زیر نظر کالم کامستقل عنوان غالبؔ کی ایک غزل کے مشہور شعر سے ماخوذ ہے:۔
غَلَطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
(یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس شعر میں’’مضامیں‘‘کو نون غُنّہ کے ساتھ پڑھا جائے گا،کچھ لوگ غلط طور پر ’’ن‘‘ ناطق کے ساتھ پڑھتے ہیں۔)
یوں تو یہ پوری غزل ہی غالبؔ نے خوب باندھی ہے، مگر اس معترضانہ شعر پرکئی اعتراضات ہوئے۔ ایک تو غالب نے پہلی بار کسی شعر میں لفظ ’’غَلَطی‘‘ استعمال کیا۔ اس سے قبل ایسی غلطی کسی نے نہیں کی تھی۔ ’’غلطی‘‘ کے لیے بھی لفظ ’’غلط‘‘ ہی استعمال ہوتا تھا، کہ فارسی میں ایسا ہی ہے۔ میرؔ کا یہ شعراس کی مثال ہے:۔
غلط اپنا کہ اُس جفا جو کو
سادگی سے ہم آشنا سمجھے
اس شعر میں میرؔ نے اپنی ’’غلطی‘‘ ہی کا اعتراف کیا ہے، یعنی خطا میری ہی تھی۔ مگر اسے ’’اپنی غلطی‘‘ نہیں کہا ’’اپنا غلط‘‘ قرار دیا۔ تاہم غالبؔ کی غلطی سے اردو میں ’’غلطی‘‘ عام ہوگئی۔ مشہور مقولہ ہے غَلَط العام فصیحٌ۔ یعنی جو غلطی عام ہوجائے اور جسے فصحا جائزقرار دیں وہ فصیح سمجھی جائے گی۔ پس اب ’غلطی‘کہنا غلط نہیں رہا۔ البتہ ایسی غلطی جو عام لوگ اپنی ناواقفیت اور جہالت کی وجہ سے کرتے ہوں اور جس کو فصحا صحیح نہ مانتے ہوں (جیسے تابع کی جگہ تابعدار لکھنا اور بولنا) تو ایسی غلطیوں کو غلط العوام کہا جاتا ہے اور قبول نہیں، رَد کردیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس شعر میں ’’نالے کو رسا باندھنا‘‘ غلطی قرار دیا گیا ہے، بلکہ ’’غلطی ہائے مضامیں‘‘۔ اس کے باوجود غالبؔ نے خود بھی جا بجا نالے کو رسا باندھ رکھا ہے۔ مثلاً:۔
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
خیر، اپنا اپنا تجربہ ہے۔ غالبؔکا تجربہ یہ تھا کہ ان کے نالے (یعنی آواز کے ساتھ رونے دھونے) کی کہیں رسائی نہیں۔ لہٰذا ’’نالے کو رسا باندھنا‘‘ ٹھیک نہیں۔ اپنا تجربہ ذرا مختلف ہے۔ ہمارے ہاں جب سیلابی بارش ہوتی ہے تو راولپنڈی کے نالہ لئی اور کراچی کے لیاری نالے سمیت ہر نالے کی رسائی شہر بھر تک ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کسی کی، کسی تک رسائی نہیں رہتی۔ سو، پنڈی میں تو ہم نے خود دیکھا ہے کہ لوگ نالے پر رسّا باندھ باندھ کر نالہ پار کے لوگوں تک رسائی کرتے رہتے ہیں۔
لڑکپن میں ہم اپنے ساتھیوں سے ایک سوال کیا کرتے تھے:۔
’’بتائیے وہ کون سا لفظ ہے جسے بڑے بڑے عالم فاضل لوگ بھی غلط لکھتے، غلط پڑھتے اور غلط بولتے ہیں؟‘‘
سوال سنتے ہی سب سوچ میں پڑ جاتے۔ جب اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑا دوڑا کر (مع اپنے گھوڑوں کے) تھک جاتے تو ہم انھیں فخر سے بتاتے :
’’وہ لفظ، خود لفظِ ’’غلط‘‘ ہے۔ ’’غلط‘‘ کو اگر غلط نہ لکھا جائے، غلط نہ پڑھا جائے اور غلط نہ بولا جائے تو اور کیا کیا جائے؟‘‘
مگر اب ہمارے ذرائع ابلاغ نے بتا دیا ہے کہ ’’اور کیا کیا جائے‘‘۔ اِس ضمن میں انھوں نے یہ طے کیاکہ جب ہم دوسرے الفاظ کے غلط تلفظ عام کررہے ہیں، تو لفظ ’’غلط‘‘ کو کیوں بخشا جائے؟ چناں چہ اب ’’غلط‘‘ کا بھی غلط تلفظ عام کیا جارہا ہے۔ غلط کے ’’ل‘‘ کو جزم کے ساتھ (یعنی لام ساکن) بولا جانے لگا ہے۔ جب کہ ’’غلط‘‘ اور’’ غلطی‘‘ میں غین اور لام دونوں پر زَبر ہے۔ رندؔ کہتے ہیں:۔
ہم جو کہتے ہیں سراسر ہے غَلَط
سب بجا آپ جو فرمائیے گا
لُغوی اعتبار سے غلط کا مطلب ہے ’’خطا کرنا‘‘۔ جیسا کہ اوپر میرؔ کے شعر سے ظاہر ہے۔ مگر اب لفظ ’’غلطی‘‘ رائج ہوجانے کی وجہ سے اردو میں غلط کا مطلب نادرست، غیر صحیح، بگڑا ہوا، خلافِ واقعہ اور جھوٹ ہے۔ جب کہ غلطی کا مطلب لغزش، قصور اور خطا ہے۔
