پروفیسر جارج صلیبا سے گفتگو
(سن 2009ء میں عالمی جریدے Muslim Heritageمیں کلیم حسین کی پروفیسر جارج صلیبا سے گفتگو ہوئی تھی۔اس انٹرویو کے مطالعے سے چند مزید سوال ذہن میں پیدا ہوئے، جنہیں ہم نے سوالنامے کی صورت میں پروفیسر صاحب کے سامنے رکھا، اور انھوں نے کمالِ شفقت اور مہربانی سے اسے قابلِ توجہ سمجھا، اور علم میں اضافہ کیا۔ یقیناً علمی و تحقیقی ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ انٹرویو راہنما ہوگا۔)۔
سوال: دینِ اسلام اور جدید سائنس میں کوئی تصادم ہے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا آپ انسانی علم اور آسمانی وحی میں کوئی مطابقت محسوس کرتے ہیں؟
جواب: سرسری طور پر دیکھا جائے تو سائنسی فکر اور وحی آگاہی کے دو الگ اور آزاد دائرے ہیں، اس طرح کوئی بھی انہیں بغیر کسی تصادم فکرو خیال میں لاسکتا ہے۔ تاہم دونوں جانب چند ایسے مقامات ہیں جہاں یہ ایک دوسرے کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ ماورا ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر جب آپ مذہبی تناظر میں ’’معجزہ‘‘ کا تصور دیکھتے ہیں، کہ جسے سائنسی فکر کے دائرے میں سمجھا نہیں جاسکتا۔ امام غزالی نے یہ نکتہ شہرۂ آفاق کتاب ’’تحافۃ الفلاسفہ‘‘میں اٹھایا ہے، اور اس دلیل پرکلام ختم کیا ہے کہ سائنس دانوں کے پاس مستقبل بینی کی کوئی راہ نہیں، جبکہ الوہیت فطرت کے مظاہر میں مداخلت سے جب چاہے ’’معجزہ‘‘ ممکن بناسکتی ہے۔
تاہم جب سائنسی فکر مذہبی افعال کی معاون بنتی ہے، جیسے نماز کے اوقات کا درست تعین، جو سائے کی پیمائش سے واضح ہوتا ہے، اور جیسے کعبۃ اللہ کے رخ کی درستی کا تعین کیا جاتا ہے، حدود اور اوقات کا تعین، کہ جس کے لیے عمدگی سے کروی مماس التمام کی تکنیک (spherical trigonometric techniques) استعمال ہوتی ہے۔ اس قسم کی مثالیں سائنسی منہج کو مذہبی اعمال کا معاون ثابت کرتی ہیں، اور اس طرح انسانی علم کے دونوں دائرے ہم آہنگی سے ترقی کرتے ہیں۔
امام غزالی کا مقالہ مذہب اور سائنس کے تعلق پر دوسری نوع کی فکر ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں مجموعی طور پر اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں رہا، بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ اُس دور (امام غزالیؒ کا دور) کے بعد اکثر سائنس دان جنہیں ہم جانتے ہیں، خاص طور پر وہ جنہوں نے علمِ فلکیات کی نظری توضیحات پیش کیں، وہ دینی اداروں میں فرایض بھی انجام دے رہے تھے، مرکزی مساجد میں مؤقت کی ذمے داریاں ادا کررہے تھے، جیسا کہ معروف ماہر فلکیات ابن شاطر الدمشقی (d. 1375 AD)، جوجامع اموی دمشق میں مؤقت مقرر تھے۔
سوال: آپ میں اور انیسویں صدی کے اُن مستشرقین میں کیا فرق ہے جن کے بارے میں آپ کی رائے اچھی نہیں، جن کے بارے میں آپ مسلمان قاری کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’انیسویں صدی کے مستشرقین کے مطالعے سے گریز کرے‘‘؟
جواب: مجھ میں اور انیسویں صدی کے مستشرقین میں بنیادی فرق طرزِ تحقیق کا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اسلامی تاریخ سے براہِ راست اسلامی ذرائع پرتحقیق اور گہرا مطالعہ کروں، اور اُن کی پیش کردہ تعریف و توضیح کی بنیاد پر نتائج اخذ کروں، نہ کہ سوچے سمجھے نظریات اور خیالات کی بنیاد پر تحقیق استوار کروں۔ جب مستشرقین نے امام غزالی کے بعد کے دورکے فلکیاتی کام کا جائزہ لیا تو وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ حالات زوال پذیر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ان فلکیاتی کاموں کا بغور مطالعہ نہیں کیا تھا، اور نہ اس معاملے پرکسی تحقیق کی زحمت گوارا کی تھی۔ وہ غزالی کی مذکورہ کتاب ’’تحافۃ الفلاسفہ‘‘ پر اس ’’زوال‘‘ کا الزام عائد کررہے تھے۔ وہ اس کتاب کا مطالعہ ’’تصور اسباب کی مذمت‘‘ کے طور پر کررہے تھے، اور اسے’’بالمقابل سائنس‘‘ کام (counter scientific work) باور کررہے تھے، بجائے اس کے کہ وہ اسے ایک ایسے خطِ تنسیخ کے طور پر محقق کرتے، کہ جوانسان کی سائنسی سرگرمیوں اور دینی فکر کی تمیز کرتا ہے، اور دونوں دائروں کی وضاحت کرتا ہے۔ جبکہ میں نے اپنی تحقیق میں اُن ہی فلکیاتی کاموں کو، جو بعد ازغزالی ادوار میں کیے گئے، بالکل مختلف پیرائے میں محقق کیا ہے۔ مثال کے طور پر نئے سائنسی تھیوریم، جیسے مؤید العرضی(d. 1266AD) کا لیما(Lemma) اور نصیر الدین طوسی(1274 AD) کاCouple، یا شمس الدین خفری(d. 1550 AD) کا فلکیاتی کام، جو مزید بہتر تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ سب تخلیقی فکر میں نئی بصیرتوں کے نمائندے تھے۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دور اسلامی تاریخ کا اصل سنہرا دور تھا، نہ کہ دورِ تنزل! جیسا کہ مستشرقین نے سمجھا اور بیان کیا۔
سوال: آپ نے اپنی تحریروں میں کوپرینکس کے کاموں، اور مسلمان حکماء کے اُن سارے کاموں کے لیے ’علمی سرقہ‘ (plagiarism)کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا ہے، جنہیں عربی سے لاطینی بنادیا گیا تھا۔ آپ نہیں سمجھتے کہ یہ تاریخ کا بہت بڑا ’علمی سرقہ‘ تھا؟
جواب: ’علمی سرقہ‘ کی اصطلاح کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ ارادتاً کسی اور کے کام سے استفادہ کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ یہ اُس کا اپنا کام ہے۔ تاہم یہاں صورتِ حال مختلف ہے کہ ایک علمی مسئلے پر دو افراد کام کریں، اور ایک فرد دوسرے فرد کا پیش کردہ حل اختیار کرلے۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے اُسے مناسب طور پر دوسرے کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے میں نہیں سمجھتا کہ یہ اصطلاح کوپرینکس کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اُس نے ایک مسئلے کا زیادہ آسان حل نکالنے کے لیے کسی اور کے پہلے سے پیش کردہ حل سے استفادہ کیا، جیسا کہ العرضی اور ابن شاطر کے کاموں سے مدد لی۔
یورپی نشاۃ ثانیہ کا وہ سائنس دان جس نے کوپرینکس کی نسبت زیادہ شفافیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُس کا ہم عصر اور یکساں طور پر مشہور ماہر فلکیاتAndreas Vesalius (1514-1564) ہے۔ وہ اپنے مقالہ “Fabrica of the Human body”کے آخر میں تسلیم کرتا ہے کہ ’’میں نے انسانی ہڈیوں کے نام لکھنے کی سعی کی، سب سے پہلے وہ نام جو میں نے اپنے مرکزی متن کے لیے اختیار کیے، پھر یونانی نام، اور اُس کے بعد لاطینی نام لیے، جنہیں محققین نے قبول اور منظور کیا ہے۔ لہٰذا ناموں کی اس درجہ بندی کی ایک اہمیت ہے۔ عبرانی نام ان سب کے بعد آئے، مگرچند وہ نام جو اب تک عربی میں ہیں، یہ سب وہ نام ہیں جو ابن سینا کے کام کے عبرانی ترجمے سے لیے گئے ہیں۔ یہ سارا کام ایک نمایاں معالج اور میرے قریبی دوست کی مدد سے ممکن ہوا ہے، یہ دوست Lazarus Hebraeus de Frigeis ہے کہ جس کے ساتھ میں نے ابن سینا پر مل کر تحقیق کی ہے۔‘‘
یہاں Vesalius واضح طورپر اپنے دوست کی مہربانی کا اعتراف کرتا ہے کہ جس نے اُسے عربی ذرائع علم تک رسائی دی، اور اُس کا تعارف ایک نمایاںطبیب کے طورپر پیش کیا، Lazarus Hebraeus ایک یہودی کہ جس کے ساتھ اُس نے اپنی تحقیق انجام دی۔ اس مثال میں وہ واضح طورپر بتارہا ہے کہ اس یہودی دوست نے اُس کا تعارف ہڈیوں کے اُن ناموں سے کروایا کہ جنہیں ابن سینا کے کاموں سے عبرانی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔
سوال: مسلمان سائنسی فکر کی جڑیں کہاں ہیں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: میں نے اپنی کتاب .”Islamic Science and the Making of the European Renaissance”کے ابتدائی دو ابواب میں اسلامی سائنس کی اصل پر بات کی ہے، اسے میں ’’نقطہ آغاز کا سوال اول، دوئم‘‘ کہتا ہوں، میں اسلامی سائنسی فکر کی جڑیں آٹھویں صدی کے ابتدائی دورمیں دیکھتا ہوں، یہ عبدالملک بن مروان کا دورِ حکمرانی تھا۔ یہاں سے میں اس فکر کے تسلسل پرمفصل دلیل استوار کرتا ہوں، کہ جب حکومت کے انتظامی دفاتر میں عربی زبان کا رواج عام ہوا۔یہ انتظامی شعبہ ’دیوان‘ کہلاتا تھا۔ یہاں سب سے پہلے چند ابتدائی سائنسی خیالات متعارف ہوئے۔ ریاستی دستاویزات کی عربی زبان میں بڑے پیمانے پر منتقلی دراصل وسیع اسلامی ریاست کی تخلیق کا جزوِلاینفک تھا۔ مزید یہ کہ پہلی بار عربی رسم الخط سے کندہ سونے کے سکے ٹکسال میں ڈھالے گئے، جن کے نمونے آج بھی باقی ہیں، یوں ایک اسلامی سلطنت ایک مضبوط معیشت بھی تخلیق کررہی تھی۔
سوال: آپ نے Muslim Heritage کے انٹرویو میں 800 مسلم مخطوطات کا ذکرکیا ہے جو یورپ کے کتب خانوں میں گُم گشتہ ہیں، جن پر تحقیقِ نوکی ضرورت ہے۔ مزید وضاحت کریں گے؟
جواب: جس انٹرویو کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، اُس وقت میرے ذہن میں علم کونیات پرلکھے گئے وہ سیکڑوں عربی مخطوطات تھے جوشمالی یورپ سے جنوبی ہندوستان تک اوراسپین سے وسطی ایشیا تک بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ تقریباً ہر قابلِ ذکر کتب خانے میں مل سکتے ہیں۔ سیکڑوں ایسے مخطوطات ہیں جو صدیوں سے اشاعت کے منتظر ہیں، تحقیقِ نوکے منتظر ہیں۔ مثال کے طور پر آندھرا پردیش کے شہر حیدرآباد دکن میں چار سے پانچ نایاب سائنسی نسخوں کا عربی اور فارسی مجموعہ موجود ہے، اور بلاشبہ کچھ نسخے اردو میں بھی موجود ہیں، یہ بہت بڑی تعداد میںقدیم آصفیہ کتب خانے میں آج بھی پائے جاسکتے ہیں، یہ اب آندھرا پردیش کا ریاستی آرکائیو بن چکا ہے۔ ان میں سے ہر ایک مجموعے میں علم فلکیات پر کم از کم دس نسخے شامل ہیں۔ اگر آپ اس علمی ذخیرے میں ہندوستان کے دیگر شہروں میں موجود علمی ذخیروں کو شامل کریں، ممبئی سے مراد آباد، اورکلکتہ سے پٹنہ اورلکھنؤ تک چلے جائیں، اور پھر ایران میں موجود نسخوں کا ذخیرہ اس میں شامل کرلیں، پھر ترکی اور وسطی ایشیا کے شہروں جیسے بخارا وغیرہ کے علمی ذخیرے بھی لے لیں، اور پھر یورپ کے تقریباً ہر بڑے شہر کے کتب خانے تک چلے جائیں، ویٹی کن سے پیرس، لائیڈن، لندن، اور کوپن ہیگن سے ایڈنبرگ تک نکل جائیں، علم فلکیات پر مسلمانوں کے علمی کام کا عظیم ذخیرہ مل جائے گا۔ گزشتہ انٹرویو میں جن آٹھ سو نسخوں کا حوالہ میں نے دیا تھا، وہ اُس وقت تک کی تحقیق کا بہت ہی محدود تخمینہ تھا۔
یہاں میں آپ کو’صلیبا قانون‘ (Saliba Law) سے متعارف کرواتا ہوں، جو کہتا ہے: ’’جہاں کہیں مسلمان ہیں، وہاں مسجد ہے۔ اور جہاں مسجد ہے، ایک کتب خانہ منسلک ہے، کوئی چھوٹا کوئی بڑا ہے‘‘۔ تقریباً سارے مذکورہ کتب خانوں میں مسلم ریاضی اور علم فلکیات پر بنیادی کام کے متون مل جائیں گے۔
سوال: مذہب کے بارے میں آپ کا ذاتی خیال کیا ہے؟
جواب: آپ کے سوالوں میں یہ سب سے سادہ سوال ہے۔ میں مذہب کو عقائد کا ایسا نظام سمجھتا ہوں جوسارے مذاہب پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی متحرک مابعدالطبیعاتی نظام ہے، جو مختلف مذاہب میں مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے، مختلف ثقافتوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر یہ بلاتفریق سارے اہلِ ایمان کی زندگی میں سکون اور اطمینان کا سبب ہے، زندگی کے ہر شعبے میں معاون ہے، خواہ ثقافتی پس منظر کچھ بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میں دینی فکر میں ایسی جاذبیت اور کشش پاتا ہوں، جوعقیدے سے ماوراء ہے۔