امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھارت، چین یا افغانستان کی نظر سے دیکھنے کے بجائے دو طرفہ بنیاد پر دیکھنا چاہیے
امریکہ میں نئی سیاسی قیادت جوبائیڈن کی صورت میں سامنے آچکی ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کی شکست اور اب امریکی ایوانِ نمائندگان میں ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی قرارداد کی منظوری کے بعد امریکی سیاست میں خاصی ہلچل مچ گئی ہے۔ سابق صدر ٹرمپ اور اُن کے حامی یقینی طور پر اپنے خلاف مواخذے کی تحریک پر خاموش نہیں رہیں گے، اُن کی مزاحمت کے نتیجے میں امریکہ کی نئی حکومت کو بھی سیاسی بحران کا خطرہ لاحق ہوگا۔ ٹرمپ نے امریکہ کی داخلی سیاست میں بہت گہری تقسیم پیدا کی ہے جو آسانی سے ختم نہیں ہوگی۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں نئی حکومت کو ایک بڑا چیلنج داخلی سیاست کے تناظر میں رہے گا، اور ٹرمپ کا جادو کسی نہ کسی شکل میں نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ ٹرمپ کا ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ٹرمپ امریکہ میں جو چھوڑ کر جارہا ہے اُس سے کیسے نمٹا جاسکے گا؟
امریکہ کی نئی سیاسی قیادت کے بعد ایک بنیادی نکتہ پاک امریکہ تعلقات کا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے بقول پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمیشہ ساس، بہو کے رشتے کی مانند رہی ہے۔ یعنی دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کو مطمئن کرنا آسان کام نہیں ہے۔ دونوں میں جہاں اچھے تعلقات سامنے آتے ہیں، وہیں بداعتمادی کے گہرے سائے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ملکوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں دوستی سے زیادہ مفاد کی اہمیت ہوتی ہے، اور وہی ملک خارجہ پالیسی میں اہمیت اختیار کرتا ہے جو اپنے مفاد کے ساتھ ساتھ دوسرے کے لیے مفاد کو قائم رکھے۔ اس لیے مسئلہ دوستی سے زیادہ تعلقات کی صورت میں ایک دوسرے کے مفاد کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہوتا ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب ہماری سیاسی اور عسکری قیادت برملا پاکستان کے مستقبل کو براہِ راست چین کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہی ہے، اور چین پر ہمارا انحصار بھی سی پیک کے بعد خاصا بڑھ گیا ہے، ایسی صورت میں مستقبل کے تناظر میں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری، توازن اور اعتماد سمیت دو طرفہ تعلقات میں گرم جوشی یا ایک دوسرے کی ضرورت بننا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ امریکہ میں بھی سیاسی فیصلوں میں امریکی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہوتا ہے اور وہاں کے اہم فیصلوں کو دیکھنے کے لیے وہاں موجود طاقت کے مراکز کے کھیل کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔ بالخصوص امریکہ کا داخلی بحران کسی نہ کسی شکل میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کو فیصلہ سازی میں اہم کردار دے سکتا ہے۔
اِس وقت پاک امریکہ تعلقات کا ایک بنیادی نکتہ افغانستان میں جاری امن کی بحالی کا سفر ہے۔ اس سفرمیں امریکہ کی سیاسی قیادت اور خود اسٹیبلشمنٹ کافی حد تک آگے بڑھ گئی ہے۔ اس اہم امن معاہدے کو یقینی بنانے میں امریکہ کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے۔ اس کا اعتراف اب امریکی سیاسی و عسکری قیادت سمیت اہلِ دانش بھی کرتے ہیں۔ افغانستان کے تناظر میں کچھ بڑی پیش رفت یا کامیابیوں کی صورت میں جو کچھ نظر آرہا ہے اس میں پاکستان کی سیاسی اور بالخصوص عسکری قیادت کا عمل دخل زیادہ ہے۔ بالخصوص اٹھارہ سال بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان تحریری معاہدہ کوئی معمولی کام نہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ کے نئے صدر اور امریکہ کے طاقت کے مراکز افغان مسئلے کے حل میں پہلے سے جاری کوششوں کو آگے بڑھائیں، اور اس میں کوئی نیا تجربہ کرکے حالات کو پیچھے کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ ورنہ حالات بگاڑ کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ افغانستان اب 2016ء سے مختلف ہے، اور نئے حالات میں افغانستان سے بہت اچھی خبریں بھی ہیں اور دنیا اس کو تسلیم بھی کررہی ہے۔
