اقبال نے کہا تھا:۔
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا وہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبال حقیقی معنوں میں بڑے آدمی تھے۔ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود انہیں اپنی کوتاہی کا شعور تھا۔ اس شعور کے بغیر مذکورہ بالا شعر تخلیق نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کی قومی قیادت اپنی انفرادی اور اجتماعی فروگزاشتوں کا شعور نہیں رکھتی۔ چنانچہ وہ گفتار کی تو ’’ہیرو‘‘ ہے، مگر کردار کی ’’زیرو‘‘ ہے۔ اقبال کے الفاظ میں وہ گفتار کی غازی ہے، البتہ اس کے کردار کا خانہ خالی ہے۔
ہماری قیادت گفتار کی کتنی غازی ہے اس کا اندازہ ہمارے جرنیلوں اور سیاست دانوں کے بیانات سے روز ہوتا ہے۔ اس سال قائداعظم کا یوم پیدائش آیا تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور صدرِ مملکت عارف علوی نے کیا فرمایا، ملاحظہ کیجیے۔
’’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔ آرمی چیف نے بابائے قوم کے یوم ولادت پر اپنے پیغام میں کہا کہ قوم قائداعظم کے اُمید، جرأت اور اعتماد کے پیغام پر عمل پیرا ہے۔ ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط ہمیشہ ہی ہمارے بنیادی اصول رہے ہیں‘‘۔
(روزنامہ 92 نیوز کراچی۔ 26 دسمبر 2020ء)
اب آپ صدرِ مملکت عارف علوی کی گفتار ملاحظہ کیجیے۔ انہوں نے قائداعظم کے یوم ولادت پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
’’بچّے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے رہنما اصولوں کو اپنائیں۔ بچّے قائداعظم محمد علی جناح کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہر شعبے میں علم اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور ملک کو عروج پر پہنچائیں۔ ایوانِ صدر میں یوم قائداعظم کی مناسبت سے ’’قائد اور بچّے‘‘ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچّے قائداعظم کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ صرف محنتی شخص ہی مشکل مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ صدر عارف علوی نے والدین اور اساتذہ سے کہا کہ وہ ابتدائی عمر سے ہی نوجوان نسل کی کردار سازی میں کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان قائداعظم کی امانت ہے اور اب نوجوان نسل کی ذمے داری ہے کہ وہ ملک کو مضبوط اور خوشحال بنائے‘‘۔
(روزنامہ 92 نیوز کراچی۔ 26 دسمبر 2020ء)
پاکستان سے محبت کرنے والے ہر شخص کی تمنا اور دعا یہ ہے کہ پاکستان تاقیامت قائم رہے اور اس کا شمار ہر زمانے کی بڑی طاقتوں میں ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر زمانے کی سپرپاور بنادے۔ اس تناظر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان بڑا اہم ہے کہ کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔ مگر ہماری قومی تاریخ کی ایک بڑی تلخ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ پاکستان قائداعظم کا اوریجنل پاکستان نہیں ہے۔ قائداعظم کا اوریجنل پاکستان 16 دسمبر 1971ء کو دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ سقوطِ ڈھاکا سے پہلے یہ بات ہمارے ’’سیاسی عقیدے‘‘ کا حصہ تھی کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ مگر سقوطِ ڈھاکا نے اس عقیدے کے پرخچے اُڑا دیے۔ بدقسمتی سے بچے کھچے پاکستان کی حالت بھی خستہ ہے۔ ہمارا دفاع امریکہ مرکز ہے۔ ہماری معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مٹھی میں ہے۔ ہمارا آدھا بجٹ بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہورہا ہے۔ عمران خان نے چند روز پہلے ہی کہا ہے کہ ہمارے پاس ملک کو ترقی دینے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ آزادی کے 73 سال بعد بھی آدھی قوم ناخواندہ ہے۔ جو قوم خواندہ ہوگئی ہے اُس کا علم اور تخلیق سے کوئی تعلق نہیں۔ آزادی کے 73 سال بعد بھی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم نہیں۔ آزادی کے 73 سال بعد بھی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ چنانچہ جب ہماری سیاسی یا عسکری قیادت یہ کہتی ہے کہ پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی تو اقبال کا ایک اور شعر یاد آجاتا ہے:۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار، وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ
جنرل باجوہ اور صدرِ مملکت نے قوم کو قائداعظم کے یوم ولادت پر بروقت قائداعظم کے نظریۂ حیات کے اہم ترین حصے ’’ایمان‘‘ کی اہمیت یاد دلائی ہے۔ ایمان کتنی بڑی چیز ہے، اس کا اندازہ اقبال کے اس شعر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے:۔
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیاء کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ کسی کو ولایت ملتی ہے یعنی کسی کو اللہ تعالیٰ اپنا دوست بناتا ہے تو اُس کے ایمان کی وجہ سے۔ خدا کسی کو خود حکومت عطا کرتا ہے تو اس کے ایمان کے سبب۔ کسی کو علمِ اشیاء کی جہانگیری سے نوازتا ہے تو ایمان کے سبب۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے کا ایمان کی عظیم الشان عظمت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ پاکستان کے کسی سیاسی یا عسکری رہنما کو آج تک خدا اور اس پر ایمان کی طرف دیکھتے ہوئے نہیں پایا گیا۔ ہمارے حکمران 1954ء سے امریکہ کو خدا سمجھتے ہوئے امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں تو امریکہ سے، مانگتے ہیں تو امریکہ سے، فریاد کرتے ہیں تو امریکہ سے، اعتبار کرتے ہیں تو امریکہ پر۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت احمق اور نااہل ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ فوج پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ملک کو تباہ و برباد کردے۔ اگر ملک میں مشکل حالات تھے تو جنرل ایوب کو امریکہ کے بجائے خدا سے مدد طلب کرنی چاہیے تھی۔ انہیں اپنی تہذیب اور تاریخ کی طرف دیکھنا چاہیے تھا۔ انہیں اپنی قوم سے مدد مانگنی چاہیے تھی۔ انہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنے دست و بازو پر اعتبار کرنا چاہیے تھا۔ مگر انہوں نے نہ خدا سے مدد طلب کی، نہ اپنی تاریخ اور تہذیب کی طرف دیکھا، نہ قوم کو مدد کے لیے پکارا، نہ خود پر اعتبار کیا۔ انہوں نے مدد مانگی تو امریکہ سے، انہوں نے دیکھا تو امریکہ کی طرف، انہوں نے اعتبار کیا تو امریکہ پر۔ ان کی گفتار اور کردار سے صرف ایک ہی نعرہ ٹپکتا نظر آیا: لاالٰہ الا امریکہ۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف بھی امریکی آشیرباد سے اقتدار میں آئے تھے۔ جنرل پرویزمشرف کی امریکہ پرستی اتنی بڑھی کہ انہوں نے گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگادی۔ وہ امریکی صدر پر ایسا ایمان لائے کہ مغربی میڈیا انہیں بش کی رعایت سے ’’بشرف‘‘ کہتا نظر آیا۔ بھٹو صاحب بھی اقتدار میں آئے تھے تو ان کی پشت پر امریکہ موجود تھا۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر جب تک زندہ رہیں امریکی سائے میں کھڑی رہیں۔ میاں نوازشریف امریکہ کی ’’گڈ بکس‘‘ میں نہ ہوتے تو اب تک ان کا سیاسی کھیل تمام ہوچکا ہوتا۔ جنرل یحییٰ نے ملک توڑ دیا مگر اُن کا کچھ نہ بگاڑا جاسکا۔ اس کی وجہ بھٹو صاحب نے ممتاز صحافی آصف جیلانی کو یہ بتائی کہ جنرل یحییٰ امریکہ کے پسندیدہ تھے۔ امریکی سمجھتے تھے کہ انہوں نے امریکہ اور چین کے تعلقات استوار کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پورے منظرنامے میں خدا پر ایمان کہیں موجود نظر نہیں آتا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اس سلسلے میں قائداعظم کے ذکرِ خیر کا بھی حق نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ قائداعظم نے پاکستان بناتے ہوئے نہ سلطنتِ برطانیہ کی طرف دیکھا، نہ فرانس اور اٹلی سے مدد طلب کی، نہ ہندو اکثریت سے کسی رعایت کے طالب ہوئے۔ قائداعظم کو بھروسا تھا تو اپنے اللہ پر۔ ان کی نگاہ تھی تو تہذیب اور تاریخ پر۔ انہوں نے رعایت طلب کی تو برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ سے۔ قائداعظم کا ایمان قوی نہ ہوتا تو انہیں پاکستان اور اس کی بادشاہی نہیں مل سکتی تھی۔ اقبال یاد آئے، انہوں نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے:۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو، زباں تُو ہے
یقیں پیدا کر اے ناداں کہ مغلوبِ گماں تُو ہے
بدقسمتی سے پاکستان کی فوجی قیادت ہمیشہ سے یقین سے محروم اور گمان سے مغلوب ہے۔ بلکہ غالب کے ایک شعر کے مطابق اس کا حال یہ ہے:۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
ہمارے حکمران قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد سے اب تک ایمان سے دامن چھڑا کر کفر کی طرف بھاگے جارہے ہیں۔ کعبے کی طرف ان کی پشت ہے اور کلیسا یعنی مغرب کی طرف ان کا منہ ہے۔ وہ سیاست اور ریاست کے ایوان میں نماز ادا کرتے ہوئے فرما رہے ہیں: ۔
نیت کرتا ہوں میں نماز کی۔ منہ میرا کلیسا شریف کی طرف، اللہ مغرب۔