عربی اور فارسی کا لفظ ہونے کی وجہ سے غلط کی جمع اغلاط ہے۔ مگر غلطی چوں کہ صرف اردو بولنے والے ہی کرتے ہیں، چناں چہ غلطی کی جمع غلطیاںہے۔ غلط کا تابع مہمل سَلَط ہے۔ ’’کیسی غلط سلط باتیں کررہے ہو!‘‘ غلط کے ساتھ دوسرے الفاظ نتھی کرکے نئے معانی بنا لیے جاتے ہیں۔ مثلاً ’’غلط انداز‘‘۔ اس کا مطلب ہے نشانے پر نہ لگنے والا تیر، یا نشانے تک نہ پہنچنے والی نگاہ۔ فضل احمد کریم فضلیؔ کا شعر ہے:۔
اُس نگاہِ غلط انداز سے بچنا کیسا؟
اور گھایَل ہوا جو دُور نشانے سے رہا
’’رَہا‘‘ پر یاد آیا کہ اس کا ایک مطلب کسی کام سے رُک جانا یا باز رہنا بھی ہے۔ فضلیؔ کی اسی غزل کا مطلع ہے:۔
میں اُنھیں حالِ دلِ زار سنانے سے رہا
آہ کرنے سے رہا، اشک بہانے سے رہا
اگر کوئی بات سمجھنے میں غلطی ہوجائے تو اُسے ’’غلط فہمی‘‘ کہتے ہیں۔ اپنی ناسمجھی یا کسی اور وجہ سے کچھ غلط سمجھ لینے کو (میم پر پیش کے ساتھ) مُغالَطہ ہونا کہا جاتا ہے، اور جان بوجھ کر کسی واقعے میں غلط باتیں بیان کرنا مُغالَطہ پیدا کرنا کہلاتا ہے۔ محاورہ تو سمجھنے یا سمجھانے میں ’’غلطی ہونا‘‘ اور ’’غلطی کرنا‘‘ ہے، مگر ذرائع ابلاغ ہی سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کو ’’غلطی لگتی‘‘ بھی ہے اور بڑے زوروں سے لگتی ہے۔ پچھلے سنیچر کوایک ٹی وی چینل سے ’’علم و حکمت‘‘ کی باتیں سنتے ہوئے یہ جان کر حد درجہ حیرت ہوئی کہ ہمارے عالم و فاضل برادرِ بزرگ علّامہ جاوید احمد غامدی کو بھی ’’غلطی لگی‘‘ اور اچھی خاصی لگی۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی غلط اُردو دُرست کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ غلط فہمی ہی کی طرح غلط گوئی، غلط بیانی اور غلط بخشی بھی ہے۔ ’’غلط بخشی‘‘ بے موقع سخاوت دکھانے کو کہتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ صحیح ہے یا غلط، مگر ایک قصہ مشہور ہے کہ تیمور لنگ ایران فتح کرتے ہوئے جب شیراز پہنچا تو اُس نے حافظؔ شیرازی کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ تیمور کو حافظؔ کے بہت سے اشعار زبانی یاد تھے۔ حافظؔ شیرازی خاصے خوش پوش تھے۔ اچھے سے اچھا لباس پہنا کرتے تھے۔ مگر تیمور کے دربار میں گئے تو معمولی کپڑے پہن کر گئے تاکہ بظاہر غریب نظر آئیں۔ جب وہ تیمور کے سامنے جاکر مؤدب کھڑے ہوگئے تو بادشاہ نے تیوریوں پر بل ڈال کر پوچھا: ’’یہ شعر تمھارا ہے؟
اگر آں تُرکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بخالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را‘‘
(اگر وہ شیرازی تُرک [مُرادہے محبوب] میرا دل اپنے ہاتھوں میں لے لے تو میں اُس کے سیاہ تل پر سمرقند و بخارا نچھاور کردوں)
تیمور کی زبان سے حافظؔ کو اپنا شعر سن کر خوش گوار حیرت ہوئی اور سر جھکا کر کہا:’’ہاں اے بادشاہ! یہ میرا ہی شعر ہے‘‘۔
بادشاہ نے غصے بھری رعونت سے کہا:۔
’’سمر قند کو ہم نے قیمتی جانیں گنوا کر بزورِ شمشیر حاصل کیا ہے۔ پھر دنیا بھر سے نوادرات لا کر اسے مزیّن کیا اور اُس کے حسن وجمال میں چار چاند لگائے۔اِدھر تم ہو کہ اس عظیم شہر کو مفت میں شیراز کی ایک دوٹکے کی چھوکری کو بخشے دے رہے ہو‘‘۔
بادشاہ کا غیظ و غضب دیکھ کر حافظؔ پہلے تو بہت سٹپٹائے اور گھبرائے کہ آج تو بُرے پھنسے، اس شعر نے تو جان لے لینے میں کوئی کسرہی نہیں چھوڑی۔ پھر ہمت کرکے اپنے ملبوس کی طرف اشارہ کیا اور کہا:۔
’’اے امیرِ تاتار! انھی غلط بخشیوں نے تو اِس حال کو پہنچایا ہے‘‘۔
’’این جواب بادشاہ را خوش آمد‘‘
یعنی یہ جواب بادشاہ کو پسند آیا اور اُس نے بہت سا انعام و اکرام دے کر حافظؔ کو رخصت کیا۔