پاکستان کی ایک بڑی توقع امریکہ کی نئی قیادت سے پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کی صورت حال پر بھی ہے۔ کیونکہ نئی امریکی قیادت کو ایک نئے بھارت کا سامنا ہے جو عملی طور پر ہندتوا کی سیاست سے جڑ کر انتہا پسند پالیسی اور پاکستان مخالف ایجنڈے میں پیش پیش نظر آتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35-Aکی صورت میں کیا ہے اور جس بے دردی سے وہ وہاں ریاستی طاقت کی مدد سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے، وہ ایک بڑے عالمی اقدام کا تقاضا کرتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی امریکی قیادت جس نے اپنی انتخابی مہم میں کشمیر اور بھارت کی داخلی صورتِ حال پر خاصی تشویش کا اظہار کیا تھا، کیا وہ اب اقتدار میں آنے کے بعد عملی طور پر کچھ کرسکے گی؟ کیونکہ بھارت سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے اس پر عالمی برادری بشمول امریکہ کوئی سخت ردعمل نہیں دے گا۔ امریکہ کی نئی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ پاک بھارت تعلقات یا مقبوضہ کشمیر میں جو بحران ہے اس کا براہِ راست تعلق علاقائی داخلی استحکام سے بھی ہے۔ امریکہ کو یہ نکتہ بھی سمجھنا ہوگا کہ افغان بحران کے حل میں بھی بھارت رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے، اورکسی نہ کسی شکل میں وہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت میں بھی کھڑا ہے۔ کنگز کالج لندن میں دفاعی تعلیم کے پروفیسر اوی ناش پلوال کی کتاب ’’میرے دشمن کا دشمن‘‘ میں بھی لکھا ہے کہ بھارت امریکہ اور افغان معاملات میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتا ہے اور وہ اس ناکامی کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر امریکہ سمیت عالمی سطح پر مسائل پیدا کرنا اس کا ایجنڈا ہے اور وہ افغانستان میں ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔
امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھارت، چین یا افغانستان کی نظر سے دیکھنے کے بجائے دو طرفہ بنیاد پر دیکھنا چاہیے، اور اسے اس تاثر کی نفی کرنا ہوگی کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی اندھی حمایت میں کھڑا ہے۔
امریکہ بہت سے امور پر پاکستان پر ضرور دبائو ڈالے، لیکن یہ دبائو اُسے بھارت پر بھی ڈالنا ہوگا جو دو طرفہ تعلقات میں رکاوٹ پیدا کرنے اور ہمیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کا واضح ایجنڈا رکھتا ہے۔ امریکہ کا دبائو محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس دبائو کی واضح عملی شکلیں ہمیں بھی اور دنیا کو بھی واضح اور شفاف طور پر نظر آنی چاہئیں۔ پاکستان بنیادی طور پر اب معاشی سیکورٹی کے بڑے بیانیے کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا تعلق پاکستان سمیت علاقائی ممالک سے جڑا ہوا ہے، ایسے میں امریکہ کو ہماری حمایت میں بھی کھڑا ہونا چاہیے۔ کیونکہ معاشی استحکام اور سیکورٹی علاقائی اور عملاً گلوبل معاشی سیکورٹی کی بھی ضمانت بن سکتی ہے۔ امریکہ اگر پاکستان سے تعلقات کو ایک تسلسل، ترقی اور توازن کی بنیاد پر چلائے تو مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ امریکہ کو دہشت گردی کی جنگ کے خاتمے اور ایف اے ٹی ایف میں جو کردار ہم ادا کررہے ہیں اُسے اعتماد کی نظر سے دیکھنا ہوگا، اورہمارے داخلی مسائل اور مجبوریوں کو بھی سمجھ کر معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پا ک امریکہ تعلقات میں نئی امریکی قیادت کا بھارت کے حوالے سے جو بھی طرزِ عمل ہوگا وہی پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کی تصویر کو نمایاں کرے گا۔
امریکہ کو اپنی پالیسی میں مسائل پیدا کرنے کے بجائے مسائل کے حل کے طور پر خود کو پیش کرنا ہوگا، اور تمام ملکوں کے داخلی مفادات کو سمجھ کر اپنا ایجنڈا لانا ہوگا جو پورے خطے میں امن کے نئے راستے یا امکانات پیدا کرسکے۔ اسی طرح خود پاکستان کو بھی اپنے داخلی اور علاقائی سطح کے مسائل پر پوری دیانت داری سے توجہ دینا ہوگی۔ کیونکہ جب تک دو طرفہ بنیاد پر معاملات کو درست سمت نہیں دی جائے گی، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان کو عالمی سفارت کاری کے محاذ پر سنجیدگی سے بہت کچھ کرنا ہوگا اور دنیا کو شواہد کی بنیاد پر یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم دنیا کی ترقی اور مفادات کے ساتھ خود کو جوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ چین کے ساتھ اگر ہم آگے بڑھ رہے ہیں تو امریکہ کو بھی یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم اس سے بگاڑ یا تعلقات کو خراب کیے بغیر آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ نئی امریکی سیاسی قیادت پاکستان اور علاقائی سطح کے معاملات پر گہری نظر رکھتی ہے اور وہ اپنی سوچ، پالیسی یا فکر میںمثبت اقدامات کے ساتھ آگے بڑھ سکے گی۔