ہماری قومی قیادت کے گفتار کے ’’ہیرو‘‘ اور کردار کے ’’زیرو‘‘ ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ یہ ایک بے معنی اصطلاح تھی، اس لیے کہ اسلام کا سوشلزم سے اور سوشلزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بھٹو صاحب کے تضادات کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ’’سوشلسٹ‘‘ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ملک کو ایک ’’اسلامی آئین‘‘ دیا۔ لبرل ہوتے ہوئے بھی انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ شراب پر پابندی لگائی اور جمعے کی تعطیل پر آمادگی ظاہر کی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کی گفتار کچھ اور تھی، کردار کچھ اور تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں اسلامی نظام کا نعرہ لگایا، مگر وہ اس نعرے میں سچے نہ تھے۔ یہ نعرہ ان کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ تھا۔ ان کی بھی گفتار کچھ اور تھی اور کردار کچھ اور۔ جنرل پرویز خود کو لبرل کہتے تھے مگر انہیں لبرل ازم کی الف ب بھی معلوم نہ تھی۔ جس طرح جنرل ضیاء کا اسلام ’’سیاسی‘‘ تھا، اسی طرح جنرل پرویز کا لبرل ازم ’’سیاسی‘‘ تھا۔
قائداعظم کا ایک اصول ’’اتحاد‘‘ بھی تھا، مگر قائداعظم کے بعد سے قائداعظم کے پاکستان میں ’’اتحاد‘‘ کا ’’کال‘‘ پڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں اتحاد ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی پاکستان سے الگ نہ ہوتا۔ ہماری تاریخ میں کوئی سقوطِ ڈھاکا نہ ہوتا۔ بنگالی آج بھی پاکستان کا حصہ ہوتے۔ موجودہ پاکستان کی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں ’’پنجابیت‘‘ کے درخت پر بہار آئی ہوئی ہے۔ ’’مہاجریت‘‘ کا درخت پھل پھول رہا ہے۔ ’’سندھیت‘‘ قوی ہوتی جارہی ہے۔ ’’پشتونیت‘‘ فروغ پارہی ہے۔ ’’بلوچیت‘‘ کا چراغ فروزاں ہے۔ ’’فوجیت‘‘ اپنے امکانات ظاہر کررہی ہے۔ دیکھا جائے تو ملک میں ’’اسلامیت‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ کا قحط پڑا ہوا ہے۔ اس سے نیچے ہم فرقوں، مسلکوں اور مکاتبِ فکر میں تقسیم ہیں۔ کسی کو دیوبندیت عزیز ہے، کسی کو بریلویت سے عشق ہے، کسی کو اہلِ حدیث ہونا صحیح لگتا ہے۔ ذات برادریوں کی تقسیم اس کے سوا ہے۔ معاشی اور سماجی سطح پر کوئی طبقۂ امراء کا ’’نمائندہ‘‘ ہے، کوئی متوسط طبقے کا ’’ترجمان‘‘ ہے، کوئی زیریں طبقے کی علامت ہے۔ ہماری گفتار میں بے شک اسلام اور پاکستان موجود ہے، مگر ہمارے کردار میں کہیں بھی ’’اسلامیت‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ موجود نہیں۔
قائداعظم کا ایک اصول تنظیم یا ڈسپلن ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری مذہبی، سیاسی، سماجی اور علمی زندگی میں انتشار کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام بکھر رہا ہے۔ طلاقوں اور خلع کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ والدین اور اولاد میں کشمکش برپا ہوچکی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہر جگہ ’’خودکلامی‘‘ ہورہی ہے۔ ’’مکالمہ‘‘ کہیں موجود نہیں۔ ہم ’’قوم‘‘ کے بجائے ایک ’’بھیڑ‘‘ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ قائداعظم نے بھیڑ کو قوم بنایا تھا، اُن کے بعد آنے والے حکمرانوں نے قوم کو بھیڑ میں ڈھالنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سارے جرنیل اور سیاست دان اتحاد اور ڈسپلن کی بات ضرور کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ قوم کے اتحاد اور قوم کے نظم و ضبط سے خوف زدہ ہیں، اور چاہتے ہیں کہ قوم کبھی متحد نہ ہو، اس میں کبھی تنظیم پیدا نہ ہو۔ اس لیے کہ قوم متحد ہوگئی تو فوجی اور سول آمروں کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے گا۔
صدرِ مملکت عارف علوی نے قوم کے بچوں کو قائداعظم کے اصول اپنانے کا درس دے کر بہت اچھا کیا ہے، مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ خود عارف علوی بڑھاپے میں اپنی زندگی سے ایمان، اتحاد اور تنظیم کا ایک ایک جلوہ نکال کر دکھا سکتے ہیں؟ اس کو کہتے ہیں ’’دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت‘‘۔ قرآن ایک ایک مسلمان سے پوچھتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں؟ ہماری قومی قیادت نے قرآن کی اس بات پر غور کرلیا ہوتا تو وہ گفتار کے ’’ہیرو‘‘ اور کردار کے ’’زیرو‘‘ نہ ہوتے۔ ان کی گفتار سے بھی ہیرو برآمد ہوتا اور کردار سے بھی ہیرو نمودار ہوتا۔