کمائی بھی قرار پائی۔
موصوف لکھتے ہیں: ’’پوسٹ کارڈ لکھائی ایک پیسہ، لفافہ دو پیسے، لمبا خط اور اچھا لکھو تو اوپر سے مٹھی بھر ریوڑیاں…‘‘
۔31 جنوری 1991ء کی شام، شب میں تبدیل ہورہی تھی جب ممبئی کے سیفی اسپتال میں انہوں نے آخری سانسیں لیں اور اگلی صبح یکم فروری کو اہلِ فارس کے قبرستان رحمت آباد (مجگائوں ممبئی) میں سہارن پور کی یہ مٹی سپردِ لحد ہوگئی۔ صاحبِ طرز، جیسا مقرر ویسا محرر، جیسی تحریر ویسی تقریر کرنے والا یہ طوطی بظاہر خموش ہوگیا، مگر اس کی کوئی تحریر جب بھی اٹھائی جائے گی، پڑھی جائے گی وہ اپنی تب و تاب کے ساتھ آپ سے ذہنی معانقہ بھی کرے گی اور آپ کے دل کے تار بھی جھنجھنائے گی… اسی تحرک اور تحریک کا نام زندگی ہے، سو ایسے کام کرنے والے کب مرتے ہیں! موت کے ہاتھ تو ان کا خاکی جسم ہی لگتا ہے۔ وہ اپنی سعی میں، اپنے کام میں سانسیں لیتے ہوئے باقی رہ جاتے ہیں… اسی طرح ظ۔ انصاری بھی زندہ ہیں۔
چلتے چلتے ایک اقتباس اور:۔
’’ستّر برس پہلے دنیا میں ایک نظام پیدا ہوا تھا، جس نے خدا اور پیغمبروں کو نکال باہر کیا، گرجائوں میں گھوڑے باندھے، عوام پر جبر کو لادا۔ اب دیکھو روٹی کو ترس گئے ہیں، ہوٹلوں میں قطار لگی ہے، کرنسی نام کی گویا کوئی چیز موجود نہیں، ہر چیز ڈالر میں، روبل میں ہوائی جہاز کا ٹکٹ نہیں ملتا، ڈالر میں خریدو اور وہ بھی ڈبل قیمت دے کر۔ قومی انٹرنیشنل فریب… گائوں کا آدمی درست کہتا ہے:
اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں!‘‘
’’میری وہ کتابیں جن میں کمیونزم کی میں نے تائید کی ہے، اپنے آپ کو ان سے الگ کرتا ہوں I disown، اب جس قدر جیوں گا، اس بوسیدہ نظام جبر کے خلاف لکھوں گا۔ یہ پورا نظام ایک فریب ہے اور کچھ نہیں‘‘۔
(ظ۔ انصاری)
نظام جبر کے خلاف یہ گواہی اُس شخص کی ہے جو بقول ڈاکٹر جمیل جالبی ’’ڈاکٹر ظ۔انصاری کی اوّلیات شمار کی جائیں تو وہ اردو کے پہلے ادیب ہیں، جنہوں نے برناڈشا، چے خف، پوشکن اور دوستوفسکی پر اردو میں معیاری کتابیں لکھیں۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ایک درجن کے قریب روسی شاہکاروں کو براہِ راست روسی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ماقبل اور مابعد انقلاب، روسی شاعری کے اردو میں ترجمے کیے‘‘۔
ندیم کہتے ہیں: ’’مٹی کے مٹی میں ملنے کا وقت قریب تر ہے اور اسباب و اشکال کا نظام اُسی کے ہاتھ تھا، اُسی کے ہاتھ ہے، لہٰذا

آتشِ نفس کی یاری نے مجھے خاک کیا
دیکھو اس خاک سے کیا نفس کی صورت نکلے

دوسو اوراق پر محیط یہ مجلّد کتاب مثال پبلشرز، امین پور بازار فیصل آباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ رابطہ: پبلشر 0300-6668284، رابطہ مصنف: nadeemd57@gmail.com۔